ترک السلام علیکم نہیں ”مرحبا“ کہتے ہیں، جب آپس میں الوداع ہوتے ہیں تو خدا حافظ نہیں ”گلے گلے“ کہتے ہیں، وہ فارسی ترکیب ترک کر چکے تھے
مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
قسط:13
کرسمس ہی کرسمس
ترکی میں داخل ہونے سے قبل پورے مغربی اور مشرقی یورپ میں ہر طرف رنگارنگ روشنیاں اور چہل پہل تھی۔ پوری عیسائی دنیا کو کرسمس منانے کی ایسی مصروفیت تھی کہ انہیں کسی اور چیز کا ہوش نہ تھا۔ مشرقی یورپ کے کمیونسٹ ممالک میں بھی ہر طرف رعایتی قیمت پر ہر چیز میسر تھی۔ کھانے پینے کی اشیاء کا ایک سیلاب تھا جو کہیں رُک گیا۔ دُکاندار چیز اُٹھا کر دے دیتا کہ پیسے ہیں تو دے دو نہیں ہیں تو لے جاؤ ہیپی کرسمس۔ اور چیزیں تو تھیں ہی۔ یورپ کے بیسیوں شہروں میں بہت سے لوگ مختلف مقامات پر اپنے مشروبات کی بوتلیں لے کر بیٹھے تھے اور آنے جانے والوں کو مشروبات پینے کے لیے اصرار کرتے۔ بہت سے ہم جیسے لوگ ان سے معذرت کر کے جان چھڑا رہے تھے۔ مگر مشرقی یورپ میں تو انگریزی کم لوگ سمجھتے ہیں وہ اپنی زبان میں اصرار کرتے رہتے اور پرہیز کرنے والے اپنی زبان میں شکریہ اور معذرت کرتے۔
مشرقی یورپ کے مختلف ممالک کے بارے میں ہمیں اس وقت پتہ چلتا جب کوئی سرحدی چوکی آتی۔ ہمارے پاسپورٹ چیک کیے جاتے۔ گاڑی کی ایک دو جگہ پر تلاشی بھی لی گئی مگر زیادہ تر سرحدی چوکیوں پر۔ فوجیوں اور سرحدی چیک پوسٹوں کے نگران کرسمس کی خوشیوں میں ایسے سرگرم تھے کہ وہ ہمیں ہی کرسمس کی کوئی تفریحی پارٹی خیال کرتے ہوئے تحفے تحائف دیتے۔ بلغاریہ سے ہوتے ہوئے جب ہم ترکی میں داخل ہوئے تو ہمیں محسوس ہوا کہ ہم ایک مسلمان ملک میں داخل ہوئے ہیں۔ باضابطہ چیکنگ کا آغاز ہوا۔ انہوں نے ہماری ایک ایک چیز چیک کی۔ کاغذات، دستاویزات سب چیک کئے۔ اس کے بعد انہوں نے ترکی میں ہمارے ممکنہ قیام کی تفصیلات حاصل کیں۔ ہمارے پاسپورٹ پر ٹرانزٹ ویزے لگائے۔ میں اگرچہ اس سے قبل ترکی نہیں آیا تھا مگر مجھے ترک دوستوں کے ذریعہ معلوم ہوا تھا کہ ترک جب ملتے ہیں تو وہ السلام علیکم نہیں کہتے بلکہ ”مرحبا“ کے لفظ کو دہراتے ہیں اور کہنے والے کے ساتھ اپنائیت محسوس کرتے ہیں۔ اسی طرح جب کسی سے علیٰحدہ ہوتے ہیں تو خدا حافظ نہیں کہتے بلکہ یہ فارسی ترکیب وہ ترک کر چکے ہیں اور آپس میں الوداع ہوتے ہوئے وہ ایک دوسرے کو ”گُلے گُلے“ کہتے ہیں۔
ترکی میں جب ہم ہوٹل میں گئے تو میں نے وہاں موجود بہت سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ پایا۔ وہ تجسس سے دیکھ رہے تھے کہ یہ کون لوگ ہیں۔ میں نے اُن کا تجسس بھانپ لیا۔ دونوں ہاتھ اٹھا کر میں نے بآواز بلند کہا ”مرحبا، مرحبا“ جس پر ہر طرف سے مرحبا کا جواب مرحبا کی صورت میں واپس آنا شروع ہو گیا۔ بہت سے لوگ اٹھ کر ہمارے پاس آئے اورگلے ملے۔ ہم نے اُنہیں بتایا کہ ہم پاکستانی ہیں، انگلینڈ سے آئے ہیں۔ پاکستان جا رہے ہیں۔ اس پر ترک دوستوں نے ہماری بہت آؤ بھگت کی اور کہا کہ پاکستان ترکی کا دوست ملک ہے۔ ہم پاکستانی دوستوں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ میں نے ترکی کے مسلمانوں کی تاریخ بڑی تفصیل سے پڑھ رکھی تھی میں نے اپنے بڑے بھائی صاحب اور دیگر ساتھیوں کو بتایا کہ ترکوں کی تاریخ پر خلافت عثمانیہ کے انمٹ نقوش ہیں اور برصغیر پاک و ہند کے مسلمان ترکی کے نظام خلافت کا اپنے آپ کو ہمیشہ ایک حصہ خیال کرتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ کے ساتھ جنگ کے دوران ترکی کے مجاہد لیڈر اتاترک مصطفی کمال پاشا برصغیر کے مسلمانوں میں بھی بہت مقبول تھے۔ پاکستان میں تو آج بھی بے شمار گھرانوں میں مصطفی کمال پاشا اور ان کے ساتھیوں کی تصاویر موجود ہوں گی۔ اور خلافت عثمانیہ پر وبال آیا تو برصغیر کے مسلمانوں کا ایک وفد…… برصغیر کے مسلمانوں کی طرف سے عطیات اور تحائف لے کر ترکی گیا تھا اور وہاں اتا ترک مصطفی کمال پاشا کو برصغیر کے مسلمانوں کا محبت بھرا پیغام بھی پیش کیا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔