قیامت ہے کسی محبوب کا دل سے اتر جانا
دنیا کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ جو آیا ہے اس نے جانا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جانے کو دل کسی کا نہیں کرتا یہ جانا بھلے دنیا سے ہو یا اقتدار سے اشرف المخلوقات کا عمومی رویہ یہی ہے۔ تاریخ میں مگر زندہ جاوید وہی ہوتے ہیں جو اپنے طے کردہ اور مسلمہ اصولوں کی خاطر جان کی پرواہ کرتے نہ کرسی کی، جب اس طرح کا مرحلہ آتا ہے تو وقت طے کرتا ہے کہ انسان انسانیت کے کس درجہ پر فائز ہے۔ آزمائش اور امتحان کی یہ گھڑیاں کندن بھی بنا سکتی ہیں اور مشتِ خاک بھی اعلیٰ اقتدار کے سینکڑوں ہزاروں گھنٹے مثالی کردار کے چند لمحات کے سامنے ہیج ہیں۔ شخص سے شخصیت کا سفر بہت طویل اور کٹھن ہے مگر چند کمزور لمحات اس سب کئے کرائے پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ ہیرو کو زیرو بنا دیتے ہیں کیا گفتار کا غازی کپتان ان کمزور لمحات میں چاروں شانے چت ہو گیا ہے؟ یا ابھی اصولوں پر ”ڈٹ کر کھڑا ہے عمران“ کا نغمہ دلوں پر اثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟؟ اس کا فیصلہ چند روز میں ہو جائے گا۔ لیکن آثار کچھ اچھے نہیں نظر آ رہے۔ کرکٹ میں نیوٹرل ایمپائر کا نظریہ پیش کرنے والا ایمپائر کے نیوٹرل ہوتے ہی اگر حواس کھو بیٹھے اور فاؤل پلے پر اتر آئے تو بائیس سال کا مجاہدہ 43 ماہ کے اقتدار کی بھینٹ چڑھنے کا ماتم ہر صاحبِ دل کا مقدر ٹھہرے گا۔ خان کا اعجاز یہ ہے کہ اس نے اپنے پرچم میں ہی سرخ و سبز کو اکٹھا نہیں کیا، دین اور دنیا، مشرق اور مغرب، جدید اور قدیم، امیر اور غریب، جھونپڑی اور محل کو یکجا کر کے سیاسی آمیزہ تیار کیا اور اس کا نام انصاف کی تحریک رکھ دیا۔ فارمولا عوام و خواص کو بھا گیا۔ انتخابی سائنس مگر مختلف ہے۔ اس میں مہارت حاصل کرنے میں وقت لگا۔ جو کسر رہ گئی وہ ”فرشتوں“ نے پوری کر دی اقتدار کے ابتدائی ایام میں حقیقت پسندی کی معیشت نے مشکلات پیدا کیں عوام کی چیخیں بلند ہوئیں تو ملمع سازی کا سابقین والا، چلن اپنا لیا۔ دنیا میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھیں مگر ملک میں قیمتیں کم کر کے داد حاصل کی۔ کورونا پر قابو پانے کے لئے عوام کے روز گار کو مکمل بند نہ کرنے کی پالیسی اپنائی جس پر داد ملی قدرت بھی مہربان ہوئی۔ گندم، چاول، گنے اور آلو کی ریکارڈ پیداوار ہوئی۔
کسانوں کو 11 سو ارب روپے کی اضافی آمدنی ہوئی۔ بڑے پیمانے پر صنعتوں کو مراعات دی گئیں تو ملک کی سو بڑی کمپنیوں کو 931 ارب روپے کا ریکارڈ منافع ہوا۔ پٹرول، ڈیزل اور بجلی کے نرخوں کو منجمد کر کے اگلے بجٹ تک کوئی اضافہ نہ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ 80 لاکھ خاندانوں کو ملنے والے بارہ ہزار روپے ماہانہ کو بڑھا کر 14 ہزار کر دیا گیا۔ گریجوایٹ جوانوں کو ماہانہ 80 ہزار تک انٹرن شپ دینے کی وعید سنائی گئی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی (IT) کے سٹارٹ اپ پر سو فیصد گین ٹیکس ختم کر دیا گیا۔ پنجاب میں صرف تین ماہ کے دوران سب کو صحت کارڈ فراہم کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا۔ آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنے کے نہ صرف بیانات دیئے گئے بلکہ اس کی طرف عملی قدم بھی اٹھتا نظر آنے لگا۔ خیال تھا کہ ان اقدامات سے مہنگائی کا جن قابو کرنے میں مدد ملے گی۔ امریکی اور یورپی منڈیوں کے ساتھ ساتھ ہمارے صنعتکاروں کو روس اور وسط ایشیائی ممالک کی منڈیوں تک بھی رسائی مل جائے گی یوں برآمدات بڑھیں گی۔ قومی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔ روز گار کے مواقع بڑھیں گے اور لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ ہوگا۔ مہنگائی کا تکلیف دہ احساس کم ہو گا۔ حکومت کے خلاف کسی بھی مہنگائی مکاؤ تحریک کے امکانات کم ہو جائیں گے یوں راوی چین لکھے گا اور اگلے انتخابات میں بھی کامیابی کا سہرا موجودہ حکمران جماعت کے سر بندھے گا۔ مگر ہونی کچھ اور ہوتی چلی گئی۔ مہنگائی اور بیروزگاری کے ہاتھوں عوام تنگ تو ہوئے مگر دیگر کسی سیاستدان کو ”نجات دہندہ“ کا درجہ دینے کی پوری طرح تیار نہ ہوئے۔
کپتان کی ٹیم کو وہ نا اہل ضرور سمجھنے لگے لیکن کپتان سے امیدیں یکسر ختم نہ کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ جب متحدہ اپوزیشن نے جلسے جلوسوں، مارچوں اور دھرنوں کی راہ اختیار کی تو کپتان بھی انگڑائی لے کر اٹھا۔ الیکشن کمیشن کے نوٹسوں اور وارننگوں کو نظر انداز کرتے ہوئے انتخابی جلسوں اور عوامی ریلیوں کی سیریز چلا دی۔ حافظ آباد اور کمالیہ کے جلسوں نے کپتان کے حامیوں کے حوصلے بلند کر دیئے تو اسلام آباد کے جلسے نے کئی ریکارڈ توڑ ڈالے۔ یوں لگا کہ عوام اب بھی خان کے ساتھ ہیں مگر ایک بار پھر اندازے کی غلطی ہو گئی۔ پارلیمانی جمہوریت کی سائنس کہتی ہے کہ عوام کا سمندر بھی سڑکوں پر جمع کر لیں تب بھی فیصلے منتخب ایوانوں میں ہوں گے جہاں خان کے حامی ارکان کی تعداد کم سے کم تر ہوتی چلی جا رہی تھی۔ خان لاکھوں کے مجمع کو اپنی تقریر سے گرویدہ بنانے کا ہنر تو سیکھ گیا مگر منتخب ارکان کی دلجوئی نہ آ سکی۔ کروڑوں کے خرچ سے ہزاروں لاکھوں ووٹ لے کر آنے والوں کی عزت نفس کا خیال نہ رکھا گیا۔ منتخب ارکان پر غیر منتخب ”چہیتے ماہرین“ کو فوقیت دی گئی۔ منتخب وزیروں سے نامزد مگر با اختیار مشیروں کی تعداد بڑھ گئی۔ یہ بات زبان زدِ عام ہو گئی کہ خان کی گردن میں سریا ہے۔
کوئی کارواں سے ٹوٹا کوئی بدگماں حرم سے
کہ میر کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی
کپتان کی بوری میں سوراخ ہو گیا تو بدزبانی میں اضافہ کر دیا گیا۔ مخالفین کو چوہا اور نہ جانے کیسے کیسے عامیانہ القابات سے نوازا جانے لگا۔ یہ کام بھٹو صاحب نے بھی کیا تھا۔ وہ بھی مخالفین کو آلو اور چوہا کہہ کر پکارتے تھے۔ پھر جو ہوا سب کو پتہ ہے خان نے دعویٰ تو شروع سے کیا ہوا ہے کہ وہ سپورٹس مین ہے ہار کبھی نہیں مانتا۔ آخری گیند تک مقابلہ کرتا ہے۔ مگر 3 اپریل کو سپورٹس مین سپرٹ کہیں نظر نہیں آئی۔ آخری گیند تک مقابلہ کرنے والا کپتان گیند ہی لے بھاگا۔ سیاسی فتح و شکست کو اس کھیل کے مختلف مراحل میں جو عارضی بھی ثابت ہوتے ہیں مگر کسی اقدام سے اگر ساکھ خراب ہو جائے نام بدنام ہو جائے تو وہ دیرپا نقصان ہے۔ ایوان میں ”روندی“ مار کر خان نے خود کو نقصان پہنچا لیا ہے۔ لوگوں کو خدشہ ہے کہ اب کپتان ایوان کے وجود کے ہی درپے ہو جائے گا اور صدارتی وحدانی نظام لانے کی کوشش کرے گا تاکہ وہ براہ راست عوام سے ووٹ لے کر مقتدر صدر بن جائے۔ پھر ایوان کو ٹھینگا، پارلیمان کو ٹھینگا۔ یہ سول آمریت کا راستہ تو ہو سکتا ہے جمہوریت کا نہیں 73 کا آئین بڑی مشکل سے بنا تھا۔ اس کو ختم کیا گیا یا اس کی حیثیت بدلی گئی تو مشکل ہو جائے گی اس راستے سے اقتدار کی سیڑھی چڑھنے والا دلوں سے اتر جائے گا۔
قیامت ہے کسی محبوب کا دل سے اتر جانا