تحریر : صاحبزادہ پیر محمد فیض رسول رضوی
حضرت قبلہ شیخ الحدیث رحمتہ اللہ علیہ کی کنیت ’’ابوالفضل ‘‘اور اسم گرامی ’’محمد سردار احمد ‘‘جبکہ ’’محدث اعظم پاکستان ‘‘آپ کے لقب میں سے ہے۔ آپؒ کی ولادت22 ستمبر1903ء بمطابق 29 جمادی الثانی 1321 ھ کو ’’دیال گڑھ ‘‘ہندوستان میں ہوئی۔ آپ ؒ نے ابتدائی تعلیم ’’دیال گڑھ ‘‘ہی میں حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان اسلامیہ ہائی سکول بٹالہ سے امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ مزید تعلیم کیلئے لاہور آئے، یہاں انٹرمیڈیٹ میں داخلہ لے لیا۔ اسی دوران جامع مسجد وزیر خاں میں ایک جلسہ ہوا۔ جس میں آپ ؒ کی ملاقات حجتہ الاسلام مولانا شاہ حامد رضا خاں سے ہوئی۔ پہلی ہی ملاقات میں آپ ؒ کے قلب پر ایسا اثر ہوا کہ بعدازجلسہ آپ ؒ حجتہ الاسلام کے ہمراہ مرکز علم وعرفان بریلی شریف آکر مفتی اعظم ہند مصطفی رضا خاں صدر الشریعہ امجد علی اعظمی رحمتہ اللہ علیہ سے اکتساب فیض میں مشغول رہنے لگے۔ یوں کم وبیش آٹھ سال دن رات آپ ؒ نے اکتساب علم کیا۔
مولانا مفتی امجد علی اعظمی ؒ آپ کے متعلق فرماتے ہیں ’’میری زندگی میں دوہی باذوق پڑھنے والے ملے۔ ایک مولوی سردار احمد اور دوسرے حافظ عبدالعزیز ‘‘اسی طرح مفتی اعظم ہند ؒ نے آپ کے بارے میں فرمایا۔ اگرچہ مولانا سردار احمد کو میں نے پڑھا یا مگر آج وہ اس قابل ہیں کہ مجھے پڑھاتے۔ جب آپ فارغ التحصیل ہوئے تومرکز علم العرفان دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف ہی میں درس وتدریس کا آغاز فرمایا اورچار سال تک صدر المدارسین کے منصب پر فائز رہے اوردس سال تک دارالعلوم مظہر اسلام بی بی جی مسجد میں شیخ الحدیث کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ آپ ؒ ایک مثالی استاد تھے۔ طلبا ء پر ہمیشہ محبت وشفقت اوراحسان فرماتے۔ طلبا ء کی حوصلہ افزائی فرمانے کیلئے ہر طالب علم کو ’’مولانا ‘‘یا طالب علم حافظ ہوتا تو’’حافظ صاحب‘‘کہہ کر مخاطب فرماتے۔ آپ ؒ دوران تدریس طلبا ء کے ہر قسم کے سوالات اور اعتراضات کا خند ہ پیشانی سے جواب مرحمت فرماتے اور ان کے مطمئن ہونے تک نفس مسئلہ کی وضاحت کرتے رہتے۔ اصول فقہ ٗمنطق اورفلسفہ کے ادق مسائل پر جاندار انداز میں تبصرہ فرمایاکرتے تھے۔ اپنے طلبا ء کی اخلاقی تربیت میں ایسا انداز اختیار فرماتے جس سے وہ کسی جبر واکراہ کے بغیر خود بخود مائل بہ اصلاح ہوجاتے۔ کئی طلبا ء کی خفیہ واعلانیہ مالی مدد بھی فرماتے تھے۔آپ ؒ کی تدریس کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ طالب علم کے اندر عشق رسولؐ کی وہ چنگاری سلگادی جائے اور وہ یوں محسوس کرے کہ حضور ﷺ سے عشق کی دولت لے کر اس نے سب کچھ پا لیا ہے۔
تحریک پاکستان میں برصغیر کے جن علماء ومشائخ نے انتہائی مؤثر اورفعال کردار ادا کیا۔ ان میں محدث اعظم پاکستان کا نام سرفہرست ہے۔ 1925ء میں برصغیر کے مسلمانوں کی مذہبی وسیاسی راہنمائی کیلئے اکابر علماء ومشائخ نے ’’الجمعیتہ العالیتہ المرکز یتہ‘‘یعنی آل انڈیا سنی کانفر نس کے نام سے ایک تنظیم تشکیل دی تو آپ ؒ نے اس تنظیم کی سرپرستی فرمائی چنانچہ آپ ؒ نے مختلف مقامات پر ہونے والی کانفرنسوں میں شرکت کرکے ملی فریضہ نبھا یا۔ آپ ؒ نے جون 1944 ء کو حضرت شاہ واحد علی چشتی ؒ کے سالانہ عرس کے موقع پر خانقاہ محبوبیہ مین پوری ہند میں اور جولائی 1945 ء کو جامعہ نعیمیہ مرادآباد میں آل انڈیا سنی کانفرنسوں میں شرکت فرمائی۔ یوں آپ ؒ نے تحریک پاکستان کی کامیابی کیلئے تن من اوردھن کی قربانی دینے کا ذہن ہر خاص وعام کو دیا۔ قیام پاکستان کے اعلان کے وقت آپ ؒ اپنے وطن مالوف دیال گڑھ میں تشریف فرماتھے رمضان المبارک کا مہینہ حسب معمول آپ نے عبادت وریاضت میں گزارا۔ رمضان المبارک کے خطبات میں آپ نے وہاں کے مسلمانوں کو قیام پاکستان کی مبارکباد دی۔ تقسیم ہند کے اعلان کے ساتھ ہی مخالفین نے قتل وغارت گری کا بازار گرم کردیا۔ لہٰذا آپ ؒ اپنے قصبہ کی حفاظت کیلئے خود گھوڑے پر سوار ہو کر قصبہ کے گرد گشت فرماتے تھے۔ بالآخر 2 شوال المکرم 1366 ھ بمطابق 20 اگست 1947 ء کو اپنے وطن مالوف دیال گڑھ کو ہمیشہ کیلئے خیرباد کہا اور اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان کی طرف عازم سفر ہوئے۔ پاکستان آمد کے بعد کچھ عرصہ (ساروکی )گوجرانوالہ میں قیام فرمایا اس کے بعد (لائل پور )فیصل آباد تشریف لے آئے اور12 ربیع الاؤل 1329 ھ کو دارالعلوم قائم فرمایا۔ 12 ربیع الاؤل 1373 ھ کو عظیم الشان پُرشکوہ سنی رضوی جامع مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جو کہ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے اسی مسجد سے متصل آپ کا مزار شریف مرجع خلایق ہے۔ علالت سے قبل اسی مسجد میں خطبہ جمعتہ المبارک ارشاد فرماتے رہے لوگ دوردراز دیہاتوں سے آپؒ کا خطبہ سننے کیلئے حاضر ہوتے اور فیضاب ہوتے۔
آپ ؒ کا وصال یکم شعبان المعظم 1382 ھ بمطابق 29 دسمبر 1962 ء کراچی میں ہوا۔ بوقت وصال آپ ؒ کی زبان پر اللہ ہو کا ذکر جاری تھا۔ جلیل القدر علماء ومشائخ نے آپ ؒ کو غسل دیا اور آرام باغ کراچی میں ہزاروں افراد نے آپ ؒ کی نمازجنازہ جگرگوشہ صدرالشریعہ حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری ؒ کی اقتدار میں ادا فرمائی۔ اس کے بعد آپ ؒ کا جسد مبارک بذریعہ ٹرین فیصل آباد لایا گیا۔ فیصل آباد میں کم وبیش چار لاکھ کے قریب علما ء ومشائخ اورعامتہ المسلمین نے مولانا عبدالقادر احمد آبادی کی اقتداء میں نمازجنازہ ادا کی اور آپ ؒ سنی رضوی جامع مسجد کے پہلو میں آسودہ خاک ہوگئے۔ آپ کے مزارپُر انوار سے روزانہ ہزاروں خواص وعوام فیضاب ہوتے ہیں۔