جنگجو کرکٹرکپتان کی فتح کس چیز میں ہوگی؟
پاکستان کی کرکٹ آج کل تبدیلوں کی زد میں آئی ہوئی ہے۔ پہلے کپتان شاہد آفریدی، چیف کوچ وقار یونس کافی مامت کے بعدمستعفی ہوچکے ہیں۔ اب سلیکشن کمیٹی کو بھی فارغ کردیا گیا ہے۔ ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کے نائب کپتان کو ترقی دیکر آفریدی کی جگہ کپتان بنا دیا گیا ہے۔ موجودہ حالات میں یہ ایک بہترین فیصلہ دکھائی دیتاہے۔ سرفراز احمد کی پاکستان سپر لیگ میں کوئٹہ کی قیادت میں فائنل تک رسائی نے پرستاروں کے دل پہلے ہی جیت رکھے ہیں۔ اب انہیں قومی ٹیم کی قیادت کے چیلنج پر بھی پورا اترنا ہو گا۔ پاکستان سپر لیگ میں کوئٹہ جیسی کمزور ٹیم کو جس طرح انہوں نے لڑوایا اور فائنل تک رسائی دلوائی، اسے ایک زبردست کارنامہ قرار دیا گیا۔ وہ ایک جنگجو کرکٹر کی شہرت رکھتے ہیں۔ اس کا عملی مظاہرہ وہ بطور وکٹ کیپر، بلّے باز اور پاکستان سپر لیگ میں کوئٹہ کی ٹیم کی قیادت کے دوران عملی طور پر کر چکے ہیں۔ 1992ءکی فاتح پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران نے موجودہ حالات میں سرفراز احمد کو ٹی ٹوئنٹی کپتان کیلئے بہترین چوائس قرار دیا تھا جو عمران خان کی طرف سے سرفراز احمد کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے سرفراز احمد کے کرکٹ کیرئیر کا جائزہ لیا جائے تو ابتدا میں نشیب و فراز کا شکار دکھائی دیتا ہے مگر مسلسل محنت کی بدولت وہ قومی ٹیم میں مستقل جگہ بنانے میں کامیاب رہے حالانکہ انہیں اکمل برادران کی جانب سے قومی ٹیم میں جگہ بنانے کیلئے زبردست چیلنجز کا سامنا تھا۔
عالمی کپ 2015ءمیں سرفراز احمد کو قومی ٹیم کے مستقل وکٹ کیپر کی حیثیت سے شامل کیا گیا تھا مگر انہیں ابتدائی میچز میں پلیئنگ الیون کا حصہ نہیں بنایا گیا مگر جنوبی افریقہ اور زمبابوے کیخلاف ان کی شاندار کارکردگی نے ناقدین کے منہ بند کر دئیے۔ خاص طور پر جنوبی افریقہ کیخلاف ان کے 49 رنز نے پاکستان کی کامیاب میں اہم کردار ادا کیا۔ سرفراز احمد تینوں فارمیٹ کے کامیاب ترین کھلاڑی ہیں جس کا عملی ثبوت ان کی مسلسل عمدہ کارکردگی ہے۔
اسوقت سرفراز احمد کیلئے سب سے بڑا چیلنج تمام کھلاڑیوں کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا۔ گروپنگ کا شکارٹیم میں اتحادپیداکرنا بڑا چیلنج ہوگا۔پاکستان سپر لیگ میں ملکی اور غیر ملکی کھلاڑیوں کیساتھ انہوں نے زبردست ہم آہنگی پیدا کی تھی حالانکہ پاکستان سپر لیگ کی دیگر ٹیموں کی قیادت ان سے کہیں تجربہ کار کھلاڑی کر رہے تھے۔ سرفراز احمد کی سرپرستی کرنا پی سی بی اور ٹیم مینجمنٹ کا بھی اہم ترین فریضہ ہو گا۔ اگلے چند دنوں میں چیف کوچ اور نئی سلیکشن کمیٹی بھی قائم ہو جائے گی۔ ان کے ساتھ ہم آہنگی بنانا بھی ان کیلئے اہم ہو گا۔ ایسی صورت میں جبکہ پاکستان ٹیم میں گروپنگ اور پلیئرز پاور کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کی کپتانی ان کیلئے کوئی آسان کام نہیں ہو گا۔
سرفراز احمد کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سافٹ اور دھیمے مزاج کے کھلاڑی ہیں۔لہذا انہیں دھونی، ڈیرن سیمی اور کین ولیمسن جیسے آزمودہ کار کپتانوں سے بھی سیکھنا ہو گا جو ہر قسم کے حالات میں خود پر دباﺅ نہیں آنے دیتے۔ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ دباﺅ برداشت کرنیوالا کپتان ہی فاتح قرار پاتا ہے۔انہیں خود کو بہترین کپتان ثابت کرنے کیلئے بہتر حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اترنا ہو گا۔ ماضی میں لاہور اور کراچی کی کرکٹ کو لیکر بھی قومی ٹیم میں کئی تنازعات جنم لیتے رہے ہیں۔ سرفراز احمد کو ایسی تمام چیزوں سے ہٹ کر خود کو قومی ٹیم کا کپتان ثابت کرنا ہو گا اور تمام فیصلے میرٹ پر کرنا ہو گا۔ انہیں شاہد آفریدی کے انجام کو مدنظر ہو گا جو کئی منہ پھٹ کھلاڑیوں کی سرپرستی کرتے رہے جو آخر میں خود ان کیلئے وبال بن گئے۔ انہیں کپتانی سے زیادہ پاکستان کی فتح پر فوکس کرنا ہو گا۔ یہی ان کی کامیابی کا راز ہوگا۔