کاروباری مراکز میں آگ سے بچاو¿ کی حفاظتی تدابیر
آئے دن فیکٹریوں، گوداموں، تجارتی پلازوں اور شاپنگ سنٹر وغیرہ میں آگ لگنے کے حادثات میں لاکھوں، کروڑوں اور اربوں روپے کے نقصانات کے علاوہ لوگوں کے زخمی اور ہلاک ہونے کے افسوسناک واقعات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں، لیکن ایسے حادثات ہمیں دعوت فکر دیتے ہیں کہ ان کے محرکات کیا ہیں اور ان کا سد باب کیسے ہو سکتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک آگ، زلزلے، سونامی اور دیگر ناگہانی آفات سے بچنے اور اپنے معاشرے کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کے لئے نت نئے آلات اور ریسکیو کے حوالے سے جدید طریقہ کار وضع کرتے رہتے ہیں تاکہ شہری اپنی جان و مال کی حفاظت کے ساتھ ساتھ سماجی زندگی سے لُطف اندوز ہو سکیں۔ وہاں کے شہریوں کو بھی آگ سے بچنے اور ریسکیو کی آگہی (Awareness) حاصل کرنے کی جستجو رہتی ہے جو وہاں کا کلچر بنایا گیا ہے۔ پاکستان میں ایسے کلچر کا قحط ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ انسداد حادثات آگ اور ریسکیو کی تربیت اور آگہی سے معمور ذہن ہی ایک پُرامن اور محفوظ معاشرے کی آبیاری کرتا ہے۔ اس امر سے سبھی واقف ہیں۔ پاکستان کی سطح پر مہنگے ترین پلازے جل کر خاکستر ہوجاتے ہیں، لیکن حکومتی اور سماجی سطح پر کوئی انسداد حادثات آگ کے لئے ماسٹر پلان یا موثر حکمت عملی تیار نہیں کی گئی جبکہ پاکستان میں تجارتی مراکز میں آگ لگنے کی اہم ترین وجہ پلازہ انتظامیہ اور کاروبار کرنے والوں میں حادثات آگ کے شعور کا فقدان ہے۔ ہر کاروباری مرکز اپنی ذات میں کاروبار کی ایک دنیا ہوتا ہے۔ وہاں کی انتظامیہ کو بے شمار سیکیورٹی چینلجز کا سامنا ہوتا ہے۔ اگر اُن میں سیکیورٹی کے حوالے سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت نہ ہو تو تجارتی مراکز میں کاروبار کرنے والے تاجر Danger Zone میں کام کر رہے ہوتے ہیں جو آگ لگتی ہے آخر بجھ جاتی ہے، لیکن تباہی کے ایسے اَن مٹ نقوش چھوڑ جاتی ہے، جس کے متاثرین سال ہا سال نقصان کی تلافی نہیں کر پاتے۔ لہٰذا اہم ترین ضرورت اس امر کی ہے کہ تجارتی مراکز میں آگ لگنے کے اجزائے ترکیبی کا تجزیہ کیا جائے کہ آگ کیوں لگتی ہے۔ آگ کیوں پھیلتی ہے اور آگ کنٹرول کرنے میں کون کون سے عوامل رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔
٭میرے نزدیک آگ لگنے کی سب سے بڑی وجہ بجلی ہے، شارٹ سرکٹ کی بدولت اکثرآگ لگ جاتی ہے، ہیٹر کو چلتا ہوا چھوڑنا، بجلی کا لوڈ بڑھنا، تاروں کا کمزور ہونا، استری کا چلتا ہوا چھوڑنا، جنریٹر کی فنی خرابی، دشمنی یا دہشت گردی ایسے محرکات ہیں جو حادثات آگ کا سبب بنتے ہیں۔ یہ تحقیق بھی سامنے آئی ہے کہ بھرپور تجارتی مراکز اور اس کے اندر دکانوں میں تاروں کا ناقص انتظام ہوتا ہے۔ بجلی کے بورڈ پرانے اور خراب حالت میں لگے ہوتے ہیں، کئی جگہوں سے کھلی تاریں لٹک رہی ہوتی ہیں ، جو تھوڑے سے لوڈ سے شارٹ سرکٹ کا باعث بنتی ہیں اور پورا پلازہ آگ کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔
٭ ایسا سامان جس میں کیمیکل کا عنصر ہوتا ہے، مثلاً ناخن پالش، پرفیوم، سگریٹ، لیٹرز، پینٹ، پیٹرو کیمیکل وغیرہ کو دکانوں یا گوداموں میں لوڈ کرنے والے مزدوروں کو اس امر کا ادراک نہیں ہوتا کہ ان اشیاءکو کتنی احتیاط سے رکھنا ہے۔ وہ بے احتیاطی سے زمین پر رکھے ہوئے ہوتے ہیں ، جن کی ٹوٹ پھوٹ سے کیمیکل رستا رہتا ہے جو تھوڑی سی غفلت سے تیزی سے پھیلنے والی بڑی آگ پورے تجارتی سینٹر کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ مالکان کو ایسا سامان اپنی سخت نگرانی میں رکھوانا چاہئے اور اس جگہ جہاں ہوا کا بھی مناسب انتظام ہو۔
٭ اب ہم اس طرف آتے ہیں کہ وہ کون سے اسباب ہیں جس کی وجہ سے آگ پورے تجارتی مرکز میں پھیلتی ہے۔ ابتداءمیں کسی دکان میں معمولی سطح پر آگ لگتی ہے۔ آگ پورے پلازے کو ایک دم اپنی لپیٹ میں نہیں لیتی (ماسوائے دشمنی، دہشت گردی یا انشورنس کے پیسے ہتھیانے کے لئے) اس کے پھیلنے کا عمل آہستہ آہستہ شروع ہوتاہے جو بعد میں بڑھتا چلا جاتا ہے۔ آگ کو ابتدائی سطح پر کنٹرول کیا جائے تو بڑا حادثہ پیش نہیں آسکتا۔
٭بعض کاروباری سنٹر نہایت تنگ جگہوں پر تعمیر کر لئے جاتے ہیں۔ اس پر ستم یہ تاجر اپنی دکانوں کے آگے ریڑھی بان یا اڈے والے کو بیٹھا لیتے ہیں، جس سے وہ جگہ مزید تنگ ہو جاتی ہے، جہاں سے لوگوں کا گزرنا محال ہو۔ وہاں آگ لگنے کی صورت میں فائر بریگیڈ کی گاڑی کیسے گزرے گی۔ ایسی مشکل صورت حال میں آگ کنٹرول ہونے کی بجائے پھیلتی ہے۔
٭جب کوئی تجارتی پلازہ کمپلیکس وغیرہ تعمیر ہوتا ہے تو دیکھنے میں آیا ہے کہ وہاں فائر فائیٹنگ کا سامان و آلات لگائے جاتے ہیں، لیکن وہاں کی انتظامیہ اور تاجران کو اسے استعمال کرنے کی آگہی بھی نہیں ہوتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ھوز پائپ پر مکڑیوں کے جالے لگ جاتے ہیں۔ لال بالٹیوں پر لوگ پان کی پیک تھوک جاتے ہیں اور فائر سلنڈری فِل نہ ہونے کی وجہ سے ناکارہ ہو جاتے ہیں۔ یہ آلات ابتدائی سطح پر آگ بجھانے یا اسے کنٹرول کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہوتے ہیں، ان کو درست رکھنا پلازہ انتظامیہ کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے کیونکہ وہ ہر ماہ وہاں کے تاجران سے مینٹس چارجز بھی وصول کرتے ہیں۔
٭پاکستان میں کسی تجارتی مرکز کا نقشہ بناتے ہوئے فائر بریگیڈ ماہرین کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں پلازہ مالکان کا ذہن مکمل طور پر کمرشل ہوتا ہے۔ جہاں فائر فائٹر نے کھڑے ہو کر آگ بجھانی ہے۔ وہاں بھی وہ دکان ڈالنا چاہتا ہے۔ آگ لگنے کی صورت میں اسے کنٹرول کرنے کو مدنظر رکھ کر تعمیر ن ہیں کی جاتی۔ ایسے تجارتی مراکز میں فائر فائٹرز کو آگ بجھانے میں سخت مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے آگ شدت اختیار کرتی ہے۔
٭.... تجارتی پلازہ میں آگ عام طور پر رات کو لگتی ہے، جس کا مالکوں کو علم نہیں ہوتا۔ بعض جگہ سیکیورٹی کا انتظام نہیں ہوتا اگر ہو تو سیکیورٹی والوں کے پاس مالکوں کا نمبر نہیں ہوتا۔ مالک کو اطلاع ہوتے ہوتے آگ اپنا کام دکھا دیتی ہے۔ اس ضمن میں بہتر ہوگا کہ آگ لگنے کی صورت میں سیکیورٹی والے کو اس امر کی آگہی ہو کہ فوری طور پر پلازے کی انتظامیہ، یونین دکان کے مالک سے رابطہ کرے اور فائر بریگیڈ کو بھی اطلاع کرے۔
یہاں پلازہ مالکان یا انتظامیہ، دکانداروں اور تاجران کی توجہ اس اہم پہلو کی طرف مبذول کروانا چاہوں گا کہ ایک تجارتی مرکز کروڑوں یا اربوں روپے میں تعمیر ہوتا ہے۔ کاروبار شروع ہونے کی صورت میں اس کی مالیت اربوں/ کھربوں میں پہنچ جاتی ہے۔ ایک پلازہ میں چند لاکھ میں فائر فائٹنگ کے آلات لگتے ہیں۔ اگر آلات وغیرہ پہلے سے لگے ہوں تو چند ہزاروں میں چالو حالت میں آسکتے ہیں، لیکن زیادہ تر ایسا نہیں ہوتا۔ ایک دکان خاص طور پر کپڑا، پلاسٹک کا سامان باردانہ، ہارڈویئر، روئی، پولی تھین، جنرل سٹور وغیرہ میں آگ تیزی سے پھیلتی ہے۔ دکاندار چار پانچ ہزار کا فائر سلنڈر لگا لیں تو اپنی دکان کے ساتھ ساتھ پورے پلازے کو حادثہ آگ سے بچا سکتے ہیں۔ یہ یاد رہے کہ پلازہ میں آگ سے جو تباہی ہوتی ہے۔ وہ پہلے کسی دکان میں ہی لگتی ہے جو بعد ازاں تمام پلازوں میں پھیل جاتی ہے، جس سے تاجر برادری معاشی مسائل سے دوچار ہو جاتی ہے۔
یہاں مَیں اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ خاص کر ہمارا چھوٹا تاجر طبقہ ملکی سلامتی کے جذبہ سے سرشار دل رکھتا ہے۔ انکم ٹیکس، جنرل ٹیکس، ایکسائز، سٹی ڈسٹرکٹ کے ٹیکسز اور دیگر واجبات کی ادائیگی میں بھرپور کردار ادا کرتا ہے۔ ایک تجارتی مرکز میں آگ لگنے سے سینکڑوں تاجر اور ہزاروں سیلز مین معاشی بدحالی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان میں ایسے چھوٹے تاجر بھی ہوتے ہیں، جنہوں نے سالہا سال کی اَن تھک محنت سے پیسے جوڑ جوڑ کر تجارتی مرکز میں دکان بنائی ہوتی ہے۔ حادثہ آگ کی صورت میں اس کا سب کچھ لُٹ جاتا ہے۔
مَیں حکومت کی توجہ اس امر کی طرف بھی دلوانا چاہوں گا کہ جہاں تمام تجارتی مرکز اور دکانیں جل کر خاکستر ہو جائیں۔ وہاں حکومت متاثرہ تاجران کی مدد کا پیکج تیار کرے، جس میں مالی معاونت کے علاوہ چھوٹے چھوٹے قرضہ جات بھی دئیے جائیں تاکہ چھوٹا تاجر بھی اپنا کاروبار بحال کر سکے کیونکہ تاجر برادری ہمارے معاشرے میں تپتی صحرا میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے۔ ٭