وطن چمکتے ہوئے کنکروں کا نام نہیں
قومی یکجہتی اور حب الوطنی وقت کے اہم ترین تقاضے ہیں :
وطن چمکتے ہوئے کنکروں کا نام نہیں
یہ تیرے جسم اور روح سے عبارت ہے
قومی یکجہتی اور حب الوطنی وقت کا ایسا جلی عنوان، اُمت مسلمہ کی اہم ترین ضرورت اور ایک ایسا پیغام کہ جب بھی ہم نے اس کو اپنے گلے کا ہار اور جھومر بنایا، محبت و اخوت کی کھیتیاں لہلہا اُٹھیں، کامیابی نے ہمارے قدم چومے ۔ جب بھی ہم نے اس سے انحراف کیا انتشار اور زوال ہمارا مقدر بنا ۔ ناکامیوں نے ہمیں آ گھیرا، اپنی آزادی سے محروم ہوئے اور غلامی نے ہماری ملی حمیت کا جنازہ نکال دیا۔آج اتحاد اُمت اور حب الوطنی ہی ہماری اولین ضرورت اور ہماری قوت و شوکت کا مظہر ہو سکتا ہے۔ چمن میں ہر طرف دشمنوں نے جال بچھا دیا ہے۔ ہماری صفوں میں ملت فروشوں اور مفاد پرستوں کو داخل کر دیا ہے، جو ہمارے اتحاد کو پارہ پارہ کر رہے ہیں اور ہمارے اندر ہی سے ہمارے اتحاد کو تباہ کرنے کے لئے بارود فراہم کیا جا رہا ہے،لیکن کیا ہم اتنے نادان ہو گئے ہیں کہ خود شعلوں کو ہوا دے کر اپنے ہی گلستان کو خاکستر کر دیں۔
بس اللہ اور رسول ؐ کے نام پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں، کیا اس کا کوئی شائبہ بھی اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات میں ملتا ہے؟ اگر سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت بالکل ہی مفقود نہیں ہو گئی تو سنو کہ ہم سب کا اور کائنات کا رب ہم سے کیا کہتا ہے ۔ارشاد خداوندی ہے ’’اور یہ تمہاری اُمت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں پس مجھ ہی سے ڈرو‘‘۔ ایک دوسری جگہ فرمایا ۔’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو ‘‘۔
آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اسطرح گروہوں اور فرقوں میں بٹ گئے ہیں کہ حق کو صرف اور صرف اپنے اپنے گروہ تک محدود کر لیا اور ہم ایک مفروضہ کی حد تک بھی یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اور ہر بات میں ایک دوسرے سے اختلافات کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ہمارے اسی طرز عمل نے امت میں فساد کو جنم دیا ہے اور اب یہ فساد اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ مساجد اور عبادت گاہیں بھی محفوظ نہیں رہی ہیں، بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ یہی اب ہماری قتل و غارت گری کا اصل نشانہ ہیں۔ عبادت گاہیں مقتل بنتی جا رہی ہیں ۔آئے دن ان پر حملے ہو رہے ہیں ۔معصوم اور بے خطا لوگوں کی جانوں کا اتلاف ہو رہا ہے ۔خاندان اجڑ رہے ہیں ، خواتین بیوہ اور بہنیں سہاگ سے محروم ہو رہی ہیں ۔بوڑھے والدین کے سہاروں کی چھینا جا رہا ہے، مگر افسوس کہ مُلک و ملت کی اصلاح کے دعویدار خاموش ہیں۔ سیاست دان اپنی مصلحتوں میں گم ہیں اور حکومت اپنے نشہ اقتدار میں مست ، نوبت اب یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ قوم سے احساس زیاں بھی جاتا رہا ہے، حادثات کا ایک طوفان ہمارے سروں سے گزر جاتا ہے اور ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ کیا متاع عزیز نذر طوفان کر چکے ہیں :
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پہ آسماں نے ہم کو دے مارا