نیٹو سپلائی بحالی کی مفاہمتی یادداشت

پاکستان اور امریکہ نے نیٹو سپلائی بحالی کی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کر دئیے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے ایڈیشنل سیکرٹری دفاع ایڈمرل فرخ احمد، جبکہ امریکہ کی جانب سے امریکی ناظم الامور رچرڈ ہو گلینڈ نے دستخط کئے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ کے 1.18 ارب ڈالر مل جائیں گے۔ سپلائی کے کنٹینروں کی دو مرتبہ سکیننگ کی جائے گی۔ ایک مرتبہ پورٹ قاسم پر اور دوسری مرتبہ طورخم/ چمن کے مقام پر۔ معاہدے کے تحت صرف ادویات اور کھانے، پینے کا سامان لے جانے کی اجازت ہوگی۔ مہلک ہتھیار نہیں جائیں گے اور سامان کی فہرست فراہم کرنا بھی لازمی ہوگی۔ نیٹو سپلائی بحالی کی مفاہمتی یادداشت پر اعتراضات بھی کئے جا رہے ہیں۔ جو لوگ نیٹو سپلائی بحالی کے سرے سے ہی خلاف ہیں، اُن کی طرف سے تو اعتراضات اچنبھے کی بات نہیں۔ کچھ لوگ اس بات پر بھی اعتراض کرتے ہیں کہ افغان آرمی کے لئے اسلحے کی ترسیل کی اجازت ہوگی اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ اسلحہ پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگا؟
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اتحادی سپورٹ فنڈ کی مد میں 1.18 ارب ڈالر کا مصرف کیا ہوگا اور کیا اس رقم سے عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے میں کوئی مدد ملے گی؟....ان تمام خدشات اور اعتراضات کے باوجود در حقیقت نیٹو سپلائی بحالی کی مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہونا ایک مثبت پیش رفت ہے اور پاکستان جیسے ملک کے لئے، جو اپنے قیام سے لے کر آج تک امریکی امداد پر انحصار کرتا رہا ہے اور اس نے امریکہ کے قریبی اتحادی کا کردار امریکی خواہشات کے مطابق ادا کیا ہے، کسی شفاف معاہدے کے ذریعے تعلقات کی سمت متعین کرنا نہایت ہی خوش آئند امر ہے۔ نیٹو سپلائی کی مفاہمتی یادداشت کو پاکستان کے ماضی کی خارجہ پالیسی اور امریکہ کے ساتھ ماضی کے تعلقات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت سے یہ توقع کرنا کہ وہ آناً فاناً پاکستان کو ایک غیر جانبدار ملک بنا دے گی اور پاکستان اپنے ماضی سے کنارہ کش ہو جائے گا، قطعاً جائز بات نہیں۔
اگر ہم پاکستان کی ماضی کی پالیسیوں کو مدنظر رکھیں تو ایک حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ امریکہ کے ساتھ ہمارے ماضی کے تعلقات کبھی بھی شفاف طریقے سے وجود میں نہیں آئے، بلکہ ان کی نوعیت اور دائرہ کار ہمیشہ خفیہ ہی رہے اور عوام کو ان کے بارے میں ہمیشہ اندھیرے میں رکھا گیا۔
جب سوویت یونین نے پاکستان کے علاقے سے اُڑنے والا امریکی جاسوس طیارہ مار گرایا تھا تو پاکستان میں کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ امریکی سوویت یونین کی جاسوسی کرنے کے لئے پاکستانی علاقے کو استعمال کرتے ہیں اور ہمارے علاقے میں امریکی اڈے موجود ہیں۔ یہ تمام معاملات اندر کھاتے یہی طے ہوتے رہے اور چند افراد ہی اپنے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امریکہ کے ساتھ معاملات طے کرتے رہے۔ اس کے بعد جب سوویت یونین نے افغانستان میں فوجیں بھیجیں اور پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور امریکہ کے اشتراک سے افغان جہاد میں حصہ لیا تو کسی کو کچھ معلوم نہ ہو سکا کہ اندر کھاتے کس طرح کے معاہدے کئے گئے اور پاکستان نے امریکہ کو کون کون سی مراعات دیں؟
اگر افغان جنگ کے وقت بھی امریکہ کے ساتھ تعلقات میں شفافیت کے پہلو کو مدنظر رکھا جاتا اور تعلقات کی نوعیت ایک معاہدے کی شکل میں واضح کر دی جاتی، تو ہم بہت سی قباحتوں سے محفوظ رہ سکتے تھے۔ افغان جنگ کے لئے پوری دنیا سے جنگجو پاکستانی علاقے میں کس قانون کے تحت جمع کئے گئے۔ کس نے ان عناصر کو پاکستان میں جمع کرنے کے لئے سہولتیں فراہم کیں؟ ان کا اندراج کہاں پر کیا گیا اوران کے پاکستان میں قیام کی نوعیت کیا تھی؟ پاکستانی علاقے میں ان کو مسلح کس طرح کیا گیا اور رقوم کہاں سے فراہم ہوئیں؟ اگر افغان جنگ لڑتے وقت امریکہ کے ساتھ معاملات شفاف انداز میں آگے بڑھائے جاتے اور کسی قانون قاعدے کے تحت کام کیا جاتا تو پاکستان بہت سے مسائل سے محفوظ رہتا، جو ان دنوں اس کے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ یہ بات بھی تعجب انگیز ہے کہ سوویت یونین کے ساتھ جنگ کے دوران وہ عناصر خاموش رہے، بلکہ اس جنگ میں شامل ہوگئے جو ان دنوں پاکستان کے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت کا رونا روتے رہتے ہیں....
بعدازاں جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں نائن الیون کا واقعہ پیش آیا تو جنرل پرویز مشرف نے طالبان کے خلاف یوٹرن لے لیا، پاکستان جو پہلے طالبان کا اتحادی تھا، منٹوں، سیکنڈوں میں طالبان کے خلاف امریکہ کا اتحادی بن گیا۔ راتوں رات خارجہ پالیسی میں یوٹرن کی اس طرح کی پالیسیوں کی شاید دنیا کے دیگر ممالک میں نظیر نہ مل سکے۔ پرویز مشرف کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کی نوعیت کتنی خفیہ تھی، اس کا اندازہ لگانا قطعاً مشکل کام نہیں۔ عوام کو تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ شمسی ایئر بیس پر امریکی موجود ہیں۔ پاکستان کے موجودہ پالیسی سازوں کو یہ کریڈٹ بھی ملنا چاہئے کہ انہوں نے شمسی ایئر بیس خالی کروایا اور اب امریکہ کے ساتھ نیٹو سپلائی کی بحالی کی یادداشت کو تحریری شکل دی ہے۔
اس یادداشت میں بھی بہت سی خامیاں ہو سکتی ہیں، لیکن بہرحال پاکستان میں امریکہ کے ساتھ تعلقات کی نوعیت میں شفافیت کا ایک عنصر ضرور داخل ہوگیا ہے۔ اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور امید ہے کہ آئندہ سالوں میں امریکہ کے ساتھ تعلقات میں مزید شفافیت آئے گی۔ خفیہ معاہدے ہمیشہ قومی عزت اور وقار کے خلاف ہوتے ہیں ، لہٰذا ان معاہدوں کے معاملے میں عوام پر اعتماد کیا جانا چاہئے اور انہیں صحیح صورت حال سے آگاہ کرنا چاہئے۔ اس طرح حکومت کا بھی فائدہ ہوتا ہے اور عوام میں بھی حقیقت پسندی کی سوچ کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ خفیہ معاہدوں کا مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اور عوام میں فاصلے بڑھ جاتے ہیں اور سوچ میں عدم یکسانیت پیدا ہو جاتی ہے، پھر ایک سطح ایسی آجاتی ہے، جب عوام اور حکومت میں خلیج اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ یہ ملکی وجود اور سیاسی نظام کے لئے نقصان کا باعث بنتی ہے۔ امریکہ کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط مستقبل کے تعلقات میں شفافیت لانے کے لئے ایک اچھا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔