پرویز مشرف کی نادانی یا نادان دوستوں کی جلد بازی!

پرویز مشرف کی نادانی یا نادان دوستوں کی جلد بازی!
پرویز مشرف کی نادانی یا نادان دوستوں کی جلد بازی!
کیپشن: naseem shahid

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آرٹیکل6کے تحت کارروائی کے بعد جب پرویز مشرف نے عدالت سے آنکھ مچولی شروع کی، تو انہی کالموں میں ایک سے زائد بار لکھا گیا تھا کہ انہیں ایسا کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہئے، جو اُن کی ساکھ کو بھی تباہ کر دے اور شخصیت کے امیج کا نقشہ بھی بگاڑ دے۔ یہ بھی لکھا گیا تھا کہ اگر پرویز مشرف بعد از خرابی ¿ بسیار قانون کے دباﺅ پر عدالت میں پیش ہوتے ہیں تو اُن کی حکمت عملی انہیں سوائے شرمندگی کے اور کچھ نہیں دے سکے گی؟ مگر افسوس کہ ایسا ہی ہوا پرویز مشرف کے نادان دوست وکیلوں نے انہیں فردِ جرم سے بچانے کے لئے جو ڈرامے بازی کی، وہ اُلٹا اُن کے گلے پڑ گئی۔ دل کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں داخلے کا ڈرامہ بھی اُس وقت طشت ازبام ہو گیا، جب وہ گرفتاری سے بچنے کے لئے عدالت میں ہشاش بشاش صحت کے ساتھ پیش ہو گئے اور بعد ازاں ایسے صحت یاب ہوئے کہ اگلے روز انہوں نے اپنے فارم ہاﺅس چک شہزاد میں منتقل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ گویا یہ ثابت ہو گیا کہ اُن کی ”بیماری“ صرف فردِ جرم سے بچنے کے لئے تھی، نہ بچ سکے تو ”صحت یاب“ ہو کر گھر منتقل ہو گئے۔
پرویز مشرف نے عدالت میں پیشی کے موقع پر جو کچھ کہا، اُس میں کہیں زیادہ وزن ہوتا، اگر وہ عدالت کے پہلے بلاوے پر ہی پیش ہو جاتے اور ایک مضحکہ خیز ڈرامے کی اتنی طویل قسطیں نہ چلواتے۔ مَیں نے پہلے بھی ایک بار لکھا تھا کہ پرویز مشرف کو عدالت میں پیش ہو کر اپنا موقف بیان کرنا چاہئے، وہ مقدمے کا بہادری سے سامنا کریں اور عدالت کو یہ باور کرائیں کہ کن حالات میں انہیں ایمرجنسی کے نفاذ کا قدم اٹھانا پڑا؟ اگر پرویز مشرف اور عدلیہ کے درمیان ایک طویل آنکھ مچولی نہ ہوئی ہوتی، تو اُن کے بیان کا اثر ہی کچھ اور ہوتا، مگر اب جب وہ پیش ہوئے، تو اُن کی شخصیت پر بزدلی کی چھاپ لگ چکی تھی۔ نجانے پرویز مشرف کی قانونی ٹیم نے انہیں ایسے مشورے کیوں دیئے، جو ایک طرف جگ ہنسائی کا باعث بنے، تو دوسری طرف پرویز مشرف کے بارے میں رائے عامہ کو بھی گمراہ کر گئے۔ فردِ جرم لگنا کوئی انہونی یا انوکھی بات تو ہے نہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ آپ نے اُس الزام کا سامنا کیسے کیا ہے؟ یہ مناسب نہ ہوتا کہ پرویز مشرف اپنے وکلاءکو مقدمہ لڑنے کا کہتے، مقدمے سے فرار اور عدالت کو متنازعہ بنانے کی حکمتِ عملی سے منع کر دینے۔ وکلاءنے یہ باریک نکتہ نجانے کیوں مدِنظر نہیں رکھا کہ پرویز مشرف پر پہلے ہی عدالتوں کی تضحیک کرنے، انہیں نیچا دکھانے اور ججوں کو پابندِ سلاسل رکھنے جیسے الزامات موجود ہیں۔ ایسے میں اگر وہ اس عدالت پر بھی الزامات لگاتے اور متنازعہ بناتے ہیں، تو یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ وہ اب بھی عدالتوں کو تسلیم نہیں کرتے، حالانکہ اپنے بیان میں پرویز مشرف نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ عدالتوں کا احترام کرتے ہیں اور کئی بار اُن کے سامنے پیش ہو چکے ہیں۔
پرویز مشرف کو اس بات کا دفاع خود کرنا چاہئے کہ انہیں تنہا کیوں آرٹیکل6کا نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ اُن سے بڑھ کر اور کوئی فرد ہی نہیں جو یہ ثابت کر سکے کہ جو کچھ ہوا، اُس میں اُس وقت کے وزیراعظم سمیت تمام اہم حکومتی عہدیدار شامل تھے۔ انہیں آگے بڑھ کر اپنے موقف کی حقانیت پر بحث کرنی چاہئے تھی، مگر ایسا کرنے کی بجائے، وہ ایک ایسے راستے پر چل نکلے جس کی کوئی منزل تھی ہی نہیں۔ حیرانی ہوتی ہے کہ وہ صرف فردِ جرم لگنے کے خوف سے امراضِ دل کے ہسپتال میں داخل ہو گئے۔ آخر اس کا فائدہ کیا ہوا؟ کیا ہو سکتا تھا؟ بالفرض پرویز مشرف پر اس کیس میں فردِ جرم نہ لگتی تو کیا کیس ختم ہو جاتا۔ اگر تو پرویز مشرف کا مقصد صرف یہ تھا کہ انہیں کسی طرح ملک سے باہر بھیج دیا جائے تو بات دوسری ہے، لیکن اگر وہ اس ملک میں رہ کر سیاست کرنا چاہتے ہیں اور اُن کے نزدیک وہ عوام میں مقبول بھی ہیں، تو پھر اُن کے پاس سوائے اس کے اور کوئی راستہ تھا بھی نہیں کہ وہ بہادری کے ساتھ اپنے خلاف قائم ہونے والے مقدمے کا سامنا کریں۔ پرویز مشرف کو بزدلی کی راہ نجانے کس نے دکھائی، میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ پرویز مشرف خود اتنے کمزور نہیں کہ ایک مقدمے سے گھبرا جائیں۔ اُن پر بڑے بڑے الزامات لگے، مگر انہوں نے ان کی پروا نہیں کی، پھر ایک ایسے کیس پراُن کا یہ ردعمل سمجھ سے باہر ہے، جس میں اپنے دفاع کی بہت سی گنجائشیں موجود ہیں۔
میرے نزدیک پرویز مشرف سے دوسری غلطی یہ کروائی گئی کہ اُن کی طرف سے وزارت داخلہ کو ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواست دے دی گئی۔ ایسی جلد بازی کوئی احمق ہی کر سکتا ہے۔ اس کے لئے پہلے فضا ہموار کرنے کی ضرورت تھی۔ یہ کیسے سوچ لیا گیا کہ اِدھر پرویز مشرف بیرون ملک جانے کی درخواست دیں گے اور اُدھر انہیں منظوری مل جائے گی۔ کیا وہ یا اُن کے مشیر وکلاءنہیں جانتے کہ خود حکومت کے اوپر اس حوالے سے کتنا دباﺅ ہے؟ عدلیہ نے تو اپنا کام کر کے بال حکومت کی کورٹ میں ڈال دی،اب حکومت کیا ”پہلے آﺅ، پہلے پاﺅ“ کی بنیاد پر انہیں باہر جانے کا پروانہ تھما دیتی۔ ظاہر ہے کہ ایسا ناممکن تھا، حکومت جمہوریت اور آئین کی بجائے کسی سابق وردی والے کی طاقت کو مانتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اس حوالے سے اپنی جماعت کے اکابرین کے ساتھ جو مشاورت کی، اُس میں بھی اکثریت نے پرویز مشرف کو باہر بھیجنے کی اس بنیاد پر مخالفت کی کہ اس کی مسلم لیگ(ن) کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ پرویز مشرف کی طرف سے باہر جانے کی فوری درخواست نہ آتی تو شائد اُن کے خلاف بیان بازی کا جو طوفان کھڑا ہوا، وہ بھی نہ ہوتا۔ مثلاً خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق نے جس طرح پرویز مشرف کو ہدفِ تنقید بنایا وہ غیر روایتی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کی طرف سے کبھی پرویز مشرف کو اس قدر سخت الفاظ میں ہدف نہیں بنایا گیا۔ ظاہر ہے، اس کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ حکومت اپنے اس فیصلے کا دفاع کرنا چاہتی تھی، جو پرویز مشرف کی درخواست کو رد کر کے کیا گیا۔ پرویز مشرف کو مجرم بنا کر پیش کرنا اب حکومت کی مجبوری بن گئی ہے۔
مجھے ابھی تک اس بات کی سمجھ نہیں آ سکی کہ پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کو جس طرح مس ہینڈل کیا گیا،اس میں پرویز مشرف کی اپنی سوچ شامل تھی یا انہیں نادان دوستوں کے مشوروں نے اس حال تک پہنچایا ہے۔جس روز پرویز مشرف خصوصی عدالت میں پیش ہوئے، اُس روز اُن کی پرانی قانونی ٹیم کا کوئی فرد عدالت میں موجود نہیں تھا، بلکہ کیس کی پیروی بیرسٹر فروغ نسیم نے کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پرویز مشرف نے یا توخود حکمت عملی تبدیل کی یا پھر انہیں اس کا مشورہ دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ پرویز مشرف کے وکلاءجس طرح میڈیا کے ذریعے عدالت کو تضحیک و تنقید کا نشانہ بناتے رہے اور جس طرح عدالت کے اندر انہوں نے ججوں کی توہین کی کیا یہ سوچی سمجھی منصوبہ بندی پرویز مشرف سے مشاورت کے بعد کی گئی یا یہ صرف وکلاءکی اپنی اختراع اور حکمت عملی تھی۔
مجھے ایک بار سابق سپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی خان نے کہا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو کبھی سزا نہ ہوتی اگر ان کے وکلاءاُن کا کیس لڑتے۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب کیس عدالت میں ہو تو ججوں کو ہدفِ تنقید بنا کر آپ کیس نہیں جیت سکتے، کیس جیتنے کے لئے اُس کے اندر موجود حقائق اور الزامات کو جھٹلانا ضروری ہوتا ہے، کیونکہ کیس چاہے دوسرا کوئی جج بھی سنے، اُس نے بھی وہی حقائق دیکھنے ہوتے ہیں، جو مقدمے کی مثل میں موجود ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ پرویز مشرف کے وکلاءبھی وہی تاریخ دہرا رہے ہیں وہ سارا زور ججوں کو متعصب ثابت کرنے پر لگاتے رہے ہیں، حالانکہ انہیں مقدمے کو غلط ثابت کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔ ایک بڑے ادارے کی آڑ لے کر کیس سے بچنے کی حکمت عملی بُری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے۔ نجانے اب تک کے حالات سے پرویز مشرف اور اُن کے دوستوں نے کچھ سبق سیکھا ہے یا نہیں؟اب تک جو کچھ ہوا یہ پرویز مشرف کی اپنی نادانی کا نتیجہ ہے یا نادان دوستوں کا کِیا دھرا ہے؟ اس کا فیصلہ تو تاریخ پر چھوڑتے ہیں، لیکن اتنا ضرور ہے کہ تاریخ کو دہرانے کا عمل ہر دور میں جاری رہتا ہے، کیونکہ ہم تاریخ سے سیکھتے جو نہیں ہیں۔ ٭

مزید :

کالم -