آئیے قطار بنائیں
شادی کی تقریب میں جونہی آواز آتی ہے کھانا کھل گیا ہے تو اچھے بھلے کھاتے پیتے بہترین پوشاکوں میں ملبوس معتبر خواتین و حضرات یکدم یوں پل پڑتے ہیں جیسے کسی بے لباس بھوکے جنگلی کو بہت عرصے کے بعد شکار نظر آیا ہو۔ ایک عالمِ محشر بپا ہو جاتا ہے۔دھکم پیل کے دلدوز مناظر بھی نظر آتے ہیں۔ کئی کہنہ مشق معززین میز کے آگے لگی بھیڑ کے درمیان سے کمال حکمتِ عملی سے ہاتھ ڈال کر مناسب بوٹیاں نکال کر جذبہ کامیابی سے سرشار نظر آتے ہیں۔ خواتین بھی کھانے کا ایسا پہاڑ بنا لیتی ہیں کہ آدھے سے زائد پلیٹ میں پڑا رہ جاتا ہے۔ آخر معدہ اور انہظام کی بھی حدود ہوتی ہیں۔ مگر اس جاہلانہ رویہ کی کوئی حد نہیں۔ بظاہر تو لگتا ہے کہ یہ بھگدڑ اس بنا پر مچی ہے کہ شاید کھانے کی شدید کمی کی وجہ سے وہ بھوکے نہ رہ جائیں۔ لیکن گھمسان کے رن کے بعد عموماً ڈشوں میں خاصا کھانا پڑا رہ جاتا ہے۔
ایسے معتبر اگر ایسی بد اخلاقی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں تو سیاسی جلسوں اور میٹنکز کے بعد کارکنان کا کھانے پہ ٹوٹ پڑنے کا روح فرسا منظر کوئی غیر معمولی یا معیوب امر نہیں لگنا چاہئیے۔
یہ رویہ ہمیں ہر موقع پہ نظر آتا ہے۔ سڑک پہ ٹریفک کا اڑدھام ایسا کہ ہر شخص خلاف ورزی پہ سبقت لے جانے پہ تلا ہوتا ہے۔ چنگچی، رکشا اور موٹر سائیکل والے اپنے آپ کو ماورائے قانون سمجھ کر جدھر منہ اٹھائے دوڑے چلے جاتے ہیں۔ قطار دشمنی تو سرشت میں شامل ہے۔ ہڑبونگ ایک قومی فعل لگتا ہے۔
یہ قطاروں کو توڑنے اور ریوڑ کی نفسیات نہ جانے کب سے اور کیسے ہمارے رگ و پے میں سرایت کر گئی ہے۔پروفیس سلیمان ڈی محمد اسے تربیت کے شدید فقدان سے عبارت کرتے ہیں۔ اور اس بد عادت کا ایسا اثر ہوتا ہے کہ جو ایسا نہیں کرنا چاہتا وہ بھی اسکا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ بھی قطار شکنی کر کے دوسروں کی حقوق کی پامالی اور تحقیر میں شامل ہو جاتا ہے۔ یہ تربیت کا فقدان نہیں تو اور کیا ہے۔ اس بد عادت کو جانتے ہوئے ریاست اور حکومت پہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسے اقدامات اور قوانین پہ سختی سے عمل کرے کہ قطار شکنی اور بھکدڑ سے بچا جا سکے۔
حال ہی میں کراچی میں آٹا تقسیم کے دوران بھکدڑ مچنے سے بارہ افراد جان کی بازی ہار گئے۔ ہو گئے۔ ان میں عورتیں اور بچے بھی تھے۔ یہ تقسیم حکومتِ سندھ نہیں کر رہی تھی بلکہ ایک پرائیوٹ پارٹی کر رہی تھی۔ ایسے واقعات پنجاب میں بھی ہو چکے ہیں۔ ضرورت مند لوگوں میں آٹے کی مفت تقسیم درحقیقت ایک بہت ہی احسن اقدام ہے اور قیمتوں میں زبردست اضافے سے دبے غریب لوگوں کو مناسب ریلیف دینے کے لیے بہت ضروری ہے۔ جبکہ کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ بارہ دنوں کے دوران دو کروڑ سے زائد افراد مفت آٹے کی تقسیم سے مستفید ہو چکے ہیں، مگر امدادی سامان کی تقسیم کے دوران ایسے واقعات کا رونما ہونا افسوسناک ہے۔ اگرچہ زیادہ تر مقامات پر تقسیم کا عمل ہموار رہا ہے، لیکن مستقبل میں ایسے واقعات کے دوبارہ ہونیسے بچنے کے لیے، حکام کو تقسیم کے عمل کی پیشگی منصوبہ بندی کرنی چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول سرکاری اداروں، رضاکاروں، اور مقامی حکام کے درمیان کافی ہم آہنگی ہو۔.
مقامی رضاکار مقامی حکام اور پولیس کی مدد کے لیے کافی مفید ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر بھگدڑ کم جگہ یا تنگ جگہ پر زیادہ بھیڑ کی وجہ سے ہوتی ہے۔ تقسیم چار دیواری کے اندر مت کی جائے۔ تقسیم کی جگہ کو مناسب حفاظتی اقدامات کے ساتھ محفوظ کیا جانا چاہئے اور امن و امان کو برقرار رکھنے اور ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لئے پولیس کی موجودگی دکھائی دینی چاہئے۔
حکام کو چاہئیے کہ عوام کو مکمل آگاہی دے کہ ہر کوئی تقسیم کے عمل اور ان قواعد و ضوابط سے آگاہ ہے جن پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
ہجوم کا انتظام اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ تقسیم کے عمل کو آسانی سے انجام دیا جائے۔ حکام کو بھیڑ کو منظم کرنے کے لیے تربیت یافتہ اہلکاروں کو تعینات کرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ لوگ قواعد و ضوابط پر عمل کریں۔ زیادہ ہجوم اور بھگدڑ سے بچنے کے لیے، تقسیم کے عمل کو مرحلہ وار انجام دیا جانا چاہیے، کسی بھی وقت تقسیم کی جگہ پر محدود تعداد میں لوگوں کی اجازت ہو۔ ڈسٹری بیوشن سائٹ کو احتیاط سے منتخب کیا جانا چاہیے، مقام کی رسائی، متوقع لوگوں کی تعداد، اور بھیڑ کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے مقام کی صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے۔
تقسیم کے عمل کی نگرانی اور جانچ کی جانی چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ آسانی اور مؤثر طریقے سے انجام پا رہا ہے۔
ڈپٹی کمشنر صاحبان کو اس عمل کو تحصیلداروں اور پٹواریوں پر نہیں چھوڑنا چاہئے جو اس عمل کو منظم طریقے سے چلانے میں بہت کم دلچسپی اور تجربہ رکھتے ہیں۔
نجی عطیہ دہندگان کو پابند کیا جائے کہ وہ آٹے اور دیگر سامان کی بڑے پیمانے پر تقسیم سے پہلے پولیس یا مقامی حکام کو مطلع کریں تاکہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ مذکورہ بالا تمام اقدامات موجود ہیں۔
ان چند تجاویز پہ مبنی حکمت عملی سے قیمتی جانیں بچ سکتی ہیں اور نیکی کا کم بھی بغیر خوف و خطر جاری رہ سکتا ہے۔ مخالفین جو کہ اچھے کام کو بھی لتاڑنے کی تاڑ لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں ان کے منہ بھی بند رہیں گے۔
اور کاش قطار بنانے کی تربیت کا آغاز گھر اور سکول سے کر دیا جائے تو قوم میں نظم و ضبط کی صلاحیت پیدا ہو جائے۔ وگرنہ قطار شکنی، بھگدڑ اور ہڑبونگ ہر جگہ اور ہر شعبے میں ہلاکت اور ندامت کا باعث بنتے رہیں گے۔