رات بہت بے چینی اور اضطراب میں کروٹیں بدل بدل کر گزاری، کسی سے ذکر نہیں کیا،اگلے دن بجھے ہوئے اداس دل کیساتھ گالف کلب جا پہنچا 

رات بہت بے چینی اور اضطراب میں کروٹیں بدل بدل کر گزاری، کسی سے ذکر نہیں ...
 رات بہت بے چینی اور اضطراب میں کروٹیں بدل بدل کر گزاری، کسی سے ذکر نہیں کیا،اگلے دن بجھے ہوئے اداس دل کیساتھ گالف کلب جا پہنچا 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد اسلم مغل 
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید 
 قسط:215
میں نے رات بہت بے چینی اور اضطراب میں کروٹیں بدل بدل کر گزاری، میں نے اس بات کا ابھی تک کسی سے ذکر نہیں کیا تھا۔ اگلے  دن میں بجھے ہوئے اور اداس دل ساتھ گالف کلب جا پہنچا۔ اور بے دلی سے تھوڑا سا کھیل کر میں نے فیصلہ کیا کہ میں اس سلسلے میں اپنے دوست الیا س چوہدری سے بات کروں جو بہت ہی سمجھدار، با خبر اور اچھا اثر و رسوخ رکھنے والا ایک نفیس انسان ہے۔ اس کے سامنے میں نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا اور اس نا گہانی پریشانی بارے بتایا۔ جسے سن کر وہ بھی بجھ سا گیا۔ اس نے اسی وقت اپنے بھتیجے کو ٹیلیفون کیا جو شوکت خانم میموریل ہسپتال میں چیف فزیشن تھا۔ اس نے کہا وہ اسی وقت جمخانہ گالف کلب پہنچ رہا ہے اس لیے رپورٹیں تیار رکھیں۔ ان رپورٹوں کو دیکھنے کے بعد اس کا سب سے پہلا رد عمل یہ تھا کہ پھیپھڑوں میں سے جلد از جلد پانی کا اخراج کیا جائے، اس نے اس سلسلے میں شوکت خانم کے علاوہ اور بھی کئی ہسپتالوں سے رابطہ کیا لیکن بدقسمتی سے عید کی چھٹیوں کی وجہ سے سارے ہسپتال معمول کی کارروائیوں کے لیے بند تھے۔ اسے دوران الیاس چوہدری نے اپنے ایک دوست ڈاکٹر عمران وحید سے رابطہ کیا جو شہر میں الٹرا ساؤنڈ کے شعبے میں ایک اتھارٹی مانے جاتے تھے۔ اس نے کہا کہ چھٹیوں کی وجہ سے میرا کلینک تو بند ہے مگر یہ ایمرجنسی ہے آپ مریض کو لے کر پہنچیں۔ میں فوراً گھر لوٹا، سامعہ کو ساتھ بٹھایا اور ڈاکٹر عمران کے کلینک کی طرف روانہ ہو گیا ہمارے۔ ساتھ الیاس چوہدری بھی تھے اسی دوران ڈاکٹر عمران وحید بھی آ پہنچے اور انھوں نے اپنا کلینک کھولا اور اوپر رہائش پذیر اپنی بہو کو بلایا اور پھر دونوں نے فوری طور پر اپنا کام شروع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں 3لیٹر پانی نکلا اور سامعہ نے اپنے آپ کو بہتر محسوس کرنا شروع کر دیا۔ میرے اصرار کے باوجود ڈاکٹر عمران نے کسی بھی قسم کی فیس لینے سے انکار کر دیا۔ میں نے دل کی گہرائیوں سے ان کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے جس موقع پر اور جن حالات میں ہماری مدد کی تھی میں اسے کبھی بھول نہیں پاؤں گا۔ 
چوہدری الیاس نے شوکت خانم ہسپتال کے پھیپھڑوں کے ڈاکٹر سے عید کے فوراً بعد کا وقت لے رکھا تھا۔ اس نے کچھ اور ٹیسٹ کروانے کو بھی کہا لیکن نجانے کیوں اس نے پھیپھڑوں میں دوبارہ پانی جمع ہونے کے مسئلے پر بات نہیں کی جس کی وجہ سے مجھے کچھ مایوسی بھی ہوئی۔ اسی دوران امریکہ میں میرے بیٹے عمر اور سامعہ کے بھائی ڈاکٹر شاہد نے میو کلینک، ابو ظہبی کے کچھ ڈاکٹروں کے علاوہ لاہور کے مشہور  پلمونولوجسٹ ڈاکٹر کامران چیمہ اور سرجن ڈاکٹر علی سے بھی رابطہ کیا جو شوکت خانم میں کام کر چکے تھے۔ ان سب سے صلاح مشورہ کے بعد ہمیں لاہور کے سب سے بڑے اور جدید ڈاکٹرز ہسپتال میں اپائنٹمنٹ دلا دی گئی۔ اگلے دن انھوں نے فوری طور پر پانی نکالنے کے لیے چھوٹے سے آپریشن کا کہا۔انھوں نے پھیپھڑں سے پانی نکالنے کا عمل کیا اور رپورٹ کے لیے ضروری نمونے حاصل کیے، یہ عمل ستمبر کے آخری دنوں میں کیا گیا تھا۔ جس کے بعد حالت میں کچھ بہتری آ گئی۔ اور پھر ان ٹیسٹوں کی روشنی میں ڈاکٹر کامران چیمہ نے ایک دوا تجویز کی جس کے بعد سامعہ کی طبیعت معجزانہ طور پر سنبھل گئی اور وہ بہتری کی طرف چل پڑی۔ رفتہ رفتہ طبیعت میں یہ افاقہ اس قدر ہوگیاتھا کہ اس نے تقریباًمعمول کی زندگی گزارنا شروع کر دی تھی۔ ہم نے ایک بار پھر دوستوں سے ملاقات کے بہانے تلاش کر لیے۔ اس دوران ہم اس کی طبیعت کی بحالی کا فائدہ اٹھا کر ڈسکہ اور اسلام آباد بھی ہو آئے تھے۔  
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -