سی این جی ، لالی پاپ!
بظاہر یہ عام سی بات لگتی ہے ،لیکن جو صورت حال بنی، اس سے افسر شاہی کے ایک اور کمال کا اظہار ہوتا ہے۔یکم اپریل سے آج چوتھا دن ہے جب پورے پنجاب میں روزانہ چھ گھنٹے کے لئے سی این جی دینے کا فیصلہ کیاگیا اور انتہائی دانش مندی سے اس کے لئے اوقات بھی مقرر کر دیئے گئے کہ صبح دس بجے سے سہ پہر چار بجے تک گیس مہیا ہوگی،جبکہ اتوار کو یہ سہولت پورا دن مہیا کی جائے گی۔سوئی ناردرن والوں نے یہ مہربانی موسم کی سختی کے حوالے سے کی کہ درجہ حرارت میں اضافے کے بعد گھریلو کھپت کم ہو جائے گی۔
اب ذرا سی این جی سٹیشن والوں کی انجمن کے پراچہ صاحب کی منطق بھی ملاحظہ فرما لیں، وہ کہتے ہیں، ابھی تو ابتداءہوئی ہے اس لئے تھوڑی وقت ہو رہی ہے، جلد ہی صورت حال معمول پر آ جائے گی۔محترم پراچہ کا یہ بیان گیس سٹیشنوں کے باہر لگی لمبی لمبی قطاروں کی روشنی میں وضاحت کے طور پر تھا،کیونکہ یکم اپریل سے اب تک گیس لینے کے لئے قطاریں ختم ہونے میں نہیں آتیں۔دس بجے سے ایک گھنٹہ قبل ہی گاڑیوں کی پارکنگ شروع ہو جاتی ہے اور جب چار بجے سوئچ آف ہوتا ہے تو درجنوں گاڑیاں کھڑی رہ جاتی ہیں جن کو گیس نہیں ملتی۔آج بھی گھر سے چلے تو یہ خیال تھا کہ چار روز ہو گئے اب تو صورت حال بہتر ہوگئی ہوگی، لیکن حالات تو گزشتہ روز سے بھی خراب تھے کہ جن کو پہلے یا دوسرے روز گیس مل گئی تھی ان کو بھی پھر سے گیس لینے کی ضرورت تھی اور وہ بھی قطار میں لگ گئے تھے۔
حکومت کی طرف سے تو یہ فیصلہ ایک حساب کے تحت تھا جس کے مطابق اگر سابقہ معمول کے مطابق اجازت دی جائے تو وہ ایک ہفتے میں 72گھنٹوں کے لئے ہوتی ہے۔اب اگر حالیہ حساب لگایا جائے تو یہ کل 66گھنٹے بنتے ہیں کہ اتوار کو 18گھنٹے اور روزانہ چھ گھنٹے گیس دینے کا شیڈول بنایا گیا ہے۔یوں ہر ہفتے چھ گھنٹے کی بچت ہوتی ہے، بتایا یہ گیا تھا کہ چھ گھنٹے روزانہ گیس مل جانے سے حالات ایک ہی ہفتے کے اندر معمول پر آ جائیں گے اور پھر لوگ اپنی ضرورت کے مطابق گیس لے لیا کریں گے، یہ فیصلہ کرکے وزیر پٹرولیم نے اعلان بھی کردیا اور کریڈٹ بھی لیا لیکن حالات معمول پر نہیں آئے تو اس کی بھی کوئی تو وجہ ہوگی۔ اور وہ یہ ہے کہ موسم کی سختی کی وجہ سے لوڈشیڈنگ کے دو رانیئے میں اضافہ ہوگیا ہے۔صبح دس بجے سے چار بجے تک کا وقت زیادہ لوڈ والا ہوتا ہے کہ دفاتر، تجارتی اور تعلیمی ادارے بھی کھلے ہوتے ہیں، یوں بجلی کی مانگ میں اضافہ ایک فطری عمل ہے۔
بجلی کی لوڈشیڈنگ ایک ایک گھنٹے سے دس سے بارہ گھنٹے تک پہنچ چکی ہے۔یوں عملی طور پر چھ گھنٹے کم ہو کر تین گھنٹے رہ گئے ہیں کہ اول تو بعض علاقوں میں دس سے گیارہ بجے بجلی بند ہوتی ہے تو یہاں گیس کا پریشر بنانے کا سلسلہ ہی گیارہ بجے شروع ہو پاتا ہے۔ کچھ وقت پریشر بنانے میں خرچ ہوتا ہے اور اس کے بعد آدھی گیس اور آدھی ہوا بھرنے کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے، اس طرح صارفین کی جیبوں پر بھی ڈاکہ پڑتا ہے۔ یوں لوڈشیڈنگ کا سلسلہ چار بجے تک جاری رہنے کی وجہ سے عملی طور پر گیس سٹیشن تین گھنٹے گیس مہیا کرتے ہیں اور وہ بھی کم پریشر والی ، صارفین خود ہی غور کرلیں کہ محکمہ گیس نے کس عقل مندی سے عوام کو دلاسہ دیا اور اپنی بچت کی ہے، پورے پنجاب میں اگر ہزاروں سی این جی سٹیشن ہیں تو صرف چند ہی ایسے ہوں گے جو جنریٹر چلا لیتے ہیں، ورنہ سبھی بجلی پر بھروسہ کرتے ہیں اور بجلی ہر گھنٹے بعد دغا دے جاتی ہے۔آپ ذرا اس گاڑی والے کی حالت کا اندازہ لگائیں کہ اس کی ذہنی کیفیت کیا ہوگی جو دو گھنٹے سے منتظر ہو اور جونہی اس کی باری آئے ، گیس نوزل فٹ ہو اور بجلی چلی جائے ایسے میں وہ شخص محکمے اور حکومت کو کتنی دعائیں دے گا اس کا اندازہ خود ہی کر لیجئے۔ہمارے مشاہدے میں تو لمبی قطاریں ہی ہیں اور اگر کوئی مناسب سدباب نہ کیا گیا تو یہ تجربہ ناکام ہو جائے گا اور پھر سے پرانا نظام بحال کرنا پڑے گا ،ایسے میں گیس کمپنی کو کتنی بچت اور لوگوں کو کتنی پریشانی ہوگی اس کا حساب آپ خود ہی لگا لیں۔
ہم نے حکومت کے اس فیصلے کی روشنی میں انہی سطور میں پہلے ہی گزارش کر دی تھی کہ اس تجویز کے پیچھے افسر شاہی کی گہری چال ہے اور اب تو یہ حکمت عملی بھی نہیں، حکومت کو بدنام کرنے کی سازش لگتی ہے، اگر چھ گھنٹے روزانہ ہی گیس دینا ہے تو پھر اس کے تسلسل کا اہتمام کریں کہ ہر گیس سٹیشن والے کے پاس جنریٹر نہیں اور جن کے پاس ہیں وہ مجبوراً چلاتے ہیں، اکثر تو جنریتر کا استعمال صرف پٹرول اور ڈیزل والی مشینوں کے لئے کرتے ہیں مالکان سے بات کریں تو وہ کہتے ہیں جنریٹر چلانے سے تیل کا جو خرچہ ہوتا ہے۔وہ گیس سے منافع کی بجائے نقصان کا سبب بن جاتا ہے، اس لئے یہ ممکن نہیں کہ تین گھنٹے بجلی اور تین گھنٹے جنریٹر چلا کر گیس مہیا کی جائے، ابھی تو صارفین کی طرف سے اوقات کار پر تنقید کی جارہی ہے کہ یہ کام والے اوقات ہیں اس عرصہ میں ڈرائیور رکھنے کی اہلیت والے حضرات تو اپنے ڈرائیور کو بھیج سکتے ہیں، خود ہر ایک کا قطار میں طویل وقت کے لئے انتظار کرنا مشکل کام ہے۔
یہ تو لوگوں کو گیس مہیا کرنے کا مسئلہ ہے جو چار ماہ تک گیس نہ ملنے کی وجہ سے پریشانی برداشت کر چکے ہوئے ہیں، یہاں تو افسر شاہی کی مہربانی عوامی بہبود کے ہر کام میں روڑہ اٹکانے کی ہوتی ہے، ہم اس کی بہت معمولی مثال دیتے ہیں کہ یہ افسر شاہی اور ان کا ماتحت عملہ کبھی بھی کسی مسئلہ کو اس کی ابتداءمیں نہیں دیکھتا اور اس کا حل نکالتا، ہمیشہ جب کوئی بات عوامی احتجاج تک آ جائے تو توجہ دی جاتی ہے، اس وقت تک یہ معاملہ ہزاروں خاندانوں کا بن جاتا ہے، جیسے چنگ چی رکشے (چاند گاڑی) اور ریڑھیاں ہیں، ان مسائل کو ابتداءمیں نہیں دیکھا گیا۔ہر دو پریشانی کا باعث ہیں لیکن معاملہ روزگار کا ہے یہ حل نہیں ہو پا رہا، ایسی ہی کاریگری سی این جی کے ساتھ کی گئی ہے۔ ٭