مچھلی کا سر

مچھلی کا سر
مچھلی کا سر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مشہور چینی کہاوت ہے کہ مچھلی سر سے گلنا شروع ہوتی ہے۔ یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے، آپ کسی بھی ملک یا معاشرے کے زوال کی داستان پڑھ لیں، کسی بھی سیاسی پارٹی یا تنظیم کے ختم ہونے کی وجوہات پر غور کریں یا کسی بھی ادارے کی تباہی کا پوسٹ مارٹم کر لیں، ہر جگہ آپ کو یہ چینی کہاوت سچ ہوتی نظر آئے گی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ بھی ایک ایسی مچھلی ہے جس کا سر بہت پہلے گلنا شروع ہو چکا تھا، اب اس کی سڑاند پورے جسم تک سرائت کرتی محسوس ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا ادارہ تھا جس نے نصف صدی تک پاکستان کا پرچم پوری دنیا میں بلند رکھا لیکن اب ماضی کے قصوں کے سوا پاکستانی کرکٹ میں باقی کچھ نہیں بچا ہے۔ ہم میں اب بھی ایسے بزرگ موجود ہیں جنہیں حنیف محمد اور امتیاز احمد کی بیٹنگ اور فضل محمود کی باؤلنگ یاد ہے۔ اسی طرح بعد کے لوگوں میں عمران خان، جاوید میاں داد، ماجد خان، ظہیر عباس، وسیم باری، عبدالقادر، آصف اقبال، وسیم راجہ، سرفراز نواز وغیرہ کے بہت سے پرستار بھی ہمیں آئے دن ان کے قصے سناتے رہتے ہیں ۔ نسبتاً نوجوان لوگوں کو اب بھی وسیم اکرم، وقار یونس، انضمام الحق، محمد یوسف اور شعیب اختر وغیرہ کی یاد ستاتی رہتی ہے ۔ جہاں تک پاکستان کی موجودہ کرکٹ کی حالتِ زار ہے اب وہ مایوس کن حد تک زبوں حالی کا شکار ہے۔ عہد رفتہ کی دو آخری نشانیاں یونس خان اور مصباح الحق رہ گئی ہیں لیکن اب ان کی عمر بھی چلے جانے کی دہلیز پر ہے آج گئے کہ کل گئے۔پاکستان میں کرکٹ کی تباہی کا ذمہ دار پاکستان کرکٹ بورڈ ہے، اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی تباہی کا ذمہ دار اس کے وہ تمام چیف پیٹرن ہیں جو گذشتہ دو عشروں سے میرٹ پر ایک عمدہ بورڈ تشکیل دینے میں ناکام رہے ۔ اس چینی کہاوت میں ایک فیصد بھی شبہ نہیں کہ مچھلی واقعی سر سے گلنا شروع ہوتی ہے۔

ابھی حال ہی میں ہونے والے ٹی ٹوینٹی ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی پرفارمنس بہت ناقص رہی اور وہ صرف بنگلہ دیش کے خلاف میچ جیت سکی جبکہ بھارت، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے ہار کر پہلے راؤنڈ میں ہی ٹورنامنٹ سے باہر ہو گئی۔ اس کے بعد سے عوام اور میڈیا کی توپوں کا رخ زیادہ تر کپتان شاہد آفریدی ، کوچ وقار یونس اور کرکٹ بورڈ کے چیرمین شہریار خان اور منتظم نجم سیٹھی کی طرف رہا ہے، یہ درست ہے کہ ان تمام لوگوں نے کسی نہ کسی شکل میں ٹیم کی شکست میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ کپتان شاہد آفریدی شبہ کرکٹ کی کپتانی کے بنیادی اسرار ورموز سے نا بلد ہیں، لیکن اس میں ان کا کیا قصور ہے ؟ وہ تو ایک کھلاڑی ہیں اور ان کا کام کرکٹ کھیلنا ہے، انہیں کپتان بنانے یا نہ بنانے کا فیصلہ تو کرکٹ بورڈ کا ہوتا ہے۔ 2010میں آسٹریلیا کے دورے میں نظر آ گیا تھا کہ ان میں کپتانی کی صلاحیت نہیں توانہیں ہٹا کر شعیب ملک کو کپتان بنا دیا گیا۔اس کے بعد کرکٹ بورڈ نے 2011کے ورلڈ کپ میں انہیں دوبارہ کپتان بنا یا اور جب سیمی فائنل میں پاکستان کو بھارت سے شکست ہوئی تو سارا ملبہ ایک بار پھر شاہد آفریدی پر ڈال دیا گیا ، کرکٹ بورڈ میں کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس بات کی وضاحت کرتا کہ ایک کھلاڑی میں جب کپتان بننے کی صلاحیت ہی نہیں ہے تو اسے کپتان کیوں بنایا گیا۔ اس کے بعد مصباح الحق بہت کامیابی سے کپتانی کرتے رہے تو کپتانی کا مسئلہ دبا رہا لیکن جب انہوں نے اپنے آپ کو صرف ٹیسٹ کرکٹ تک محدود کر لیا تو ایک بار پھر ٹی ٹوینٹی کی کپتانی کا تاج شاہد آفریدی کے سر پر رکھ دیا گیا۔ اب اگر ٹی ٹوینٹی ورلڈ کپ میں شاہد آفریدی کی کپتانی کمزور رہی تو اس کی وجہ بورڈ کے ذمہ داران شہر یار خان اور نجم سیٹھی ہیں جنہوں نے جانتے بوجھتے ایک بار پھر اسے کپتان بنا کر بھیجا۔

اسی طرح کا معاملہ کوچ وقار یونس کا بھی ہے۔ پہلے بھی تین بار قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ کی پوزیشن سے انہیں اس لئے ہٹایا گیا تھا کیونکہ ان کے دور میں ٹیم میں گروپنگ ہوتی ہے، وہ کچھ کھلاڑیوں کو اپنی انا کا مسئلہ بنا کر کھلانے سے انکار کر دیتے ہیں، اہم مواقع پر ٹیم کو بیچ میں بے یارو مددگار چھوڑ دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ارے بھائی وقار یونس کے بارے میں یہ باتیں تو سب کو پہلے ہی پچھلے دس سال سے پتہ ہیں جب انہیں پہلی دفعہ ہیڈ کوچ لگایا گیا تھا اور تین بار انہیں اسی وجہ سے فارغ بھی کیا جا چکا تھا، اب چوتھی دفعہ کیا شہر یار خان اور نجم سیٹھی کو الہام ہوا تھا کہ وقار یونس نے اپنی ان بشری کمزوریوں پر قابو پا لیا ہے۔ ظاہر ہے چوتھی بار بھی ایسا ہی ہوا تو اب واویلا کس بات کا؟ یہ تو ہونا ہی تھا۔ آپ وقار یونس کو دس دفعہ کوچ اور شاہد آفریدی کو دس دفعہ کپتان بنائیں ہر دفعہ یہی نتیجہ نکلے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستانی ٹیم کی شکست کے ذمہ دار شاہد آفریدی اور وقار یونس نہیں بلکہ انہیں ٹیم پر زبردستی مسلط کرنے والے شہر یار خان اور نجم سیٹھی ہیں۔ اس سے اگلا سوال یہ ہے کہ شہر یار خان اور نجم سیٹھی کو زبر دستی کس نے پاکستان کرکٹ بورڈ پر مسلط کیا ہوا ہے، ظاہر ہے کرکٹ بورڈ کے چیف پیٹرن وزیر اعظم میاں نواز شریف نے۔


پاکستان کرکٹ بورڈ کے بانی جسٹس اے آر کارنیلیس تھے۔ انہوں نے مئی 1948 میں پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ کی بنیاد رکھی تھی اور اس کا آئین بھی انہوں نے ہی لکھا تھا۔جسٹس اے آر کارنیلیس کا بنایا ہوا کرکٹ بورڈ اور آئین اتنا طاقتور تھا کہ صرف پانچ افراد پر مشتمل کرکٹ بورڈ دنیا کی بہترین ٹیم بناتا تھا اور پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرتا تھا۔ صدر، سیکریٹری، اسسٹنٹ سیکرٹری اور دو عدد معاونین تقریبا نصف صدی تک پاکستان کرکٹ بورڈ چلاتے رہے۔ صدر کبھی طاقتور آ جاتا، کبھی ملک کے بڑے ارباب اختیار میں سے ایک، کبھی جرنیل ، جج یا بیوروکریٹ، کبھی ڈمی اور کبھی تو صدر پاکستان خود ہی کرکٹ بورڈ کے صدر بھی بن جاتے، لیکن اصل طاقت سیکرٹری کے پاس ہوتی جو انتہائی موثر طریقہ سے تقریباً پچاس سال پاکستان کرکٹ بورڈ چلاتے رہے۔ 1990 کی دہائی میں جسٹس اے آر کارنیلیس کا بنایا ہوا وہ ڈھانچہ توڑ دیا گیا جو 1948 سے اس کی کامیابی کی ضمانت تھا، سادہ ترین لیکن موثر ترین۔ صدر کی جگہ چیرمین اور سیکرٹری کی جگہ نئے نئے عہدے جیسے CEO ، COO اور CFO آگئے، ڈھیر سارے ڈائرکٹر، اسسٹنٹ ڈائرکٹر، جنرل منیجر اور نہ جانے کون کون سے عہدے تخلیق کرکے چمچوں کو نوازنے کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ اسی پر بس نہیں ایک کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا اور اب چوتھا آئین بھی تبدیل کیا گیا۔ ہر نیا آنے والا چیئرمین آتے ہوئے گھر سے ایک نیا آئین جیب میں رکھ کر لاتا ہے۔ بھلا ایسے ادارے چلائے جاتے ہیں جس کے آئین کی مدت محض دو چار سال ہی ہو اور پھر نیا آنے والا نیا آئین، نیا سسٹم، ڈومیسٹک کرکٹ کا نیا فارمیٹ اور سب کچھ الٹ پلٹ کر چلا جائے۔ ہلاکو خان نے تو ایک دفعہ بغداد تاراج کیا تھا ، ہمارے کرکٹ بورڈ کے کرتا دھرتا ہر تیسرے یا چوتھے سال اسے تاراج کرتے ہیں یوں لگتا ہے کہ ہلاکو خان ہر چوتھے سال پاکستان کرکٹ بورڈ کا رخ کرتا ہے۔


موجودہ حکومت جب آئی تو اس وقت کے آئین کے مطابق ذکا اشرف چیرمین تھے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے انہیں ہٹانے کے لئے عدلیہ عدلیہ والاکھیل کھیلا اور پوری دنیا نے یہ کھلواڑ دیکھا کہ ایک عدالت نجم سیٹھی کو ہٹا کر ذکا اشرف کو بحال کرتی ہے اور اسی دن دوسری عدالت ذکا اشرف کو ہٹا کر نجم سیٹھی کو بحال کر دیتی ہے اور اگلے دن یہ کھیل دوبارہ شروع ہو جاتا ہے، حتی کہ دنیا میں اتنا مذاق بنتا ہے کہ ذکا اشرف کو AM یعنی صبح اور نجم سیٹھی کو PM یعنی شام کا چیرمین کہا جانے لگا۔


بات پاکستانی ٹیم کی ٹی ٹوینٹی ورلڈ کپ میں شرمناک شکست کی نہیں ہے، آٹھ بڑی ٹیموں میں سے چار نے ہی سیمی فائنل میں جانا ہوتا ہے۔ اس بار بھی چار بہتر ٹیمیں نیوزی لینڈ، بھارت، ویسٹ انڈیز اور انگلینڈ سیمی فائنل میں چلی گئیں اور چار ٹیمیں جنوبی افریقہ، پاکستان، سری لنکا اور آسٹریلیا باہر ہو گئیں۔یہ آٹھ ٹیمیں ایسی ہیں کہ ہر دفعہ ان میں سے کوئی سی چار سیمی فائنل میں جاتی ہیں اور کوئی سی چار باہر ہوتی ہیں، یہ مسئلہ نہیں ہے۔ اب تک گیارہ مرتبہ کرکٹ کا عالمی کپ ہو چکا ہے، اسی طرح چھ چھ مرتبہ چمپینز ٹرافی اور ٹی ٹوینٹی ورلڈ کپ ہو چکا ہے۔ ان 23 مقابلوں کو 23 مرتبہ کسی نہ کسی ٹیم نے جیتا لیکن 192 دفعہ بڑی ٹیمیں یہ نہیں جیت سکیں۔ کرکٹ ایک کھیل ہے۔ کھیل میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے، لیکن پاکستان ٹیم کا مسئلہ پاکستان کرکٹ بورڈ ہے، اور پاکستان کرکٹ بورڈ کا مسئلہ پیٹرن انچیف ہے۔ اس چینی کہاوت میں ایک فیصد بھی شبہ نہیں کہ مچھلی واقعی سر سے گلنا شروع ہوتی ہے۔شائد اسی لئے ڈیڑھ سو سال سے ایک محاورہ بولا جا رہا ہے، This is not cricket ۔

مزید :

کالم -