معاشی بہتری کے آثار
ایسے لگتا ہے کہ جیسے قومی معاملات بہتر ہونا شروع ہو گئے ہیں قدر زر ایک سطح پر اور ایک حد تک مستحکم ہو چکی ہے ایک عرصہ ہو گیا ہے کہ ڈالر نے ہلکی پھلکی بھی اڑان نہیں بھری، ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر بھی اتنے ہی بھرے ہوتے ہیں جتنے ہونا چاہئیں توازن تجارت کی حالت بھی تسلی بخش ہے گو ہماری درآمدات ویسے ہی اشیاء تعیش اور کئی غیر ضروری اشیاء پر مشتمل ہے لیکن اس کے باوجود معاملات قابو میں نظر آ رہے ہیں۔ ٹیکس وصولیوں کی صورت حال بھی تسلی بخش نظر آ رہی ہے۔ ہم نے بجٹ 2024-25ء کو عالمی ساہوکاروں کی شرائط اور ہدایات کے مطابق ترتیب دیا ہے اس میں ٹیکس ہی ٹیکس ہیں زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصولیوں کی پالیسی کے تحت رقوم اکٹھی کرنا حکومت کا فرض منصبی قرار پا چکا ہے۔ سرکاری اخراجات میں کمی کی پالیسی کے تحت ایک طرف گھاٹے میں چلنے والے سرکاری ادارے فروخت کئے جا رہے ہیں جیسا کہ پی آئی اے، سٹیل ملز وغیرہ۔ دوسری طرف سرکاری وزارتوں کے ادغام اور محکموں کے خاتمے کے ذریعے اخراجات کا بوجھ کم کرنے کی کاوشیں کی جا رہی ہیں۔ اس حوالے سے شدید ردعمل بھی سامنے آ رہا ہے ہڑتالیں ہو رہی ہیں، دھرنے دیئے جا رہے ہیں، ہڑتالیں کامیاب بھی ہو رہی ہیں، دھرنے شاندار بھی ہیں۔ عوامی ردعمل مستحکم اور منظم نظر آ رہا ہے لیکن ایسے لگتا ہے کہ حکومت اپنی ہی دھن میں چلی جا رہی ہے لگے بندھے انداز میں،طے شدہ فریم ورک پر عمل پیرا ہے اسے عوامی ری ایکشن کی پروا نہیں ہے اسے آئی ایم ایف کو راضی کرنا اور راضی رکھنا ہے۔ بیل آؤٹ پیکیج کی دستاویز میں درج قبول کردہ شرائط پر عمل پیرا ہونا ہے تاکہ اسے 7ارب ڈالر کی قرض رقم مل سکے یہ رقم حکومت کے لئے پاکستان کے لئے لائف لائن ہے ہم گزشتہ سے پیوستہ سال میں آئی ایم ایف کی حکم عدولی کا مزہ چکھ چکے ہیں۔ عمران خان کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنے کے بعد جب طے شدہ شرائط کے برعکس، معاملات چلانے کی حکمت عملی اختیار کی تو اس کے خوفناک نتائج نکلے تھے۔ پاکستان دیوالیہ ہونے کے کنارے پہنچ گیا عوام تو عملاً دیوالیہ بھی ہو گئے تھے پاکستان عالمی مالیاتی اور زرعی اداروں سے مکمل طور پر الگ کر دیا گیا تھا دوست ممالک نے بھی ہر قسم کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ برادر اسلامی ممالک بھی ہم سے دور ہو گئے تھے یہ بہت خوفناک صورت حال تھی ایسے میں 16ماہی شہبازشریف کی حکومت نے معاملات کو بیک ٹو ٹریک لانے کی سرتوڑ کاوشیں کیں۔نئے وژن اور حکمت عملی کے تحت ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات شروع کئے ان کی کڑی شرائط کو تسلیم کیا اور سدھار پیدا کرنے کی کامیاب کاوشیں کیں گو معاملات دوبارہ پٹڑی پر چڑھ گئے لیکن عوام کو اس کی بھاری اور ناقابل بیان اور ناقابل برداشت قیمت ادا کرنا پڑی۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ اس کے بعد آنے والی کیئرٹیکر حکومت نے بھی انہی پالیسیوں پر عملدرآمد جاری رکھا پاکستان عالمی برادری کے ساتھ جڑا رہا۔ معاملات آگے بڑھتے رہے۔ پھر الیکشن 2024ء کے بعد شہبازشریف کی قیادت میں اتحادی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ 7ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج پر سٹاف لیول پر دستخط کئے تو معاملات میں بہتری،واضح بہتری کی امید پیدا ہوگئی۔ معاشی اشاریئے مثبت سمت میں چلتے نظر آنے لگے۔ فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری کے بعد جب رقم کی ترسیل و تقسیم شروع ہو جائے گی تو معاملات میں بہتری نہ صرف واضح تر ہو جائے گی بلکہ اس میں تیزی بھی آ جائے گی۔
بجلی و گیس کی قیمتوں کے معاملات قابو میں نہیں ہیں گزری تین دہائیوں یا اس سے بھی زیادہ عرصے میں جو معاملات روا رکھے گئے ہیں ہمارے حکمرانوں، پالیسی سازوں اور ذمہ داران نے اس شعبے میں جو کچھ کیا اور جس طرح کیا ہے اس کے بارے میں جو جزوی معلومات اور حقائق قوم کے سامنے آ رہے ہیں۔ وہ انتہائی مشکوک اور شرمناک ہیں۔ خوفناک ہیں ان معاملات کو کسی طور بھی درست نہیں کہا جا سکتا ہے۔ انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (IPPs) کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی شرائط عوام دشمن لگتی ہیں اور یہ انہی شرائط پر عملدرآمد کا نتیجہ ہے کہ آج بجلی قابوسے باہر ہو چکی ہے۔ اس کی قیمت جو آئی پی پیز کی ادائیگیوں کے طے کی گئی، عوام اور صنعت و تجارت پر بھاری پتھر کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ ہماری صنعتی پیداوار عالمی منڈی میں مقابلے سے باہر ہو رہی ہے جس کے باعث صنعتی تعمیر و ترقی کا پہیہ سست روی کا شکار ہو گیا ہے۔صنعتوں کی بندش نے بے روزگاری کو فروغ دیا ہے۔ یہاں سے ٹیکسوں کی وصولی کا حجم گرتا چلا جا رہا ہے۔ حکومت ٹیکسوں کی شرح بڑھا کر وصولیوں کا طے کردہ حجم پورا کرتی ہے۔ کاروباری حضرات بجلی کے بلندشرح بلوں سے عاجز آ چکے ہیں وہ ٹیکس ادا کرنے سے انکاری ہیں پہلے انہوں نے Posکا نظام نہیں چلنے دیا۔ حکومت اس نظام کی ناکامی کا اعتراف بھی کر چکی ہے اب ”تاجر دوست سکیم“ کو بھی مسترد کر دیاگیا ہے۔28اگست کو ہونے والی کامیاب شٹرڈاؤن ہڑتال اس بات کی غماز ہے کہ تاجر اس دفعہ بھی نئی سکیم کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ حکومت نے تو ٹیکس وصولیوں کا حجم ہر صورت میں پوراکرنا ہے اس لئے وہ پہلے سے بھی ٹیکس نیٹ میں شامل ٹیکس دھندگان پر مزید بوجھ لاد دے گی۔درست سمت میں چلتے چلتے معاملات کے بگاڑ کی طرف چلے جانے کے امکانات بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ حکومت آئی پی پیز کے معاملات درست کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آ رہی، ان معاملات کی شفافیت مشکوک ہے۔ مکمل طورپر مشکو ک ہے، بجلی کے بحران میں کئی پردہ نشین بھی شامل ہیں اس لئے سردست ایسا لگتا ہے کہ معاملات شاید بہتر نہ ہو سکیں۔ حکمران عوام کو لالی پاپ دے کر بہلاتے رہیں گے۔
دوسری طرف سیاسی معاملات ہیں جن پر عمران خان کے سائے پڑ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی اور ہمنوا مسلسل پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ سیاسی بحران ہے۔ یہ بات جزوی طور پر درست ہو سکتی ہے کیونکہ ایک مقبول قیادت اور اس کے حواری جیلوں میں ہیں، روپوش ہیں، حکومت و ریاست کو مطلوب ہیں، کریک ڈاؤن کی زد میں ہیں اس لئے انہیں یہی کہنا چاہیے کہ سیاسی بحران ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ بیان کردہ بحران کا ذمہ دار کون ہے پی ٹی آئی والے اسمبلیوں میں بھی بیٹھے ہیں جنہیں وہ ماننے سے انکاری ہیں،جس الیکشن کمیشن نے الیکشن کرائے اور ان کے نتیجے میں کے پی کے کی حکومت بنی، پی ٹی آئی پارلیمان میں پہنچی، کمیٹیوں میں شامل ہوئی، اسی الیکشن کمیشن کو نہیں مانتے۔ عدلیہ اگر ان کے موافق فیصلہ دے تو واہ واہ کرتے ہیں۔ بصورت دیگر اسے بھی ماننے سے انکاری ہیں۔ ایک طرف فوج سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سیاسی عمل سے الگ رہے۔ دوسری طرف اسی کے ساتھ سیاسی مذاکرات کے لئے منتیں ترلے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت اور کچھ لوگ قومی ملزم ہیں۔ ریاست پر حملہ آور ہونے کے ملزم ہیں انہیں کیفر کردار تک پہنچائے بغیر سیاست میں ٹھہراؤ اور استحکام ممکن نہیں ہوگا اس لئے جتنی جلدی ممکن ہو ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا بندوبست کرنا چاہیے تاکہ ملکی تعمیر و ترقی کا سفر ہموار ہو جائے۔