سیاہ بادلوں میں روپہلی کرن

سیاہ بادلوں میں روپہلی کرن
سیاہ بادلوں میں روپہلی کرن

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


میرے والد کے ایک پھوپھی زاد گوجرانوالہ میں رہا کرتے تھے، کم وسیلہ مگر فراخ دل۔ جب بھی ملنا ہوتا، سیدھے کشمیر محل یا نشاط سنیما لے جاتے۔ راستے میں مٹھائی اور سوڈا واٹر کی بوتل، واپسی پہ فلم کے مزاحیہ ڈائیلاگ اور مسلسل قہقہے۔ وقت گزرتا رہا۔ ترجیحات تبدیل ہوتی رہیں۔ چاچا جی بوڑھے ہو گئے۔ خود ہمارا شمار ادھیڑ عمر، پیاری سی توند والے معززین میں ہونے لگا۔ ایک دن یہ سُن کر کہ مَیں اُنہی کے شہر میں بھائی کے ہاں ٹھہرا ہوا ہوں، اچانک ملنے کے لئے آ گئے۔ اب جو مکالمہ ہوا وہ غیر معمولی تھا۔ ”شاہد میاں، کتنی عمر ہو گئی ہے؟“ ”چاچا جی، چون سال۔“ ”اِس چون سال میں کبھی مَیں نے تم سے کوئی مطالبہ کیا؟“ ”بالکل نہیں“۔ ”تو آج کرنے لگا ہوں“۔ ”ضرور“۔ درمیانہ سا مطالبہ تھا۔ نصف رقم میری اہلیہ کے پرس سے نکل آئی۔ بقایا اگلے دن پیش کر دی۔ سب ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے۔


رشتے کے یہ چچا اب دنیا میں نہیں، لیکن اُن کا ناخوشگوار حقیقتوں کو قابلِ قبول بنا لینے کا پیرایہ مجھے کورونا وائرس کے دنوں میں رہ رہ کر یاد آتا ہے۔ ایک تو اِس لئے کہ بے آسرا نوجوانی سے لے کر محلہ مبارک شاہ میں کریانہ کی دُکان کھولنے تک اور کرائے کے مکانوں کی دربدری سے گزر کر پیپلز کالونی میں سر چھپانے کی اپنی جگہ تک اُن کے چہرے پہ ہمیشہ مسکراہٹ ہی دیکھی۔ دوسرے، جنرل ایوب کے خلاف عوامی تحریک ہو یا منتخبہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا خون آشام مرحلہ، جب کبھی جبری چھٹیاں ہوئیں چچا حوصلہ دینے کے لئے ہمارے پاس پہنچ گئے۔ آج کورونا وائرس کی رُت میں چشمِ تصور سے اُنہیں دیکھا تو کہنے لگے کہ گھر میں اناج، چائے کا سامان اور بار بار ہاتھ دھونے کے لئے صابن کتنے دن کا ہے۔ کہا کہ ایک مہینے کا۔ ”تو بھئی بہت ہے۔ کم کھاؤ پیو تو دو مہینے نکل جائیں گے، پھر اللہ اور بھیج دے گا“۔


بات تو سیدھی سی تھی۔ لیکن بے یقینی کی جس صورت حال کا ساری قوم بلکہ بنی نوعِ انسان کو فی الوقت سامنا ہے، کیا اُس کا مداوا صرف اناج کی دستیابی میں چھپا ہوا ہے؟ یہ ایک بنیادی سوال ہے۔ مان لیا کہ آپ روزانہ اجرت والے وہ محنت کش نہیں کہ شدید گرمیوں کے خاتمے پر گھٹائیں جھومتی دیکھ کر جن کی زبان سے ہمیشہ یہی سُنا کہ ”لو جی، آج پھر دیہاڑی ٹوٹ گئی“۔ نئے زمانے کی سماجی زمرہ بندی پہ نظر رکھیں تو خوشگوار بارشوں کے آثار دیکھ کر دیہاڑی ٹوٹ جانے کا یہ شکوہ شاید ’پڑھے لکھے آدمی‘ کی سمجھ میں نہیں آئے گا۔ ایسے آدمی کے لئے تو سماجی سچائیاں نصابی حقائق کی طرح ہوتی ہیں کہ نیٹ پہ کچھ دیکھا، پھر اُس کا اسکرین شاٹ لے لیا۔ اِس کے برعکس ہمارے بچپن کی اُٹھان چھوٹے چھوٹے گھروں والے اُس محلے کی ہے جہاں مولوی فاضل کی ہٹی پہ اکثر گاہکوں کی یومیہ شاپنگ کا مینیو ”بھا، چوانی دی کھنڈ‘ اور ’مولوی جی، دو آنے دا تیل‘ سے شاید ہی کبھی آگے بڑھا ہو۔ یہ محنت کشوں کا محلہ تھا۔


یادوں کی کھڑکی مدت بعد اب سے تین ہفتے پہلے اُس شام کھُلی جب کورونا وائرس کی امکانی وبا کے پیشِ نظر اسکولوں، کالجوں میں چھٹیوں کا اعلان ہو گیا۔ ساتھ ہی ویک اینڈ پہ آئی ہوئی نو بیاہتا بیٹی نے یہ کہہ کر سسرال جانے کے لئے رخصت چاہی کہ کہیں یہ نہ ہو کہ لاہور شہر کو کینٹ سے ملانے والے راستے مسدود ہو جائیں۔ یہ اِس لئے بھی ضروری تھا کہ تعلیمی اداروں کی بندش نے طول پکڑا تو شاید کسی مرحلے پہ آن لائن کلاسوں کا اجرا بھی ہو جائے جن کی تڈریسی تیاری اُسے وقت سے پہلے کر لینی چاہئیے۔ برطانیہ میں ابھی لاک آؤٹ نہیں ہوا تھا اور وزیر اعظم بورس جانسن کورونا کا شکار نہیں بنے تھے۔ سو یہ سوچ کر کہ بچوں کے حالات سے آگاہی رکھنا والدین کا فرض ہے، لڑکے کو فون کرکے اُس کی خیریت بھی پوچھ لی۔ جواب توقع کے عین مطابق تھا کہ یونیورسٹی تو کچھ دن ٹھہر کے بند ہوگی، لیکن ابھی سے گھر پہ ریسرچ تھیسس مکمل کرنے کا مزا آ رہا ہے کیونکہ وبا کے خطرہ نے فالتو چیزوں سے توجہ ہٹا کر ’کانسنٹریشن‘ بہتر کر دی ہے۔


یہ کانسنٹریشن والی بات مجھے خاص طور پہ اچھی لگی۔ یوں کہ بچوں کی طرف سے فارغ شادمان لاہور میں ڈٹے ہوئے ’بڈھا بڈھی‘ نے اِسی کی روشنی میں اپنے فوری اہداف اور احتیاطوں کا بغور جائزہ لیا۔ یہی کہ گھر سے بلاضرورت باہر نہ نکلیں۔ نکلنا پڑے تو ماسک پہن کر جائیں۔ واپس آ کر صابن مل مل کے نہائیں اور کپڑے یا تو بدل لیں یا باہر پھیلا دیں کہ اللہ نے صابن کی طرح دھوپ میں بھی شفا رکھی ہے۔ کسی سے ہاتھ ملانے یا چھ فُٹ سے کم فاصلہ رکھنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں۔ خدا جانتا ہے کہ جس دن سے چھٹیاں ہوئی ہیں، بڈھے بڈھی نے اِن ہدایات کی خلاف ورزی ایک ہی دفعہ کی۔ وہ بھی اِس لئے کہ خوش باش شکل کے مالک مذکورہ بڈھے کے لئے یکم اپریل کو ایک نجی یونیورسٹی (سرکاری نہیں) کی جانب سے فروری تک کی تدریسی مزدوری (مارچ کی نہیں) بذریعہ چیک تھمائے جانے کی توقع پیدا ہو گئی تھی۔ اِس خاطر چھ فُٹ والے رُول کو ریلیکس کرکے دو فُٹ پہ لانا پڑا۔ گھر آکر صابن سے ہاتھ دھو لئے۔


یہاں نکتہ یہ ابھرا کہ یومیہ مزدور صرف وہی نہیں ہوتے جو کام ملنے کی آس پہ صبح سویرے چوبرجی چوک میں آ بیٹھتے ہیں۔ ہر روز پھل کی چھابڑی لگانے، گلی کوچوں میں گھوم کر سبزی بیچنے اور یونیورسٹیوں میں جزوقتی اُجرت پانے والے، سبھی اِس کیٹگری میں ہیں۔ سچ پوچھیں تو موخر الذکر کی حالت اور بھی نازک ہے۔ وہ اِس لئے کہ محنت کشوں کے حق میں دینی تعلیم بہت واضح، انسان دوستی پر مبنی اور سب کے لئے قابلِ قبول ہے۔ مراد اِس اصول سے ہے کہ مزدور کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو۔ گویا اِدھر مزدور کو پسینہ آیا، اُدھر ادائیگی واجب ہو گئی۔ ادائیگی کے لئے پرائمری، مڈل یا ثانوی تعلیم کی شرط بھی نہیں۔ اِس کے مقابلے میں اگر آپ کی ایم اے، ایم فل یا ڈاکٹریٹ کی ڈگری پہ وزٹنگ فیکلٹی کا ٹھپہ لگ چکا ہے تو معاملہ یکسر مختلف۔ ادائیگی کے لئے تدریسی مزدور دن ختم ہونے کا نہیں، سمسٹر مکمل ہونے کا انتظار کرے کیونکہ ائر کنڈیشنڈ کلاس روم میں پڑھانے والوں کو پسینہ تاخیر سے آتا ہے۔


دیر سے پسینہ آنے والوں کا مسئلہ یہیں ختم نہیں ہو جاتا، اِن کے بعض نخرے اَور بھی ہیں۔ جیسے یہی خواہش کہ اِنہیں کورونا رُت کی سیلف آئیسو لیشن میں بھی اپنا وقت ڈھنگ سے گزارنا چاہئیے۔ اِس کیفیت کے لئے برطانیہ میں مقیم دانشور جناب امین مغل نے ’خود علاحدگی‘ کی اصطلاح وضع کی ہے جبکہ ہمارے قانون داں دوست لیاقت علی کو مذکورہ حالت میں گزرنے والا وقت دوستوں کی صحبت سے محرومی کے باعث جیل کے تجربہ سے زیادہ تکلیف دہ محسوس رہا ہے۔ دوستوں کی صحبت تو دورانِ اسیری فیض احمد فیض کو بھی میسر تھی، لیکن وہ جو چار سال اُن کے ساتھ رہنے والے سابق میجر محمد اسحاق کہہ گئے ہیں: ”جیل کے باہر آدمی سینکڑوں لوگوں کو روزانہ ملتا ہے۔ ملتا نہ بھی ہو تو دیکھ ضرور لیتا ہے۔ کئی قسم کی آوازیں سنتا ہے، بیسیوں مناظر سے واسطہ پڑتا ہے۔ کسی سے نفرت ہے تو کنی کترا کے نکل سکتا ہے، کسی سے محبت ہے تو ملاقات کی راہیں ڈھونڈ لیتا ہے یا اُن کی تلاش میں جی بہلا لیتا ہے۔ جیل میں آدمی کی مرضی اُس سے چھین لی جاتی ہے اور اُس کی نقل و حرکت محدود کر دی جاتی ہے“۔


تدریسی فرائض سے ہٹ کر شادمان والے بڈھے بڈھی کا گھر سے نکلنا تو پہلے ہی کم و بیش موقوف تھا۔ اِس پر چالاکی دیکھئے کہ حقیقی یا خیالی طور پہ توجہ طلب دستاویزات، اخباری تراشے اور تصویریں کارڈ بورڈ کے پرانے ڈبوں سے نکال نکال کر زمانی ترتیب سے فائلوں میں سجانے کا کام شروع کر دیا ہے۔ سیاست، معیشت، سماجی زندگی، ادب و فن اور کھیل کے موضوعات پہ بی بی سی کو لاہور سے ارسال کردہ سینکڑوں صوتی رپورٹیں اِن کے علاوہ ہیں جن میں کورونا وائرس سے (انشااللہ) بچ نکلنے کی صورت میں ابلاغیات کے طالب علم بھی فیض یاب ہوں گے۔ بڈھے بڈھی کی اب تک کی کامیابی اِس ایک متفقہ نکتے میں چھپی ہوئی ہے کہ کچھ ہو جائے، مُوڈ خراب نہیں ہونا چاہئیے۔ چونکہ قدرت اپنے نیک بندوں کی ہر حال میں مدد کرتی ہے، اِس لئے وبائی مرض کے شدت پکڑنے سے پہلے ہی ٹی وی کا ریموٹ کام کرنا چھوڑ گیا تھا۔ چنانچہ مینوئل سیٹنگ کے ذریعہ اُسے بی بی سی ورلڈ پہ فِکس کر دیا۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ اِس حرکت کی بدولت کِن کِن آفتوں سے بچے ہوئے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -