رب نیڑے کے گھسن

رب نیڑے کے گھسن
رب نیڑے کے گھسن

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


سب کچھ الٹا ہو رہا ہے پہلے کوئی پوچھتا تھا کہ رب نیڑے یا گھسن، تو ہمیں سوچنا پڑتا تھا۔ اب تو جتنا گھسن نیڑے لگ رہا ہے اتنا ہی رب نیڑے لگ رہا ہے۔ زمین خدا تو خود ایک جرثومے کے سامنے ”کھٹانو“ کی طرح پھدکتے پھر رہے ہیں۔ جو جتنی بڑی عالمی طاقت ہونے کی بڑھک مارتا تھا آج اتنا ہی اس کی باں ویلنے میں آئی ہوئی ہے۔ ان کی جان شکجنے میں ایسے پھنسی ہے جیسی ویہلن میں گنا۔جیسا منہ ویسی چپیڑ۔ رہے غریب تو انہیں ویسے ہی مرنے کی میچ پریکٹس ہے، لیکن جان تو جان ہے چاہے وہ کیڑی کی ہی کیوں نہ ہو۔ یاد ہے قرآن میں اللہ نے بتایا کہ جب ایک لشکر کی آمدتھی تو ایک کیڑی نے چلا کر کہا تھا جان بچا? اپنے اپنے سوراخوں میں چھپ رہو، یار ہم تو پھر چنگے بھلے انسان کے بچے ہیں وہ دور گئے جب والد غصے میں اپنے بیٹے کو کھوتے دا پتر کہہ دیتے تھے۔ کپتان بھی ہمارا خوب ہے موت سے ڈراتا بھی ہے اور گھبرانے بھی نہیں دیتا۔ کبھی کہتا ہے دو ہفتوں بعد کیا ہوگا انہیں خود بھی نہیں پتہ پھر کہتا ہے کہ حالات بہت خوفناک ہو سکتے ہیں اور ساتھ ہی کن میں پھونک مارتا ہے کاکا پتر گھبرانا نہیں۔ ہن دسو میں کی کراں گھبراؤں یا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے دڑ وٹ جا?ں،لیکن اس کورونا نے جہاں خوف دیا وہاں مجھے بہت کچھ اچھا بھی دیا۔ مجھے رب تو محسوس کرنے کا موقع ملا، مجھے میرے بچے واپس ملے، ایک عرصہ بعد میرے بچے میرے ساتھ بیٹھے۔مجھ سے باتیں کیں ساتھ کھانا کھایا۔ مجھے صاف شفاف آلودگی سے پاک ہوا ملی، مجھے اپنے اور اپنے پیاروں کی زندگیوں کی اہمیت کا احساس ہوا، سچی بات ہے مجھے بھوک بے چارگی کا اندازہ ہوا۔ یہ سٹیلائٹ سسٹم یہ انفراریڈ یہ جدید ترین ٹیکنالوجیز ایک معمولی مذاق محسوس ہوئیں۔ مجھے ایک کمزور بے بس کی خدمت کرکے ایک طمانیت ملی جو جس کا میں گواچے بارے سوچنا، اشتہار جاری کر چکا تھا۔ میرا یقین ہے کرونا کے بعد ایک اچھی دنیا ہماری منتظر ہوگی۔ ہاں جواب بھی ذخیرہ اندوزی کرکے مہنگائی کرکے دولت جمع کرنے کی حرص میں ہیں سن لیں ان کی یہ دولت کرونا سے انہیں بچا نہیں سکے گی۔ سنتا سنگھ سخت بیمار ہوگیا۔ ایک سیانا اس کے گھر آیا اور بولا سنتا سنگھ کمزور ہوگئے ہواس لئے بخار ٹوٹ نہیں رہا۔ تم دیسی ککڑ کی یخنی پیو، سنتا نے بنیرے میں بیٹھے اپنے ککڑ کی طرف دیکھا، ککڑ ٹی وی پر بیٹھے اینکروں سے بھی زیادہ ذہین تھا۔ اس نے سنتا سنگھ کی آنکھوں کو پڑھا اور بولا سردار جی پہلاں پیناڈول کھا کے ویکھ لو۔ بھیا رات دس بجے کی آذانوں کی آواز اللہ تک نہیں پہنچ رہی تو ذرا نیڑے تیڑے ہو کر دیکھیں شاید کسی بھوکے اور اس کے ناتواں بچوں کی دبی دبی سسکیاں ہماری کانوں میں نہ پہنچ رہی ہوں۔ جمعہ کی نماز کیلئے بے شک ہماری آتما کو شانتی نہیں، لیکن سچ سچ بتائیں ایسے کتنے ہیں جو فجر کی نماز مسجد میں باجماعت ادا نہ کرنے پر اتنا ہی کڑھتے ہوں۔ بھیا میرے جعلی سینیٹائزر اور نیکروکچھوں کے ماسک بنا کر مہنگے بیچنے سے آپ عوام کو چکر دے سکتے ہیں وہ اوپر والا آپ کو ایسی گھمن گھیری دیگا کہ
لے رب داناں،
کاکا بلی بچ کے موڑ توں


کپتان کی ٹائیگر فورس تیار ہے۔ میرا یقین ہے کہ وہ اس موقع پر بہترین کارکردگی دکھائے گی۔ میاں نوازشریف شیر اور ببرشیر سے نہیں نکلے، کپتان ہمارا ٹائیگرز سے۔ میری سنتا سنگھ کے دیسی ککڑ کی طرح تجویز ہے کہ کبھی انسانوں پر جانور چھوڑنے کے بجائے انسانوں کی فورس بنا کر دیکھیں۔ بندہ بندے کا دارو ہوتا ہے جانور جانور ہی ہوتا ہے وہ چاہے شیر ہو یا ٹائیگر۔ بہرحال دعا یہی ہے کہ اللہ اس موقع پر ٹائیگرز کے دل میں انسان کے لئے رحم ڈال دے ورنہ ٹائیگرز اور انسانوں میں ہمیشہ اٹ کتے کا ویر رہا ہے۔ بنتا سنگھ سے کسی نے پوچھا آپ کب کب گھبراتے ہیں وہ بولا ویسے تو کپتان نے گھبرانے سے ایسے ہی منع کیا ہے جیسے ڈاکٹر نے میری داڑہ توٹنے کے بعد اخروٹ دانتوں سے توڑنے سے منع کیا۔ میں دوبار گھبراتا ہوں ایک تب گھبراتا ہوں جب میری نوکری ختم ہو جاتی ہے۔ دوست بولا اور دوسری بار کب؟ سنتا سنگھ بولا دوسری بار تب گھبراتا ہوں جب میری نوکری لگ جاتی ہے۔ بھائی ہماری قسمت میں تو شیر ہوں تب بھی گھبرانا اور ٹائیگرز ہوں تب بھی گھبرانا لکھا ہے۔


آپ کے منہ کی تعریف نہیں یہ مشیر وزیر جس کام میں ہاتھ ڈالتے ہیں ہزار دوہزار بندے پھڑ کا دیتے ہیں۔ نئے نوٹیفکیشن کے مطابق حکومت نے اخبارات اور اشہاری ایجنسیوں میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دیا ہے لیکن میں نے سوچا پھرسوچا اور پھر سوچا کمیشن کی تقسیم سے حکومت کو تو ککھ نہیں ملنا۔ یعنی کھایا پیا کچھ نہیں کلاس توڑے بارہ آنے۔او کون لوک او تسی۔ بھائی پہلے اخبارات کو پینجا لگا، اب آپ اشتہاری ایجنسیوں کے پیچھے ڈنڈا سوٹا لیکر پڑ گئے۔ آخر آپ چاہتے کیا ہو۔اس نئے نظام سے چاہے حکومت کے پلّے ٹکا نہ پڑے اشتہاری ایجنسیوں میں کام کرنے والے چھوٹے چھوٹے ورکرز ہزاروں کی تعداد میں بیروزگار ہو جائیں گے۔ بس اتنا بتا دیں کہ اگر اس سے آپ کی آتما کو گوڈے گوڈے سکون ملے گا تو ٹھیک اور یہ اقدام بے روزگار بڑھاو،بے احساس سکیم کا حصہ ہے تو ٹھیک۔ ورنہ ان اشتہاری ایجنسیوں میں کام کرنے والے چھوٹے کارکنوں پر رحم کریں سرکار …… آپ ہتھ ہولا کردیں۔یہ کورونا سے بچیں یا حکومتی ڈرونا سے۔یا اونچے اونچے ایوانوں میں چنونا سے۔ آپ تو بادشاہ گر ہیں جب چاہیں جسے چاہیں بے روزگار کرسکتے ہیں۔اہناں نو معافی دے دیو

مزید :

رائے -کالم -