ہم آزادی سے خائف ہیں؟
ہمارے سماج میں جس سرعت کے ساتھ سیاسی تبدیلیوں کے عمل کو مہمیز دی گئی اس سے عدم استحکام کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں،انیس سو نوے کی دہائی میں سیاسی جماعتوں نے کھینچاتانی کے نامطلوب نتائج اور جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کے تلخ تجربات کے بعد میثاق جمہوریت کر کے عوام کے حق حاکمیت کے تحفظ اور آئین و قانون کے نظام کو مستحکم کرنے پر اتفاق کر لیا ،لیکن ایک تو بے نظیر بھٹو نے جنرل پرویز مشرف سے این آر او کر کے جمہوری قوتوں کے مابین سیاسی ہم آہنگی کو گزند پہنچائی دوسرے نواز شریف نے میمو گیٹ سکینڈل اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی عدالتی فیصلہ کے ذریعے برطرفی کی حمایت کر کے سویلین بالادستی کے خواب کو خود ہی چکنا چور کر دیا،بے نظیر بھٹو این آر او نہ کرتیں تو ان کی جماعت آج فنا کی دہلیز پر نظر نہ آتی،نواز شریف بھی اگر میمو گیٹ سکینڈل میں ٹریپ نہ ہوتے تو انہیں حکومت ملتی نہ ملتی، لیکن آج وہ حسرت سے ہاتھ نہ مل رہے ہوتے،لیکن جن نادیدہ قوتوں نے،سیاست کی فریب کاریوں کے اس ہنگام میں عمران کی پی ٹی آئی کو پروموٹ کیا، وہ بھی مداخلت کے نتائج سے بچ نہیں سکیں،تحر یک انصاف نے ایک طرف جارحانہ کشمکش کے ذریعے سیاسی ماحول کو پراگندہ کر کے جمہوری ارتقاء کے فطری عمل کی رخ گردانی کی اور دوسری طرف اسی جماعت کے غیرمتعین سیاسی کلچر کی کوکھ سے پشتون تحفظ موومنٹ جیسی نسلی تحریک کو حیات نو ملی،جس نے مملکت کے حفاظتی تیقّن (Security Myth)کو متزلزل کر دیا،پچھلے دس سالوں میں طالبانائزیشن کے دباو کا شکار قوم پرست کارکنوں نے پی ٹی آئی میں خفیہ سیل بنا کے اپنی نسلی سوچ کو چھپائے رکھا اور موافق ماحول پاتے ہی محفوظ پناہ گاہوں سے نکل کر نئے نعروں کے ساتھ سامنے آ گئے،ہماری بدقسمتی دیکھئے کہ جس وقت قوم پرستی کی سیاست کرنے والے روایتی سیاستدان شکست کی گرد جھاڑ کے پنجاب کی ایک ملک گیر جماعت کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنے پر آمادہ ہوئے عین اسی وقت پشتون تحفظ موومنٹ اور بلوچستان عوامی پارٹی جیسی نئی علاقائی قوم پرستی کی حامل جماعتیں(Neo Sub Nationalist Parties) جدید حرکیات کے ساتھ ابھر کے سامنے آ گئیں،کیا اب بلوچستان عوامی پارٹی بھی پیش پاء افتادہ بلوچ علیحدگی پسندوں کی محفوظ پناہ گاہوں میں بدل کے نسل پرستوں کے ہارے ہوئے سپاہیوں کے لئے مستقبل کے امکانات کو زندہ رکھنے کا وسیلہ بنے گی،ہماری مقتدرہ جو جمہوریت کو ایک ہاتھ سے دور دھکیلتی ہے اور دوسرے ہاتھ سے ناآموختہ عمل سمجھ کے سینے سے لگاتی ہے۔کیا تیزی کے ساتھ قومی دھارے کی سیاسی حمایت سے جدا ہوتی مملکت موثر عوامی حمایت کے بغیر ان زخم خوردہ گروہوں کو اپنا بنا پائے گی؟ اب اسی سوال کے ساتھ ہمارا قومی مستقبل معلق ہو گیا ہے۔بدقسمتی سے جس طرح کراچی میں مصنوعی طریقوں سے پی ایس پی کو ایم کیو ایم کا متبادل بنانے کی ناکام کوشش نے سندھ میں قومی وحدت کے تصورکو کنفیوژ کیا اسے کلیئر کرنے کے لئے ہمیں کسی نئی بہارِ مہاجر کی ضرورت پڑے گی،سوشل میڈیا کے اس پرپیچ دور میں اگر سیاسی گروہوں کی مصنوعی تخلیق کاری کے عمل سے ہاتھ کھینچ لیا جاتا تو بہتر ہوتا کیونکہ دو کروڑ کی متنوّع آبادی کے شہر میں اگر پولیٹیکل پارٹیوں کی بے رحمانہ کتربیونت جاری رہی تو اس ناپسندیدہ عمل کے بطن سے کوئی نئی بلا پیدا ہو سکتی ہے۔
فرانسس بیکن نے کہا تھا کہ سیاست میں تبدیلیاں ہمیشہ طاقت کے ایما پر آتی ہیں، بیشک، اگر قوت کے مراکز قوم کے اجتماعی شعور سے ہم آہنگ ہوں تو ایسے محرکات نشاۃ ثانیہ کا ذریعہ بنتے ہیں، لیکن اب طاقت کی تعریف تبدیل اور انسانی سماج کو کنٹرول کرنے والے آلات بدل گئے ہیں،انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس عہد میں قومی دھارے کے میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا اور گلوبل رابطہ کاری بھی موثر طاقت بن چکی ہے،ایسے میں جو لوگ عوام کے لئے دام بچھاتے ہیں اور اس دام کو ریاست کا نام دیتے ہیں،تقدیر انہیں غیر مربوط واقعات کی مدد سے کسی ان دیکھی تباہی سے دوچار کر سکتی ہے۔
چھوڑ دیجئے اس کام کو کیونکہ سیاست میں اُدھیڑ، بُن کا یہ خطرناک کھیل کسی بھی لمحہ سماج کے قدرتی نظم و ضبط کو بکھیرنے کا سبب بن جائے گا۔قومی دھارے کی مقبول جماعت کو پاباجوالاں کرنے کی خاطر پنجاب میں نیب کی فعالیت اور ایک بے فیض عدالتی کشمکش نے مسلم لیگ کی مزاحمتی تحریک کی توانائی بڑھا دی،نوازشریف سیلاب کی طرح چڑھتے نظر آتے ہیں،ان کے لہجہ کا اعتماد بتا رہا ہے کہ دوہزار اٹھارہ کے انتخابی معرکہ سے قبل ہی وہ سیاسی جنگ جیت چکے ہوں گے، لیکن افسوس کہ ایک طرف شریفوں کی پیش قدمی ہر آن طاقت کے مراکز کو کمزور کر کے مغربی سرحدات پر جنگ دہشت گردی کے بطن سے جنم لینے والے نسلی تحریکوں کے حوصلے بڑھا رہی ہے تو دوسری طرف ملک کے کونہ کونہ میں سیاسی عمل کو کنٹرول کرنے کی پالیسی نے طاقت کے مراکز کی سیاسی نظام پر گرفت کمزور کر دی ہے۔اسی لئے اب وہ فطری آزادیوں سے خوف کھانے لگے ہیں۔
ہمارے آبا واجداد سیاست میں آزادی کے خواہشمند ہونے کے باوجود اخلاق کے معاملہ میں سختی سے روایتی انداز کے پابند ہونے کی وجہ سے ریاست کی دسیسہ کاری کے ہاتھوں مات کھاتے رہے، لیکن آج کے سیاستدان اپنے دل پر کوئی بوجھ لئے بغیر وعدہ توڑ دیتے ہیں اور نیا وعدہ کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، وہ اپنی اخلاقیات و نظریات میں لچکدار ہونے کی باعث زیادہ پیچیدہ اور مہلک ہوتے جا رہے ہیں،جنہیں خوف و ترغیب کے ذریعے مینیج کرنا دشوار ہو گا،وہ ہماری سیاسی سائنس کے اس میکانزم کو جان گئے ہیں کہ مقتدرہ اگرچہ مملکت کی مشینری کا ایک پرزہ سہی، لیکن یہی اہم پرزہ اس پوری مشین کو کنٹرول بھی کرتا ہے،چنانچہ اس وقت وہ تمام جماعتیں جو اسٹبلشمنٹ کی دائیں یا بائیں طرف کھڑی ہیں، اسی سنٹرآف گریویٹی سے طاقت حاصل کرتی ہیں اور اسی مرکز ثقل پر دباو بھی بڑھا رہی ہیں،اسلئے آزادی اور جمہوریت کے نعرت مقبول ہو رہے ہیں۔
اسکے علاوہ قومی سیاست کو نیب کے کوڑے سے ریگولیٹ کرنے کے مضمرات کو بھی زیادہ دیر تک کنٹرول میں رکھنا ممکن نہیں ہو گا،یہ عفریت بہت جلد ملکی سیاست کے اس خام مواد کو نگل جائے گا جس سے معاشرہ اورسیاسی نظام استوار ہونے جا رہا ہے،شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالتوں میں چلنے والے مقدمات پر سابق وزیراعظم اور اس کے رفقاء کی جارحانہ تنقید سے زچ ہو کر نیب نے اب خیبر پختونخوا میں علامتی کارروائیوں کے ذریعے یکطرفہ احتساب کے منفی تاثر کو زائل کرنے کی کوشش میں پی ٹی آئی حکومت کے خلاف ان میڈیا رپورٹس کی تحقیقات شروع کر دی،جن میں سرکاری ہیلی کاپٹر کے غیرقانونی استعمال اور بلین ٹری پراجیکٹ میں بے قاعدگیوں کے علاوہ مالم جبّہ میں محکمہ سیاحت و ثقافت کی طرف سے فارسٹ ڈیپارٹمنٹ کی 256 ایکڑز اراضی مردان کی نجی کمپنی کو الاٹ کرنے جیسے سکینڈل شامل ہیں،یہ تو معلوم نہیں ہو سکا،نیب ان معاملات کی چھان بین کن خطوط پر کرے گی، تاہم اگر پنجاب میں ایل ڈی اے کے چیئرمین احد چیمہ کے خلاف کی جانے والی انکوائری کا ماڈل فا لو کیا گیا تو خیبر پختون خوا کی انتظامی مشینری منہدم ہو جائے گی کیونکہ مالم جبّہ لینڈ الاٹمنٹ سکینڈل صوبہ کے میر منشی کے گرد گھومتا ہے،اپریل 2014ء میں جب پختون خوا کے موجودہ چیف سکرٹری،شعبہ سیاحت و ثقافت کے صوبائی سیکرٹری تھے، انہی دنوں مردان کے سمسن (SAMSON) گروپ کو مالم جبہ میں ہوٹل کی تعمیر کے لئے 5 ایکڑ اور چیئرلفٹ کے لئے 12 ایکڑ اراضی الاٹ کرنے کے علاوہ ٹوارزم ڈیپارٹمنٹ کے ایم ڈی نے ہوٹل سے ملحقہ محکمہ جنگلات کی 256 ایکڑ قیمتی اراضی نجی کمپنی کو ا لاٹ کر دی،میسر معلومات کے مطابق محکمہ نے نجی کمپنی کو 256 ایکڑ اراضی کی الاٹمنٹ اپریل 2014ء میں کی، لیکن وزیراعلیٰ سے منظوری جون 2014ء میں لی گئی،دریں اثناء ٹورازم ڈیپارٹمنٹ نے فارسٹ کی 256 ایکڑ اراضی کی الاٹمنٹ بارے سیکرٹری جنگلات کی منظوری لینے کوشش کی، لیکن سیکرٹری فارسٹ نے این او سی دینے سے انکار کر دیا تھا،اس کے باوجود محکمہ سیاحت و ثقافت نے نہایت بیباکی کے ساتھ محکمہ جنگلات کی ملکیتی 256ایکڑ قیمتی اراضی نجی کمپنی کو الاٹ کر کے مطلق العنانی کا ثبوت دیا، معاصر انگریزی اخبار میں لینڈ الاٹمنٹ کی خبروں کی اشاعت کے بعد نیب نے اس معاملہ کی انکوائری شروع کی تو سیاحت و ثقافت ڈیپارٹمنٹ نے متذکرہ اراضی بارے ایک مہمل موقف اختیار کرتے ہوئے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ اراضی مذکورہ والیِ سوات سے وفاقی حکومت کومنتقل ہوئی جسے وفاقی حکومت نے محکمہ سیاحت و ثقافت کو سرنڈر کر دیا۔