سیاستدانوں کا امتحان!
الیکشن کمیشن نے بیلٹ پیپر پر امیدواروں کے ساتھ ساتھ ایک خالی خانہ رکھنے کا بھی فیصلہ کیا ہے، جس میں ووٹر اگر چاہے تو یہ لکھ سکے گا کہ پرچی میں موجود کسی امیدوار کو ووٹ نہیں دینا چاہتا۔ اس فیصلے پر خاصی لے دے ہو رہی ہے اور مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف نے تو باقاعدہ مخالف کر دی ہے۔ الیکشن کمیشن کی منطق تو شاید یہ ہے کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ پولنگ سٹیشنوں تک لایا جاسکے، لیکن یہ خالی خانہ اس ضمن میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟ اس کا فی الوقت اندازہ لگانا مشکل ہے۔ خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر خالی خانے کے ووٹ امیدواورں سے بڑھ گئے تو پھر کیا ہوگا۔ کیا الیکشن دوبارہ کرانے پڑیں گے یا کوئی دوسرا فارمولا آزمایا جائے گا؟ میرے نزدیک ایسا ممکن نہیں، ہاں چند فیصد لوگ ضرور ایسے ہو سکتے ہیں، جو بددلی یا مایوسی کا شکار ہو کر تمام امیدواروں کو مسترد کر دیں، تاہم ایسا نہیں ہو سکتا کہ کسی حلقے کے لوگوں کی اکثریت ہی تمام اُمیدواروں کے خلاف ووٹ دینے کا فیصلہ کرلے۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ایک ہی جست میں آئیڈیل صورت حال پیدا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، حالانکہ بہت سی باتیں وقت کے ساتھ ساتھ خود بخود سر زد ہوتی چلی جاتی ہیں، جس طرح آج کل عوامی نمائندگی کے خواہش مندوں کو آئینی شقوں62، 63 سے گزار کر فرشتے ڈھونڈنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ریٹرننگ افسران اسلامی اور دینی سوالات، نیز تاریخی واقعات کے بارے میں امیدواروں کی معلومات کا جائزہ لے کر ان کی قسمت کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ کسی منچلے نے یہ پھبتی کسی ہے کہ دعائے قنوت سننے والے ریٹرننگ افسر کے بارے میں کون یہ فیصلہ کرے گا کہ اسے دعائے قنوت پورے تلفظ کے ساتھ آتی بھی ہے یا نہیں؟....اس نے تو صرف سننی ہے، عدالت میں کوئی قاری بھی نہیں بٹھا رکھا جو اس کی صحت کا فیصلہ کرے۔ یک دم ایک ایسی لہر چلی ہے کہ امیدوار تو انگشت بدنداں ہیں ہی، عام آدمی بھی اس فکر میں غلطاں ہے کہ اگر سارے ہی فرشتے میدان میں رہ گئے تو وہ کسے ووٹ دے گا۔ بات چل نکلی ہے اور لگتا ہے کہ بہت دور تک جائے گی، مگر سوال پھر وہی ہے کہ اس ساری مشق کے نتیجے میں کیا ہم ایک نیک اور صالح قیادت کو لانے میں کامیاب رہیں گے؟
اگر اس قدر مشکل چھلنی سے گزارنے کے باوجود ہم ووٹ کی پرچی میں خالی خانہ بھی رکھ رہے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنے اس سارے عمل پر بھی اعتبار نہیں۔ بیک وقت بہت سے فیصلے کرنے سے اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ کوئی بھی ہدف حاصل نہ کیا جاسکے۔ اگر الیکشن کمیشن کڑی سکروٹنی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے، تو پھر عوام کو اس بات کی ترغیب دی جانی چاہئے کہ وہ ان لوگوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیں، چہ جائیکہ انہیں یہ موقع دیا جائے کہ وہ ان سے بھی بڑھ کر نمائندوں کے انتظار میں ان سب کو مسترد کر کے خالی خانے میں مہر لگا دیں۔ جہاں جمشید دستی جیسے لوگ الیکشن سے دستبردار ہونے لگیں۔ وہاں اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ صورت حال کس قدر غیر موافق ہو چکی ہے۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ جمشید دستی کو ان کے حلقے میں ہرانا اب کسی کے بس کا روگ نہیں ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جمشید دستی نے عام آدمی کے ساتھ اپنے تعلق کو اس قدر مضبوط کر لیا ہے کہ اب اسے جمشید دستی کے سوا دوسرا کوئی خیر خواہ نظر ہی نہیں آتا، بلکہ یہ امکان موجود ہے کہ اب ان کے حلقے میں لوگوں کی ایک بڑی اکثریت خالی خانے میں نشان لگا آئے۔ جمشید دستی نے چونکہ غربت سے امارت تک کا سفر کیا ہے، اس لئے وہ جانتا ہے کہ عوام کو کیسے متاثر کرنا ہے؟ وہ اپنے حلقے میں ایمرجنسی 15 کے نام سے مشہور ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمشید دستی لوگوں کی ہر آواز پر لبیک کہتا رہا ہے۔ اسے حلقے میں کوئی نہیں ہرا سکتا تھا، لیکن وہ جعلی ڈگری کیس کے ہاتھوں ہار گیا۔
جب اس نے رُندھی ہوئی آواز میں الیکشن نہ لڑنے کا اعلان کیا تو یقیناً اس کے حلقے میں لوگ سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہوں گے۔ اُس نے علاقے میں 4 بسیں مفت چلا رکھی تھیں۔ یہ عوام کے لئے بہت بڑا سہارا تھا۔ اب وہ بسیں بند ہوگئی ہیں۔ سچی بات ہے، میرے پاس جمشید دستی کی اس بات کا کوئی جواب نہیں کہ اگر آمر پرویز مشرف کو الیکشن لڑنے کی اجازت مل سکتی ہے تو اسے کیوں انکار کیا گیا۔ اگر جعلی ڈگری والوں کی اسمبلی بنوانے والا انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے تو ایک جعلی ڈگری والا انتخابات میں حصہ کیوں نہیں لے سکتا؟ اب جمشید دستی کو کون سمجھائے کہ پانی نشیب میں گرتا ہے، فراز پر نہیں چڑھتا۔ پرویز مشرف کے بارے میں تو خود چیف جسٹس نے کہہ دیا ہے کہ ان کے خلاف کارروائی کرنے کے مجاز کارروائی کیوں نہیں کرتے۔ کیوں یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ ہر کام سپریم کورٹ ہی کرے گی، حتیٰ کہ پرویز مشرف کو تو الیکشن کمیشن بھی 62، 63 شقوں کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار نہیں دے سکتا، حالانکہ پرویز مشرف نے اپنے حلف سے غداری کی، ملکی آئین توڑا، حتیٰ کہ چیف جسٹس تک کو غیر قانونی طور پر معطل اور محبوس کیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت بھی ایک طرف سارا زور آئیڈیل صورت حال کی تشکیل پر دیا جا رہا ہے تو دوسری طرف بدنمائی کے وہ مظاہر بھی موجود ہیں، جن کے خلاف یہ سب علم بغاوت بلند کیا گیا ہے۔
ایک ایسے ملک میں، جہاں معاشرے کے ہر طبقے میں برائی اور مفاد پرستی رچ بس گئی ہے، ہم ایسے عوامی نمائندے ڈھونڈنے نکلے ہیں۔ جن کے دامن پر کوئی داغ نہ ہو، جو فرشتوں جیسی سیرت رکھتے ہوں۔ ایسے میں کچھ لوگ بجا طور پر یہ سوال کرتے ہیں کہ سیاستدان پر تو 62، 63 کی شقوں کا اطلاق کر دیا گیا ہے، کیا معاشرے کے دیگر شعبوں پر بھی ان کا اطلاق ہوگا۔ کیا فوج، جج، بیورو کریٹ، صنعت کار، تاجر، وڈیرے اور جاگیردار بھی اب چھلنی سے گزارے جائیں گے؟ سیاستدان اور عوامی نمائندے تو پھر بھی اپنے ووٹروں کی کچھ شرم کھاتے ہیں، بیوروکریسی اور دیگر بالادست طبقوں سے تعلق رکھنے والی اشرافیہ تو عوام سے ملنا تک گوارا نہیں کرتی، سیاستدانوں اور عوامی نمائندوں کے نام پر اصل حکمرانی وہی کرتے ہیں، لیکن الزام سارا سیاستدانوں پر آتا ہے۔ کرپٹ سے کرپٹ وزیر بھی اپنے سیکرٹری اور عملے کے بغیر ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کر سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ برابر کا شریک ہوتا ہے، مگر مشکل پڑے تو صاف بچ نکلتا ہے۔ سیاستدان تو اب ایک کڑی سکروٹنی سے گزر ہی رہے ہیں، تاہم انہیں یہ تہیہ کر لینا چاہئے کہ منتخب ہونے کے بعد وہ کسی ایسے کرپٹ اہلکار کو نہیں چھوڑیں گے جو اُن کے نام کو داغدار کرنے کی کوشش کرے گا۔ صرف یہی وہ راستہ ہے، جس پر چل کر آج نہیں تو کل سیاستدان اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرا سکتے ہیں۔
فرشتے تلاش کرنے کی جو مشق الیکشن کمیشن کر رہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ توقع باندھ لینا کہ اب صالح اور اچھی قیادت سامنے آئے گی، ایک خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔ الیکشن کمیشن کے میکانکی اقدامات کے ذریعے اچھی قیادت کا ابھرنا خام خیالی ہے۔ الیکشن کمیشن نے کوئی پولٹری فارم نہیں کھول رکھا، جہاں اپنی مرضی کے چُوزے پید اکر سکے۔ اچھی قیادت خود سیاستدانوں کے اپنے فیصلوں سے سامنے آسکتی ہے۔ انہیں اس بار یہ طے کرنا ہے کہ وہ پورے معاشرے کی بداعمالیوں کا بار اپنے کاندھوں پر اٹھائے رکھنا چاہتے ہیں یا پھر یہ فیصلہ کرنا ہے کہ معاشرے کو ایک صالح قیادت دے کر سرکاری مشینری کو راہ راست پر لانا ہے جو ہمیشہ سیاسی قیادت کی کرپشن اور لوٹ مار کی کہانیاں سنا کر اس سے کہیں زیادہ بدعنوانی کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتی ہے۔ اصل تبدیلی یہی ہوگی اور اس کے لئے سیاستدانوں کو ایک اجتماعی لائحہ عمل مرتب کرنا چاہئے تاکہ ان کے دامن پر شرمندگی کے جو داغ لگے ہیں، وہ اس طرح صاف ہوں کہ آئندہ 62 ، 63 کی شقیں ان کا راستہ نہ روک سکیں۔ ٭