حکومت خوفِ رسوائی اور عوام خوفِ مہنگائی میں مبتلا
ایک تو مہنگائی ہوئی ہے اور پہلی بار دیکھ رہے ہیں کہ ایک خوفِ مہنگائی بھی ہوتا ہے۔ موجودہ حکومت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اُس نے مہنگائی تو کیا کنٹرول کرنی ہے، خوفِ مہنگائی، کا جن بھی آزاد کر دیا ہے۔ میڈیا بھی چُن چُن کر ایسی خبروں کو بریکنگ نیوز بناتا ہے،جن سے مہنگائی کا خوف عوام کو مزید چاروں شانے چت کر دے۔
کہیں سے ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ ہاتھ لگ جائے، کسی ذریعے سے اسد عمر کا بیان مل جائے۔کوئی یہ کہہ دے کہ مہنگائی کا طوفان آنے والا ہے، میڈیا کی موج ہو جاتی ہے۔ایک کو چار سے ضرب دے کر آگے بڑھایا جاتا ہے،سو یہ سب کچھ عوام کو ایک ایسے خوف میں مبتلا کر چکے ہیں، جس میں انسان کو اِس بات کی فکر پڑ جاتی ہے کہ گھر میں کچھ خوراک اکٹھی کر لے، چار پیسے بچا لے،پتہ نہیں کس وقت کیا ہو جائے۔حکومت کی اپنی حکمتِ عملی ہے، وہ چاہتی ہے، عوام کو شیر آیا، شیر آیا، کی کیفیت میں مبتلا رکھا جائے۔
شیر آ جائے تب بھی ٹھیک اگر نہ آئے تو گیدڑ کی آمد پر عوام یہ نہ کہیں کہ انہیں تو بتایا ہی نہیں گیا تھا۔اس صورتِ حال کے جہاں عوام پر شدید اثرات مرتب ہوئے ہیں،وہیں کاروباری طبقہ بھی اس کے زیر اثر آ گیا ہے۔وہ بھی یہ چاہتا ہے کہ اس صورتِ حال سے من چاہا فائدہ اٹھایا جائے۔۔۔ مَیں کل ایک پھل فروش کی دکان پر گیا، تو اُس نے سٹور کے سیبوں کی قیمت 300 روپے کلو بتائی۔
مَیں نے کہا جب یہ سیب کولڈ سٹوریج میں محفوظ کئے گئے ہوں گے، تو اُس وقت شاید عمران خان کی حکومت بھی قائم نہ ہوئی ہو،اب اُٹھیں سٹور سے نکال کے مہنگے داموں بیچا جا رہا ہے تو اس میں حکومت کا عمل دخل کیا ہے؟کہنے لگا حکومت نے بجلی، گیس، پٹرول مہنگا کر دیا ہے تو سیب مہنگا کیوں نہ ہو؟ سو یہ ثابت ہوا کہ ایک تو مہنگائی کے اثرات ہیں، دوسرا خوفِ مہنگائی نے بھی خوب رنگ جما رکھا ہے۔
مسلم لیگ(ن) کی حکومت کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اُس نے مہنگائی بے شک کنٹرول نہ کی ہو، لیکن خوفِ مہنگائی کو کبھی پیدا نہیں ہونے دیا۔ 2014ء میں پٹرول کی قیمت 114 روپے تک چلی گئی تھی، مگر اس کے باوجود ایسا خوف نہیں تھا، جیسے ملک دیوالیہ ہونے والا ہے اور لوگوں کو روٹی دال کے لالے پڑ جائیں گے۔
اسحاق ڈار کم از کم یہ جادوگری ضرور دکھاتے تھے کہ قیمتیں بڑھانے کے باوجود یہ دعویٰ کرتے کہ اس کا اثر غریبوں پر نہیں پڑے گا۔وہ یہ تو کبھی کہتے ہی نہیں تھے کہ عوام تیار ہو جائیں، مہنگائی سے اُن کی چیخیں نکل جائیں گی۔ یہ رجحان تو صرف اسد عمر نے متعارف کرایا ہے۔ متعارف بھی ایسے کرایا ہے کہ واقعی عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔لگتا ہے اس معاملے میں وہ چھکے پر چھکا لگانے کی مہارت رکھتے ہیں۔ اب کل ہی اُن کے حوالے سے اخبارات میں یہ شہ سرخیاں لگی ہیں کہ آئی ایم ایف کے پاس نہ گئے تو ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔
ملک کا وزیرخزانہ اگر یہ کہے کہ ہم دیوالیہ ہو جائیں گے تو باقی کیا رہ جاتا ہے۔ یہ آخر چھ سات ماہ تک آئی ایم ایف سے بچنے کا ڈرامہ کیوں کیا جاتا رہا۔ اِس دوران ملک کی معیشت کا جو حشر نشر ہو کر رہ گیا، اس کی ذمہ داری کس پر ہے؟ اگر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے آئی ایم ایف کا پروگرام ہی ناگزیر تھا تو پھر اس میں اتنی تاخیر کیوں کی گئی؟ بے یقینی میں مبتلا معیشت نے جو ہچکولے کھائے،ڈالر کہاں سے کہاں پہنچا، سٹاک ایکسچینج کا بار بار کباڑہ ہوا،اس کی تلافی کیسے ہو گی، یعنی اب آئی ایم ایف آج کے بعد کی معیشت کے لئے اپنی شرائط دے گا اور ہم قبول کر لیں گے، یعنی ہم نے سو پیاز بھی کھائے اور سو جوتے بھی۔
سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ملک بے یقینی کا شکار ہو گیا۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں کل کیا ہو جائے۔ قیمتیں بڑھتی رہیں، حکومت کو کوئی پرواہ نہیں۔ ادویات کی قیمتوں میں 45فیصد تک اضافہ کر دیا جائے، کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، آج ایک قیمت اور کل وہی چیز لینے جاؤ تو بڑھی ہوئی قیمت پر ملتی ہے۔ ایسے میں عوام کے اندر خوفِ مہنگائی کیوں پیدا نہ ہو، کیوں وہ آنے والے دنوں کی تباہی سے نہ ڈریں، کیسے سُکھ کی نیند سوئیں؟
میری طرح عوام تو یہ سوچ کر ادھ موئے ہو چکے ہیں کہ مئی میں ماہ رمضان شروع ہو رہا ہے۔ ہمارے مسلمان تاجر اور ذخیرہ اندوز سارا سال اس مہینے کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس مہینے میں شیطان قید کر دیا جاتا ہے، تاہم مہنگائی کا شیطان آزاد ہو جاتا ہے۔ صرف آزاد ہی نہیں، بلکہ اس طرح دندناتا پھرتا ہے، جیسے اس کی بلاشرکت غیرے حکمرانی قائم ہو گئی ہو۔ خوفِ مہنگائی کے ہوتے، جب مہنگائی کایہ شیطان آزاد ہو گا تو روزہ داروں کا کیا بنے گا؟ پھل، سبزیاں، دالیں، گوشت، گھی غرض ہر چیز ان کی دسترس سے دور ہو جائے گی۔
ماضی میں یوٹیلٹی سٹوروں اور رمضان بازاروں میں سستی اشیاء فراہم کرنے کے جو ڈرامے ہوتے تھے، سنا ہے اس بار تو وہ بھی نہیں ہوں گے، جس کا مطلب ہے کہ عوام کو وہ جھوٹی تسلی بھی نہیں ملے گی کہ ان کے لئے اشیاء سستی کی جا رہی ہیں، اوپر سے اسد عمر جیسا وزیر خزانہ اگر کوئی نئی پھلجھڑی چھوڑنے میں کامیاب ہو گیا تو مارکیٹ سے رہی سہی اشیاء ضروریہ بھی غائب ہو جائیں گی۔ اعدادوشمار سے ثابت ہے کہ رمضان المبارک میں مہنگائی30 سے40فیصد تک بڑھ جاتی ہے، تاہم ماضی کی حکومتیں کبھی اس بات کو تسلیم نہیں کرتی تھیں۔
اس کی وجہ یہ ہوتی کہ اگر حکومت خود اس حقیقت کو تسلیم کر لے تو عوام خود کو بے یارومددگار سمجھتے ہیں کہ وہ ذخیرہ اندوزوں ،مہنگائی مافیا کے رحم و کرم پر ہیں۔ حکمران ماضی میں یہ بیان بھی جاری کرتے رہے ہیں کہ ذخیرہ اندوزوں اور مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھو ں سے نمٹا جائے گا۔ نمٹتا تو کوئی نہیں تھا، البتہ نفسیاتی طورپر اس کا اثر ذخیرہ اندوزوں پر بھی پڑتا اور بے چارے صارفین بھی یہ سوچتے کہ حکومت ان کے حالات سے بے خبر نہیں، مگر اب تو لگتا ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کا یہ مسئلہ ہی نہیں رہا۔
دو روز پہلے وزیراعظم ہاؤس سے یہ بیان جاری ہوا کہ تمام صوبائی حکومتوں کو یہ حکم جاری کیا گیا ہے کہ وہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں بنائیں اور ڈپٹی کمشنروں کو ہدایات جاری کریں کہ ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں پر نظر رکھیں۔ یہ بیان صرف ریکارڈ کی درستگی کے لئے جاری ہوا ہے کہ وزیراعظم عوام کو مہنگائی کے اثرات سے بچانا چاہتے ہیں،وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں تو اب بھی ہر ضلع،بلکہ تحصیل تک میں قائم ہیں، مگر وہ مافیاز سے ملی ہوئی ہیں۔
جب مارکیٹ کمیٹیاں قیمت ہی ایسی مقرر کر دیں ، جو ذخیرہ اندوزوں کے فائدے میں ہو تو پرائس کنٹرول کمیٹیاں کیا کریں گی۔ مجھے تو یہ لگتا ہے کہ موجودہ حکومت اس خوف میں مبتلا ہے کہ اگر اس نے خیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں پر ہاتھ ڈالا تو کہیں وہ اشیائے ضروریہ کی سپلائی ہی منقطع نہ کریں اور ملک میں قحط کی سی صورتِ حال پیدا ہو جائے۔ اسے یہ ڈر اِس لئے بھی ہے کہ تاجر طبقہ آج بھی مسلم لیگ (ن) کے زیادہ قریب ہے۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے کبھی تاجر برادری سے بگاڑ پیدا نہیں کیا۔
ان پر ٹیکس لگانے کو کبھی اپنی ترجیح نہیں بنایا ،جبکہ موجودہ حکومت ٹیکس نیٹ بڑھانا چاہتی ہے اور ایف بی آر، ایف آئی اے کے ہمراہ چھاپے مار رہا ہے، جس کے خلاف ہڑتالیں اور احتجاج ہو رہے ہیں۔ماہرین معیشت کی متفقہ رائے ہے کہ جب غیر یقینی صورتِ حال ہوتی ہے تو مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے، پیداوار کم ہو جاتی ہے اور کساد بازاری بڑھتی ہے۔
موجودہ حکومت کے معاشی منیجروں کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ انہوں نے معیشت کو بے یقینی سے دو چار کر دیا ہے، ڈالر کا کچھ پتہ نہیں کتنے کا ہو جائے، سونے کی قیمت میں کوئی ٹھہراؤ نہیں۔ پٹرول، بجلی، گیس کی قیمتوں میں کب اور کتنا اضافہ ہو جائے کچھ خبر نہیں۔روز مرہ استعمال کی اشیاء اور ادویات کی قیمتیں کب بڑھ جائیں، کوئی نہیں جانتا۔اب ایسے میں عوام مہنگائی کے خوف میں مبتلا نہ ہوں تو کیا کریں۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ خوفِ مہنگائی کسی اور نے نہیں خود حکومتی وزراء نے پھیلایا ہے، سارا نزلہ ماضی کی حکومت پر ڈال کر وہ آئے روز خزانہ خالی ہونے کا جو رونا روتے ہیں، اس کا اب کوئی فائدہ نہیں۔ عوام اِس راگ کو کب تک سنیں، حکومت کو اب کچھ کر کے دکھانا چاہئے، کم از کم اتنا معاشی استحکام تو پیدا کر دے کہ عوام مہنگائی نہ سہی اس کے خوف سے تو باہر نکل آئیں۔