پنجاب میں لاہورکورونا وائرس کا مرکزلیکن اب کون سا شہردوسرا بڑا گڑھ بن رہا ہے، اور وجہ کیا ہے؟
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)پاکستانی صوبہ پنجاب کا دارالحکومت لاہور جہاں پر کورونا کی تعداد ایک ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے تو آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا وسطی شہر گجرات کورونا کے مریضوں کا دوسرا بڑا گڑھ بن چکا ہے۔
اس شہر میں حکام کے مطابق مریضوں کی تعداد ایک سو کے قریب ہے جبکہ مشتبہ مریضوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے۔
اس شہر میں مصدقہ اور مشتبہ مریضوں کی تعداد میں اس لیے اضافہ نہیں ہوا کہ یہاں کے مقیم رائے ونڈ میں ہونے والے تبلیغی اجتماع سے ہو کر آئے ہیں بلکہ اس شہر میں کورونا کے جتنے بھی مصدقہ مریض ہیں وہ یورپ کے ان ممالک سے آئے ہیں جہاں پر کورونا وائرس بڑی تیزی سے پھیلا ہے۔ ان ممالک میں سپین اور اٹلی شامل ہیں۔
یورپی ممالک میں اگر سب سے زیادہ پاکستانی آباد ہیں تو ان میں زیادہ کا تعلق گوجرانوالہ ریجن سے ہے جن میں گجرات اور سیالکوٹ شامل ہیں۔
ایف آئی اے کے حکام کے مطابق غیر قانونی طریقے سے بیرون ممالک جانے والے افراد کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے حکام کے مطابق گزشتہ دو ماہ کے دوران چار ہزار کے قریب ایسے پاکستانی واپس آئے ہیں جن کا تعلق ضلع گجرات اور اس کی دو تحصیلوں سے ہے اور یہ افراد روزگار کے سلسلے میں یورپی ممالک میں مقیم ہیں۔
ڈپٹی کمشنر گجرات ڈاکٹر خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ اُنھیں ایف آئی اے حکام کی طرف سے جو فہرست فراہم کی گئی ہے وہ 2125 افراد کی ہے جن کا تعلق ضلع گجرات اور اس کی تحصلیوں سے ہے۔ کھاریاں اور سرائے عالمگیر گجرات کی تحصیلیں ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ مزکورہ تعداد میں سے 2061 افراد کا سراغ لگا لیا گیا ہے جبکہ باقی افراد کی تلاش جاری ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ ان افراد کا سراغ لگانے میں محکمہ مال کے اہلکاروں یعنی پٹواریوں نے بڑی مدد کی ہے۔
ضلعی انتظامیہ کے حکام کے مطابق ان میں سے زیادہ تر افراد سپین، اٹلی، ہالینڈ اور ترکی سے آئے ہیں۔ یورپی ملکوں میں اٹلی اور سپین کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور ان ممالک میں اس وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 25 ہزار سے زیادہ ہے جبکہ اس وائرس سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر نے دعویٰ کیا کہ ان تمام افراد کے ابتدائی ٹیسٹ کروائے گیے ہیں جن میں سے 90 افراد میں کورونا وائرس کی علامات پائی گئی ہیں جبکہ 532 افراد پر شبہ ہے کہ ان میں کورونا وائرس کی علامات ہوسکتی ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ باقی افراد میں کورونا وائرس کی علامات نہیں پائی گئیں۔
باقی ماندہ افراد کے بارے میں ڈاکٹر خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ ان کی تلاش جاری ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ جن لوگوں کو ابھی تلاش نہیں کیا جاسکا وہ اپنے خاندان اور دیگر افراد کے لیے ایک بہت برا خطرہ ہیں اور ان کی تلاش کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جارہے ہیں۔
مقامی صحافی عامر بٹ کا کہنا ہے کہ اس فہرست میں سے بہت سے افراد روپوش ہوگئے ہیں اور حالات کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی ان سے متعلق معلومات دینے کو تیار نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو پاسپورٹ پر درج کروائے گئے پتے پر نہیں رہ رہے اور ایسے لوگ کدھر ہیں اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے۔
عامر بٹ کے مطابق گجرات کی تحصیل کھاریاں کے عاقے ڈنگہ میں ایسے درجنوں افراد کے بارے میں معلومات نہیں مل رہیں جو تین ہفتے قبل بیرون ممالک سے آئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ اس علاقے کے زیادہ تر افراد پورپی ممالک اور ناروے میں مقیم ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ چند روز قبل سرگودھا روڈ پر واقع ایک افغان بستی پر پولیس حکام اور ضلعی انتظامیہ کے اہلکاروں نے چھاپہ مارا اور وہاں پر رہنے والے درجنوں افعانیوں کو کورونا وائرس کے مشتبہ ہونے پر اسی ایمبولنس میں بھر کر گئے جہاں پر کورونا کے صرف ایک مریض کو لے کر جایا جاتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ان غیر ملکیوں کو کہاں رکھا گیا ہے اس بارے میں متعلقہ حکام بتانے سے قاصر ہیں۔
ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بیرون ملک سے آنے والے اس فہرست میں شامل ایسے افراد کی تلاش کے لیے گاوں کی مساجد میں اعلانات بھی کروائے جا رہے ہیں جس میں لوگوں سے کہا جارہا ہے کہ ایسے افراد کے بارے میں اُنھیں کوئی علم ہو تو وہ فوری طور پر متعقلہ تھانے میں اس سے متعلق آگاہ کریں۔
ڈپٹی کمشنر گجرات کا کہنا تھا کہ اس شہر سے تعلق رکھنے والے ایسے 74 افراد کا بھی سراغ لگایا گیا ہے جنھوں نے لاہور کے مضافاتی علاقے رائے ونڈ میں تبلیغی اجتماع میں شرکت کی تھی۔
کورونا کے مریضوں کے لیے شہر کے تین ہسپتالوں میں قرنطینہ مراکز بنائے گئے ہیں۔ اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ ان مریضوں کی ہر طرح کی دیکھ بھال کی جارہی ہے۔