عام تعطیل!

عام تعطیل!
عام تعطیل!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

خواتین و حضرات! سکول کے بچوں سے لے کر کسی محکمے کے سیکرٹری تک اس جملے کو سننے کے ہر وقت مشتاق رہتے ہیں کہ ’’کل عام تعطیل ہو گی‘‘۔

اس عام تعطیل کی لذت اور خوشی اتوار کی چھٹی سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔بالخصوص یہ تعطیل جب غیر متوقع طور پر ہو۔ جیسا کہ اپنے صوبہ سندھ کے لوگ اور حکمران اِس معاملے میں بہت فراخ دِل واقعہ ہوئے ہیں۔

ابھی کل یہ خبر پڑھی کہ چار اپریل کو سندھ میں ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر عام تعطیل ہو گی۔یہ تعطیل صوبہ سندھ کے سوا اور کہیں نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ وہاں دیگر عام تعطیلات بھی تھوک کے حساب سے ہوتی ہیں۔ مثلاً ’’کل اجرک کا دن ہے، سندھ میں عام تعطیل ہو گی‘‘۔

’’آج سندھ ٹوپی کا دن ہے، تعلیمی ادارے اور سرکاری دفاتر میں عام تعطیل ہو گی‘‘۔’’صوبہ سندھ میں ہولی کا تہوار بھرپور طریقے سے منایا جائے گا، اُس دن عام تعطیل ہو گی‘‘، ’’کل نامور گلو کارہ اور صوفیانہ کلام گانے والی سندھ کی پہچان، بلبلِ سندھ کا جنم دن ہے، صوبے میں عام تعطیل ہو گی‘‘۔

’’کراچی میں سات سال بعد کرکٹ میچ ہو رہا ہے، شہر میں عام تعطیل ہو گی‘‘۔’’سندھ میں شدید گرمی کی لہر، کل عام تعطیل ہو گی‘‘۔’’سیہون شریف میں آج شہباز قلندرؒ کا عرس ہے، سندھ میں مکمل تعطیل ہو گی‘‘۔

ہمیں اس طرح کی بات بات پر عام تعطیل پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے ، بلاول بھٹو کو زکام ہو جانے پر صوبے بھر میں عام تعطیل کا اعلان کر دیں اور اجتماعی دُعا کا اہتمام کریں،لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دیگر صوبے بھی اسی طرح کھلے ہاتھوں چھٹیاں بانٹنے لگیں تو شاید ہی ملک میں سال بھر میں کوئی ایسا دن ہو جب کسی صوبے میں عام تعطیل نہ ہو اور وہ دیگر شہروں صوبوں، بلکہ بقیہ ملک سے کٹ کر رہ جائے، جہاں کوئی کاروبار، سرکاری یا تعلیمی سرگرمی نہ ہو رہی ہو گی۔


مثال کے طور پر صوبہ پنجاب بالخصوص ملتان، صوفیائے کرام کی دھرتی ہے۔ صرف لاہور میں داتا کی نگری کے علاوہ بابا شاہ جمال، میاں میر صاحب، شاہ عنایت، شاہ ابوالمعالی، میراں موج دریا، میران شاہ، پیر مکی اور دیگر بزرگان دین کی آخری آرام گاہیں ہے۔

یہیں علامہ اقبالؒ بھی مدفون ہیں اور یہیں میلہ شالامار، شاہ حسین کے دربار پر لگتا ہے اور اُس دن مقامی تعطیل ہوتی ہے۔ پنجاب قومی شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں کی دھرتی ہے، یوم فیض سے لے کر یوم نصرت فتح علی خان تک منایا جا سکتا ہے۔

یہیں ہر بات ختم نہیں ہوتی، بلکہ ملتان کے بزرگان دین، پاک پتن، حجرہ شاہ مقیم، کوٹ مٹھن، قصور میں بابا بلھے شاہ اور جھنگ میں سلطان باہو اسی پنجاب میں آرام فرما ہیں۔ اس کے علاوہ ہر شہر میں کسی نہ کسی بزرگ ہستی کا دربار موجود ہے۔

ذرا تصور کریں کہ اگر ان بزرگان دین کے عرس پر عام تعطیل ہونے لگے تو کام کے لئے سارے سال میں شاید ہی کوئی دن بچے۔ اسی طرح دیگر صوبوں میں بھی نامور قابلِ احترام اور بزرگان دین کی آخری آرام گاہیں ہیں۔

پھر یوم پاچا خان اور یوم بگٹی پر بھی عام تعطیل ہوا کرے گی۔ یوم ضیاء الحق پر پورا اسلام آباد بند ہوا کرے گا۔ پنجاب میں یوں بھی میلوں ٹھیلوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ ایک وقت تھا جب لاہور کے متعلق کہا جاتا تھا۔۔۔


سَت دن تے اٹھ میلے
گھر جانواں میں کیہڑے ویلے!

اس کے ساتھ ساتھ قومی دن، علاقائی دن، مذہبی رہنماؤں اور سیاست دانوں کے پیدائش اور وفات کے دن۔۔۔ یوں ہم دیکھتے ہیں ملک میں یہ خبر کہ ’’آج عام تعطیل ہے‘‘ کی بجائے یہ سنیں گے کہ ’’آج ملک میں کام کرنے کا دن ہے‘‘ اس کے علاوہ وہ سرکاری محکمے یا ادارے جہاں ہفتہ اور اتوار کو چھٹی ہوتی ہے، اُن کے ملازمین کمال ہوشیاری سے ان کے ساتھ مل جانے والی کسی عام تعطیل کو اس طرح ملا لیتے کہ ایک آدھ Casual Leave لینے سے پورا ہفتہ تعطیلات کے مزے ہوتے ہیں۔

اس سلسلے میں سکول اور کالج کے طالب علموں اور اساتذہ کی موج ہے۔ موسم گرما اور موسم سرما کی تعطیلات، مقامی تعطیلات، امتحانات سے پہلے، بعد اور پرچوں کے درمیان تعطیل کا بھی عام رواج ہے۔

یاد رہے کہ ان اداروں کے ملازمین کی بیماری کی رخصت، اتفاقیہ رخصت، سالانہ چھٹیاں اِن کے علاوہ ہیں۔ نجانے ہمارے بچے کب پڑھتے ہوں گے اور اُن کے اساتذہ کب پڑھاتے ہوں گے۔ خواتین و حضرات! شاید پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں بارش ہو جانے پر چھٹی کر لینا ایک جائز اور معقول جواز تصور کیا جاتا ہے۔

اب ان عام تعطیلات میں جلسے جلوس اور دھرنے بھی کام دکھا جاتے ہیں۔سیکیورٹی کی وجہ سے لوگ گھر سے نہیں نکلتے اور جلسہ، جلوس، دھرنا والے مقام کے سرکل میں دو تین کلو میٹر تک کے علاقے میں سکول، کالج اور دفتر نہ جانے میں حق بجانب ہوتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب اپنے چاہنے والے پردیس گئے کو کہا جاتا تھا ’’ تو چھٹی لے کے آ جا بالماں‘‘۔

مگر اب تو انتظار ہوتا ہے کہ ’’بالماں‘‘ کب چھٹی ختم ہونے پر کام پر جائے گا۔ اس عام تعطیل سے جہاں ملکی معیشت کا پہیہ رک جاتا ہے، وہاں روز کے دیہاڑی دار مزدور بھی متاثر ہوتے ہیں اور سب سے زیادہ گھر کی خواتین پر یہ عام تعطیل اثر انداز ہوتی ہے، جب اُنہیں سارا دن فرصت نہیں ملتی، شوہر حضرات کی خواہشات اور پسند کے کھانے بنانے اور چائے کے دور چلانے میں دن گزر جاتا ہے۔

جس طرح ہمارے ملک میں ملکی و علاقائی طور پر عام تعطیل کی روایت ہے تو کل کو شاید ایسی صورت حال نہ ہو جیسا کہ ہمارے بڑے بیٹے نے جب وہ نویں جماعت میں تھا، ایک روز کہا کہ ’’ابا! کل میری سالگرہ ہے، کل عام تعطیل ہے۔۔۔‘‘۔

مزید :

رائے -کالم -