حلقہ151: پاکستان کے مستقبل کا جمہوری پیغام

حلقہ151: پاکستان کے مستقبل کا جمہوری پیغام
حلقہ151: پاکستان کے مستقبل کا جمہوری پیغام

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app





حلقہ151کے ضمنی انتخابات میں سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے عبدالقادر گیلانی کی کامیابی نے پاکستان کی سیاست میں روائتی ردعمل کے تمام مظاہر پیش کر دیئے۔ مخالفین نے مجموعی طور پر انتخابی شکست کو تسلیم کر لیا۔ پاکستان میں اسے جمہوریت کے لئے حوصلہ افزا علامتوں کا آغاز کہنا چاہئے۔ ہمارے ہاں شکست کی کہانی جوابی جارحیت سے لکھی جاتی اور آخر دم تک اس سے انکار عزت کا تقاضا تسلیم کیا جاتا ہے۔ پی پی پی کے مخالفوں نے عبدالقادر گیلانی کی کامیابی کو دائیں بازو کی قومی سیاسی جماعتوں خصوصاً پاکستان مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کی جانب سے شوکت بوسن کو اپنا متحدہ امیدوار ڈکلیئر نہ کرنے کا نتیجہ قرار دیا، چنانچہ انتخابی نتیجے کے بعد بعض دانشور ایک بار پھر پوری شدو مدّ سے پی پی پی کی مخالف جماعتوں کو اکٹھا ہونے کا سرتوڑ مشورہ دے رہے ہیں، بصورت دیگر آئندہ قومی انتخابی معرکے میں پی پی پی پاکستان حتیٰ کہ پنجاب سمیت چاروں صوبوں میں برسر اقتدار آ سکتی ہے۔ عبدالقادر گیلانی کی فتح میں مخالف حریفوں، دانشوروں نے اپنی ذہنی تسلی کے لئے اس پہلو کو بھی خاصا اُجاگر کیا، بلکہ اسے گیلانی خاندان کے سیاسی زوال کی شروعات میں ثابت کیا کہ باپ نے جس حلقے میں اپنے مدمقابل امیدوار کو 38یا31ہزار ووٹوں سے ہرایا تھا، بیٹا وہاں سے صرف چار ہزار ووٹوں سے جیت سکا۔ ”ناکامی کے سو باپ ہوتے ہیں اور کامیابی کا ایک بھی باپ نہیں ہوتا“ کے مصداق ان دلائل نے عوام اور پی پی پی پر کوئی تاثر نہیں چھوڑا۔

پی پی پی نے اپنی کامیابی کو نام لئے بغیر عدلیہ کے فیصلوں کے خلاف عوامی فیصلے کے طور پر اُجاگر کرنے کی مہم چلائی، جس کا اتنا ہی اثر دکھائی دیتا ہے، جتنا اس مہم کا کہ اتنے کم ووٹوں سے عبدالقادر گیلانی کا کامیاب ہونا دراصل گیلانی خاندان کے سیاسی عروج کا خاتمہ سمجھئے، جس کا آئندہ قومی انتخابات میں ثبوت سامنے آ جائے گا۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم ملتان کے حلقہ151 کے ضمنی انتخابات پر گفتگو کے لئے سیاسی اور صحافتی لحاظ سے اپنی اپنی طبائع میں راسخ شرپسندی ،جانبداری اور دشمنی کو تھوڑی دیر کے لئے ایک طرف رکھتے ہوئے اس انتخابی واقعہ کو صرف فکری نقطہ ¿ نظر سے دیکھیں، ایسے لوگوں سے خاص طور پر اظہار برا¿ت اور اظہار بیزاری کو حب الوطنی کا تقاضا سمجھا جائے، جو اس شدید گرمی اور حبس میں منعقدہ انتخابی مقابلے میں ایک لاکھ25ہزار ووٹوں کے ٹرن اوور کو پاکستان کے جمہوری مستقبل، یعنی پاکستان کی بقاءکے لئے نہایت مبارک پیش گوئی سمجھنے کے بجائے مجلسوں میں بیٹھ کر سکینڈوں، منٹوں اور گھنٹوں کے حساب کی روشنی میں حساب لگا کر قوم کو آگاہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ ووٹ کاسٹ کرنے کے قانونی انتخابی دورانئے میں اتنی تعداد میں ووٹ بھگتائے ہی نہیں جا سکتے تھے، لہٰذا یہ الیکشن ڈھونگ اور دھاندلی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ لوگ اپنی ذہنی بیماری اور نظریاتی کثافت کے ہاتھوں فکری معذور ہیں۔ یہ صورت حال اس وقت مزید مجسم سنسنی اختیار کر لیتی ہے، جب خود پرستی میں بے حد بُرے حالوں کو پہنچا ہوا کوئی ”گالڑ“ اور”دعوے باز“ لکھاری ایسے پژمردہ نظریاتی گھوڑوں کو اپنے مزاج کی بے مہار اور کم ظرف خود سری کے چابک سے تیز دوڑانے کی کوشش کرے۔
ہمیں ملتان کا انتخابی مقابلہ افراد، جماعتوں اور پاکستان کے موجودہ سیاسی و نظریاتی کلچر کے درمیان اُبھرنے والی ایک واشگاف حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے دیکھنا اور جانچنا چاہئے۔ یہ بہت ہی دل نشیں اور امید افزا حقیقت ہے، جس نے پاکستان کے عوام میں بھرپور زندگی کی مہر تصدیق ثبت کر دی....کس طرح؟ .... اس طرح کہ پاکستان کا سارا اُردو قومی پریس (انگریزی میڈیا اس میں شامل نہیں) تمام الیکٹرانک چینلوں کے اینکر پرسنز اور مبصر 90فیصد جھوٹ چھاپ، جھوٹ بول اور جھوٹ دکھا رہے ہیں۔ وہ پاکستان کی تقریباً18،19کروڑ کی آبادی میں کروڑوں افراد کو بھوکا سلاتے ہیں ، اُن کے قائم کردہ تاثراتی نقشے کے مطابق کروڑوں لڑکیاں جہیز نہ ہونے کے باعث کنواری بیٹھی رہ جاتی ہیں یا خود کشی کر لیتی ہیں، پوری دُنیا کے غیر مسلم ممالک ”قانون شکن“ جبکہ پوری دُنیا میں آباد پاکستانی ”قانون کی رکھوالی“ اور”قانون پر عمل پیرا“ ہونے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں، پاکستان میں جمہوریت کے نام پر قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے ہزاروں ارکان میں سے اکثر ڈاکو ، لٹیرے اور بددیانت ہیں، پاکستان کی ساری بیورو کریسی سارا دن فارغ بیٹھی ر ہتی ہے، (ریاست کا کام، اخباروں کے ایڈیٹرز، چیف رپورٹرز ، رپورٹر، سب ایڈیٹر اور کالم نگار کرتے ہیں) غرضیکہ پاکستان میں اس وقت بھوک، خود کشیاں، اندھیرا، اندرون ملک قانون شکن عوام، امریکی سامراج کی کار فرمائیاں، ”مجاہدین“ کی عظمتوں کے دشمنوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ سارے اُردو اور الیکٹرانک میڈیا کے تمام مو¿ثر کردار رات تک یہ بین کر کے سوتے ہیں اور سب کے سب کم از کم لاکھ پتی، پُرآسائش رہائش گاہوں اور پُرتعیش طرز زندگی انجوائے کر رہے ہیں۔
چنانچہ جہاں ایسے قوم دشمن، سر تا پا جھوٹ اور مایوسی پھیلانے والے علمبرداروں کا ڈنکا بج رہا ہو، پاکستان کے روشن اور طاقتور چہرے پر پردہ ڈالے رکھنا مستقل پالیسی ہو، وہاں غربت، خود کشیوں، محرومیوں اور موسم کی سختیوں کے باوجود ووٹ کے ذریعے تبدیلی کے حد درجہ ترقی یافتہ نظریئے اور جدوجہد کی کامیابی کے لئے ایک لاکھ25ہزار بالغ مرد اور عورتوں کا اپنا ووٹ استعمال کرنے کا عمل پاکستان کو بالآخر لبرل منزل مقصود کی طرف لے جا سکتا ہے، بشرطیکہ کوئی اس راہ کو کھوٹا نہ کر دے.... خوشگوار حقیقت بس یہی ہے کہ آپ کسی طرح یہ یقین کر لیں کہ میڈیا رتی بھر اس ملک کے معاملات پر اثر انداز نہیں ہوا، نہ ہوسکتا ہے، گڑ بڑ صرف اور صرف ریاست کے حکمرانوں اور اہلکاروں نے کی، بصورت دیگر میڈیا کے پھیلائے ہوئے رجحانات اور کی ہوئی پیش گوئیوں کو تو عوام نے اپنے ووٹ کی طاقت سے ہمیشہ زندہ قبرستانوں میں بدل دیا۔ بُرا سہی بلکہ شیطان کی نانی کہہ لیں، یہ منتخب جمہوری دور بہرطور خوفناک تصادموں، افواہوں، نشیب و فراز، سیاسی جنگوں،عدالتی امتحانوں کی زد میں رہا، دُنیا کا کوئی اقدام، تہمت اور بُرائی ایسی نہیں جسے پاکستانی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے اس جمہوری دور سے وابستہ نہ کیا ہو۔ نتیجہ؟ .... نتیجہ یہ کہ جان لیوا گرمی اور حبس سے منجمد ماحول میں ایک لاکھ24ہزار ووٹروں نے ان کے اس ساڑھے چار سال کے مجہول اور اذیت کوش کلام و عمل کو اپنی یاد داشت سے ہی محو کر دیا۔ بونے اتنے کہ بونے بھی ان پر شرمائیں، عوام کے فیصلے کو ”بے غیرتی“ اور ”جہالت“ تک سے تعبیر کرنے سے باز نہیں آئے؟

ملتان کے انتخابی مقابلے کے درمیان سے اُبھرنے والی اس خوشگوار واشگاف حقیقت کو ہمیں جان کی بازی لگا کر بھی قائم رکھنا چاہئے، یعنی جمہوری تسلسل کے مطابق قومی انتخابات کے آئینی انعقاد کو کسی بھی حوالے سے مو¿خر یا معطل کرنے کے ہر منصوبے کو ناکام بنائے بغیر خود پر دن کا چین اور رات کا آرام حرام کر لیں۔ آپ ابھی اس الیکٹرانک میڈیا کا حال دیکھیں کہ ساڑھے چار سال کے دوران اس نے پاکستان کی قومی سیاسی بنیاد کے بارے میں جو بھی ہلاکت انگیز طوفان برپا کرنا تھا اسے ضربیں دے کر برپا کرتا رہا۔ اب عالم یہ ہے کہ دن رات کے چوبیس گھنٹے کسی سیاسی جنگ،کسی ہولناک معاشرتی واقعے، زیادہ سے زیادہ تعداد میں سرکاری اور غیر سرکاری افراد کے سیکنڈلوں سے لے کر امریکہ، افغانستان، امریکی غلامی کے نعرہ بازوں کی بے پناہ غیر قدرتی لاف و گزاف سے اپنے چینلوں کا وقت پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی سکرینیں اُن تازہ بہ تازہ اور نو بہ نو واقعات سے محروم، بلکہ یتیم ہوتی جا رہی ہیں، جس کے سہارے انہوں نے ساڑھے چار سال میں زندگی کے ہر شعبے کے ہر عنوان کا چہرہ مسخ کر دیا۔ کسی بھی قومی یا ریاستی مسئلے کے اصل اسباب اور اصل حل کی ہوا تک نہیں لگنے دی۔
اُن کا یا اُن جیسے عقل دشمنوں کا خیال ہے کہ پاکستانی عوام قومی سیاست اور سیاست دانوں کو ہمیشہ کے لئے مسترد کر چکے ہیں۔ حلقہ151 نے اُن کے اس خیال کو یقیناً مسترد کر دیا ہے، جیسا کہ عرض کیا، عام قومی انتخابات کا آئینی تقاضوں کے مطابق انعقاد اُن کے اس خبث تکبر کے رخسار پر زناٹے کا یادگار تھپڑ رسید کرے گا۔
 انسانی خون، تباہی کے انسانیت سوز اور المناک حادثات پر پلنے والا یہ پرنٹ خصوصاً الیکٹرانک میڈیا خدا سے اپنے لئے روزی روزگار کی دُعا مانگنا شروع کر دے کہ جمہوریت کا تسلسل اُن کے موضوعات ،جنگلی حیات، صحت عامہ، خواتین کے حقوق، بچوں کی نگہداشت اور مارکیٹوں کے نرخوں سے آگے نہیں جانے دے گا، ہو سکتا ہے یہ لوگ کرائے پر بین کرنے والی عورتوں کی مانند سروں پر ہاتھ رکھ کر لایا اور رویا کریں گے!....اور یہ جو ”ٹیکنو کریٹس“کی حکومت، دوسرے لفظوں میں پاکستان کو ایسے پختہ عقیدہ محب وطن اور نیک لوگوں کے سپرد کر دینا چاہئے، جو تین سال میں اس وطن کی اقتصادیات، خارجہ پالیسی اور داخلی حالات کو وقار وامن کی جنت میں تبدیل کر دیں، گویا دس بارہ یا پندرہ بیس نابغے، 19اور20کروڑ کے ملک جس کا ریاستی ڈھانچہ نہایت مضبوط، قانون شکن اور انا پرست، جس میں جاگیرداری اور سرمایہ داری کا نظام اندرونی اور بیرونی مافیاز کی نگرانی میں کام کر رہا ہے، جس ملک میں سینکڑوں مذہبی تنظیموں نے پاکستان کی ریاست کے نظام اور لبرل معاشرت کے تقاضوں کو بہت بڑے سوالیہ نشان میں بدل دیا ہے،حریت فکر کی نچلی سے نچلی سطح کا اظہار بھی یہاں ممکن نہیں رہا، اُس ملک کو یہ پندرہ بیس نابغے نہ صرف آئینی بلکہ سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے ایک مثالی ملک بنا دیں گے، بس انہیں صرف دو تین سال درکار ہیں۔ اس دوران اُن میں سے ایک آدھ یا دو چار اگلے جہان سدھار جائیں تو اُن کی جگہ دوبارہ بھرتی کر کے اس محیر العقول منصوبے پر پھر وہیں سے کام شروع ہو گا۔ یہ کون لوگ ہیں؟ یہ جو بھی ہیں، چاہے قابلیت کے پہاڑہوں اور ہر لمحے آسمان کو تھلگی لگا سکتے ہوں تاہم اس قبیلے میں ایک قدر مشترک ہے، یہ کہ انہیں کسی نہ کسی سبب سے ”شفاخانہ امراض دماغی“ داخل کرایا جانا لازمی ہے!

حلقہ151میں پاکستانی ووٹ کی سوچ اور عمل میں پاکستان کا مستقبل ہے۔ آﺅ پاکستانیو! اس بار اپنے ووٹ کی پرچی سے ہر قسم کی ”برچھی“ کی نوک بھُربھری کر دیں، بلکہ اُسے دستے ہی سے توڑ پھینکیں!۔

مزید :

کالم -