وارث شاہ کون ہے؟

   وارث شاہ کون ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 ہیر وارث شاہ پنجابی کی تاریخ کا ایک شاندار مرقع ہے۔ بدیہی اب ایسا کچھ لکھا جائے گا۔ اس عشقیہ داستان میں ہیر اور رانجھے کے عشق کے سنگ پنجاب کی تاریخ کے نئے نئے رنگ اور طرح طرح کی رتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔  ہر وہ بات، وہ نکتہ موجود ہے جو دنیا کے کسی بڑے ادب میں پایا جاتا ہے اس میں موجود ہے۔ انسانی دکھ، المیہ، محبت، درد، ان کی  تہہ میں معاشی ناہمواریاں اور طبقاتی کش مکش وغیرہ ہیر کے کرداروں میں عیاں ہوتی ہے۔ باایں ہمہ، ہیر پنجاب کی معاشرت کا عکس تو ہے ہی لیکن اس میں  اس عہدکے پنجاب کی حساس صورتِ حال کی درد ناک مگردبی دبی سی گونج بھی سنائی دیتی ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ کم و بیش اٹھاون برس کی عمر میں جب  وارث شاہ نے، 1766ء یا 1768ء کے  درمیانی عرصے میں  ملکہئ  ہانس، ساہیوال کے قریب ایک قصبہ، میں اس دلربا قصے کو قلمبند کیا تو اس سے قبل پنجاب پہ کئی طرح کی قہرمانیوں کے بادل برس چکے تھے اور احمد شاہ ابدالی کی افواج آٹھویں بار دلی سلطنت کو ادھیڑ رہی تھیں، پنجاب کی سرزمین کو پامال کر رہی تھیں۔مغلیہ سلطنت کا خستہ حال شیرازہ کھل کر بکھر رہا تھا۔  سیدانِ بادشاہ گر مغلیہ تخت کو موم کی ناک سمجھے بیٹھے تھے۔ جیسے چاہتے مروڑتے تھے، جو چاہتے ان کا حسنِ کرشمہ ساز کرتا، جب چاہتے اور جس کو چاہتے بادشاہ نامزد کر دیتے خواہ مغل شہزادہ تخت پر نہ بیٹھنے کے لیے لاکھ جتن کرتا۔ مغلیہ سلطنت کے مرکز کے حالات غیر مستحکم ہونے کی بناء  پر صوبے اتنے ہی منہ زوری اور سرکشی اختیار کیے بیٹھے تھے۔ان سب کا وارث شاہ کے حساس تخیل پر اثر ہو اجس کا مشاہدہ انہوں نے جنڈیالہ شیر خان سے قصور کی جانب اور قصور سے ملکہ ئ  ہانس رختِ سفر کے دوران کیا ہو گا۔ 

وارث شاہ صوبہ لاہور، پنجاب، کے باشندے تھے۔ پنجاب کے حالات مزید دگر گوں تب ہوئے جب نادر شاہ درانی نے 1738ء میں افغانستان سے دلی پر حملہ کیا۔ اس دیس پنجاب کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی۔ یہاں کی مٹی چیخ اُٹھی۔ عوام درد و کرب سے الامان الامان پکارنے لگے۔ اس تباہی پر روئیدادجو لکھی وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے کہ کیسے  اور کیوں کر پنجاب کا ذرہ ذرہ اس حملہ کی زد میں آ کر بلبلایا۔ درانی حملے کے ٹھیک دس سال بعد وارث شاہ نے احمد شاہ ابدالی کی فوجوں کی قہرمانیت کو دیکھا کہ کیسے اس نے ہندوستان کی سینے کے گھوڑوں کی نوکدار نعلوں سے زخمی کرنا شروع کیا۔ ہیر کے اندر ان تمام حملوں کی گمک پائی جاتی ہے۔ اس میں موجود کردار اکثر مقامات پر ایک دوسرے سے مکالمے کے دوران حملہ آوروں کا ذکر کرتے ہیں۔ افغانیوں کے ان حملوں نے پنجاب کے باشندوں بالخصوص جاٹوں کی سوچ اور نفسیات پر گہرے نقوش چھوڑے کیوں کہ  ناسازگار حالات ایک خاص ڈھب سے لوگوں کو سوچنے پر اکسانے لگتے ہیں۔ وارث شاہ نے اس دور میں نہ صرف انسانوں کی ہر نوع کی خوبیوں اور  خامیوں کا مطالعہ کیا   بلکہ انسانوں کی مشترک غم و الم، خوشی و انبساط اور المیوں کو  لفظوں کا گلبدن پیراہن پہنایا۔ یہ شاہکار ان حملوں کے علاوہ پنجاب کے تمدن کا گنجینہ بھی ہے بلکہ اب تو اسے پنجاب کے کلچر کا مدفن کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ 

ہیر میں  اس دور کے پنجاب کی روز مرہ کی تاریخ ہے۔ اس خطے کے لوگوں کا رہن سہن کیسا تھا، ان کے عادات و اطوار کس طرز کے تھے، وہ لین دین کے معاملات میں کیسا رویہ اپنائے ہوئے تھے، مکر و فریب ان کی زندگیوں میں کیوں تھا، قاضی اور ملاء_  انسان کے بیری کیوں بنے بیٹھے تھے، ان تمام جملہ باتوں کے ساتھ  یہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے کہ اس دور میں کس نوع کی تعلیم رائج تھی۔ طلباء_  یہ تعلیم کس طرح حاصل کرتے تھے۔ مکتب کی تعلیم اور اس کے نصاب میں کیا کیا کچھ شامل تھا۔ قصور جیسے چھوٹے سے قصبے میں اعلی تعلیم کا نظام موجود تھا جسے ہر کہ و مہ بآسانی حاصل کر سکتا تھا۔ علم اور اہلِ علم کی قدر تھی۔ وارث شاہ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ تعلیم کے سلسلے میں قصور  گئے تو جس مسجد میں انھوں نے قیام کیا وہ بیت العتیق کی مانند تھی۔ ہیر میں مرقوم ہے کہ یہ مسجدِ اقصی کی بہن ہے جہاں فاضل، درویش، مفتی اور اکابرِ علم درس دیتے ہیں۔ ان دروس میں میں وہ تعلیل، میزان، صَرفِ میر، صَرفِ بہائی کے اسباق پڑھاتے ہیں۔ قاضی قطب، کنز، بارہ انواع اور مسعودیوں کے مسودات کی تصحیح کراتے ہیں۔ خانی، مجموعہء سلطانی، حیرت الفقہ، فتاویٰ برہنہ، منظوم شاہاں، زْبدات، معارج البنوت، شرح ملا، زنجانی، ہرکرن کی نثر، خالقِ باری، گلستان، بوستان، بہارِ دانش، طوطی نامہ، منشات نصاب، ابو الفضل کے دفتر، شاہ نامہ، واحدِ باری، قرآن السعدین، دیوانِ حافظ، خسرو و شیریں نہ صرف پڑھائے جاتے ہیں۔ان کی تعلیم ریوڑیوں کی مانند بانٹی جاتی ہے۔ اس علم کے ساتھ زمین سے متعلق علوم، خَسرے، سیاق نامے، سیاہے اور روز نامچے لکھنے کا گر بھی دیا جاتا ہے۔ہیر کو پڑھنے کے دوران یہ معلوم ہوتا ہے کہ اْس دور کے معاشرے میں ہر مذہب کا احترام موجود تھا۔ لوگوں کی زندگیوں میں ٹھہراؤ اور برداشت تھی۔ لوگ خواہ کسی بھی مذہب سے ہوں، مگر ایک دوسرے کے مذاہب کے بارے میں کچھ نہ کچھ سدھ بدھ رکھتے تھے۔ رامائن اور مہابھارت کے قصے زبان زد خاص و عام تھے۔ ہیر میں وارث شاہ دیس پنجاب میں گائے جانے والے ہر طرح کے راگ کا ذکر ہے بالخصوص جب رانجھا ہر طرح کا راگ گا کر پنج پیروں کی روح کو جوش دلاتا ہے اور وہ  وجد میں آ کر  ہیر، رانجھے کو بخش دیتے ہیں۔ 

بلاشبہ، ہیر پنجاب کی تاریخ کی میں خاص مقام رکھتی ہے۔اس سے ہمارے آج کے نواجوان نابلد ہیں لیکن انگریزی ادب کی باریکیوں سے واقف ہیں۔ اکثر پڑھانے کے دوران جب کبھی طلباء کے  سامنے ہیر یا وارث شاہ کا ذکر کیا جائے تو حیرت کی مورت بن کر پوچھتے ہیں کہ وارث شاہ کون تھا؟ کیا یہ لمحہء فکریہ نہیں ہے؟ اہلِ اقتدار نے قومی اور علاقائی زبانوں کے ساتھ اچھوتوں والا سلوک کیا ہے جس طرح آریائی لوگوں نے یہاں کی زبانوں کو ناگ بانی کہ کر سنسکرت کو پورے ہندوستان پر مسلط کیا۔اسی کے مصداق، موجودہ دور کے آریاؤں نے انگریزی زبان کو مسلط کیا ہے۔ ہمارے نوجوان ذہنی اور باطنی خلا کا شکار ہیں جو  انہیں مٹی سے جوڑ کر بھرا جا سکتا ہے۔ اسی کے ذریعے قوم سازی ممکن ہے۔ 

مزید :

رائے -کالم -