فخرا لمشائخ حضرت میاں جمیل ا حمد شرقپوریؒ
صاحبزادہ میاں جلیل احمد شر قپوری
بان�ئ تحر یک یوم مجدد الف ثانی مظہر فیض شیر ربانی ؒ حضرت میاں جمیل احمد شرقپوری نقشبندی مجددی ؒ سجادہ نشین آ ستا نہ عالیہ شیر ربانی ؒ 11ستمبر 2013ء بمطابق 4ذیقعد1434ہجری بوقت نماز عصر اس جہان فانی سے مالک حقیقی کی طرف دائمی حیات کی وادی میں اُتر گئے۔ آپؒ کی پوری زندگی آستانہ عالیہ شر قپور شریف کی خدمت اور تبلیغ اسلام میں صرف ہوئی۔ آپ ؒ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی ؒ سے و الہانہ عقیدت ومحبت رکھتے تھے اور تعلیمات امام ربانی مجددالف ثانی ؒ کو عام کرنے میں پو رے ملک کے اندر قریہ قریہ ،گاؤں گاؤں یوم مجدد الف ثانی ؒ منانے کی تحریک شروع کی اور بیرون ممالک بھی آپؒ نے اس تحریک کو عام کیا ۔
شہنشاہ و لایت حضرت شیر ربانی میاں شیر محمد شر قپوری نقشبندی مجددی ؒ کی پوری زندگی ترویج سنت ، تبلغ اسلام اور تحفظ سنت رسولﷺ پر صرف ہوئی ۔آپؒ ساری زندگی میں آقائے دو جہاں ﷺ کی ہر سنت مبارکہ پر عمل پیرا ہوئے اور ہر کام کرنے میں اتباع سنت کو ملحو ظ خا طر رکھتے اور اکثر مسلمانوں کو اس بات پر تنبیہ بھی فر ماتے ۔ آپؒ اپنے ہر ملنے والے کو سنت کے مطابق ڈارھی مبارک رکھنے اور سنت کے مطابق سادہ لباس پہننے کی تلقین فرماتے۔ اعلیٰ حضرت شر قپوری ؒ کی انقلابی اور مجددانہ کا وشوں کو زندہ و تا بندہ رکھنے کے لئے اور دُنیا جہان میں تعلیمات شیر ربانی ؒ کو عام کر نے کے لئے آپؒ نے اپنے دن رات وقف کر رکھے تھے اور آپؒ کی تعلیمات کو عام کر نے کے ساتھ ساتھ آپؒ کے دست مبارک سے لکھے ہوئے نہایت خوبصورت اور دلکش انداز میں لفظ ’’اللہ ھو‘‘ کے قطعہ کو آپ ؒ نے عام کیا اسے لاکھوں کی تعداد میں چھپوا کر تقسیم فرماتے رہے۔
آپؒ اپنی ذاتی زندگی نہایت سادہ اور بے تکلفانہ انداز میں رکھتے اور ہر چیز سے زیادہ مقدم اپنے مشن کو سمجھتے، جس انداز میں آپ ؒ نے تعلیماتِ حضرت مجدد الف ثانی ؒ کو عام کیا اور اتباع سنت کی تر ویج کے لئے جس طرح انتھک محنت اور کو شش فرمائی اس پر اکثر علماء مشا ئخ اس بات کے معترف رہے کہ آپ ؒ کی اس دوڑ کو ہم نہیں پہنچ سکتے۔ اس لئے آپؒ کو ہمیشہ فخر المشائخ کے لقب سے یاد کیا گیا۔
آپؒ کی وفات کی اچا نک خبر ملک بھر میں عقید ت مندوں اور مر یدوں کے لئے درد ناک تھی اور ہر مکتبہ فکر کے لوگ پر یشان نظر آئے۔ آپؒ کی روح اس جہانِ فانی سے اس با وقار انداز سے پر واز کر گئی کہ ہر دیکھنے والے کے لئے ایسی موت حسرت بن گئی۔ آپؒ کے چہرہ مبارک پر ایک پُرسکون مسکراہٹ تھی جو آپؒ کی زندگی میں بھی نظر نہ آئی۔ پھر ہر زیارت کرنے والے نے یہ حسین تبسم اپنی یادوں میں محفو ظ کر لیا۔
آپؒ عقائد کے معاملے میں نہایت سخت اور حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے عقیدہ کے عین مطابق تمام عقائد رکھتے تھے مگر آپؒ کے پیار اور محبت کی بنا پرہر مکتبہ فکر کے لوگ آپ ؒ کا ا حترام کرتے۔ آج بھی شرقپور شریف کے پو رے علاقے سے ایک بھی فرد ایسا نہیں مل سکتا جو حضرت میاں جمیل احمدشر قپوری کا نام ا حترام سے نہ لیتا ہو یا آپؒ کا کوئی گلہ کرتا ہو ۔
آپؒ کی نماز جنازہ میں حد نگاہ تک لوگوں کے سر ہی سر نظر آ رہے تھے ۔گا ڑ یوں کی قطاریں تین چار میل تک لگ گئیں اور لوگ پیدل چل کر جنازہ میں شریک ہوئے، مختلف جرائد کے اندازے کے مطابق تین لاکھ سے زیادہ افراد نے نماز جنازہ میں شر کت کی ۔
آپ کی ساری زندگی سراپا کرامات رہی، لیکن آپ کی بات چیت سے اور آپ کے اندازِ بیان میں ہمیشہ یہ کوشش غالب رہی کے کسی قسم کی مافوق الفطرت یا کشف و کرامات کا اظہار نہ ہو۔ ہر بات کو رازداری اور پردے میں رکھنا آپ ہی کا ایک خاصا تھا۔ اسی طرح آپ کے جانشین اور سجادہ نشین حضرت ثانی لاثانی میاں غلام اللہ شرقپوری نقشبندی مجددی ؒ بھی سادگی اور اپنے آپ کو چھپانے کیانداز میں معاملات چلاتے، لیکن اس کے باوجود بے شمار کرامات آپ سرزد ہوتیں اور پھر آپ کے صاحبزادے اور سجادہ نشین حضرت میاں جمیل احمدشرقپوری نقشبندی مجددی ؒ اس انداز و حکمت کا ولولہ رہا کبھی کرامات دکھانے کا اظہار نہ فرمایا اور ہر بات کو نہایت سادگی اور رازداری کے انداز میں بیان فرماتے اور کسی سے اپنی تعریف یا کرامت سننا پسند نہ فرماتے۔ اس کے باوجود آپ کی بے شمار کرامات کا اظہار گاہے بگاہے ہوتا رہا، لیکن آپ کا اپنا اندازِ تکلم سادگی اور اخفاوالا ہی ہوتا تھا۔ آپ کے بارے میں جو بے شمار کرامات آپ کی ظاہری زندگی میں ہی دوستوں سے سننے میں ملتی رہی ان اکا احاطہ کرنا کسی ایک مضمون میں ممکن نہیں۔
فیصل آباد کے میاں محمد انور سعید مرحوم جن کے ساتھ میرا ذاتی کاروباری تعلق بھی رہا اکثر یہ بات سنایا کرتے کہ میں تبلیغی جماعت والوں کے ساتھ تبلیغی چِلوں میں جایا کرتا تھا اور اِس صحبت کی بنا پر پیروں، فقیروں سے دور رہنے کا رحجان تھا۔ ایک دفعہ حضرت میاں جمیل احمد شرقپوری نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ فیصل آباد تشریف لائے ہوئے تھے۔ انور سعید صاحب بھی یونہی سن سنا کر ملنے چلے گئے پہلی ملاقات میں ایسی محبت پیدا ہوئی کے دست بیعت ہو گئے اور مرید ہونے کے بعد اپنے گھر کھانے کی دعوت دے دی جس پر میاں جمیل احمد شرقپوری نقشبندی مجددیؒ صاحب نے وعدہ فرما لیا۔انور سعید صاحب مرحوم بیان کرتے تھے کہ میرے دل میں خیال آیا کہ جب آپ آئیں گے تو آپ کے ساتھ چار آدمی بھی آئیں گے تو میں نے چار ، پانچ آدمیوں کے کھانے کا بندوبست کر لیا۔ مگر جب آپ آئے آپ کے ساتھ تین، چار گاڑیوں میں 15، 20 آدمی آپ کے ہمراہ تھے جس پر میں بے حد پریشان ہوا اور پیروں کے خلاف جو باتیں سنیں ہوئیں تھیں میرے دل و دماغ میں گھومنے لگیں کہ یہ اپنے ساتھ اپنے مریدوں کی بارات لے آئے ہیں اب اِسی تذب زب اور پریشانی میں اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھنے کی دعوت دی آپ اندر تشریف فرما ہوگئے اور میں نے اندر جا کر اپنی بیوی کو بتایا کہ پیر صاحب تو 15، 20 آدمی ساتھ لے آئے ہیں تو کھانا کیسے پورا آئے گا اس نے کہا کہ چلو کوئی بات نہیں کچھ بازار جا کے لے آئیں ابھی میں سوچ میں تھا کہ اندر سے میاں صاحب کی آواز آئی کہ انور سعید جلدی کرو جو کھلانا ہے جلدی کھلا دو ہم نے کہیں اور بھی جانا ہے آواز سُن کر میں اندر آیا اور کہا حضور تھوڑی دیر لگ جائے گی تو انہوں نے فرمایا جو ہے وہ ہی لے آؤ ہمارے پاس اتنا ٹائم نہیں ہے کوئی تکلف کی ضرورت نہیں آپ کی جلدی سے میں سخت پریشان ہوا اور تذب زب کچھ نہیں سوجا اور بیگم کو کہا جو ہے جلدی سے دے دو جب پیر صاحب کو جلدی ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں میں نے سالن کی پتیلی اور چنگیر جس میں تقریباً 10 عدد روٹیاں تھیں لاکر سامنے پیش کر دیں گھر سے استعمال کی 8 یا 10 پلیٹیں بھی پیش کر دیں جو کہ حاضرین کی تعداد سے کم تھیں تو آپ نے کہا کوئی پیالیاں ویالیاں ہیں تو وہ بھی لے آؤ۔ میں اندر سے 8، 10 پیالیاں بھی لے آیا اور وہ بھی لا کر سامنے رکھ دیں۔ اب میرے دل میں تھا کہ گھر میں جو ہے میں نے پیش کر دیا ہے اب پیر صاحب جانیں اور اُن کے مرید جانیں تو میرے سامنے پیر صاحب نے خود بڑے چمچ کے ساتھ سالن نکال کر سب پلیٹوں میں ڈالنا شروع کیا اور دو، دو روٹیاں ہر ایک کو پکڑاتے چلے گئے۔ ساری پلیٹوں میں ٹھوڑا تھوڑا سالن ڈال کر ہر ایک کے آگے بھیجتے گئے اور میں حیران ہو اکہ یہ کیسے پورا ہو گیا ہے لیکن جب آپ ہاتھ دھو کر دُعا مانگ کر واپس تشریف لے گئے اور ہم نے برتن اکھٹے کئے تو ہانڈی کے اندر سالن بھی اتنا ہی موجود تھا اور 8، 10 روٹیاں بھی جو میری بیگم نے پکائیں تھیں رومال کے اندر ویسے ہی موجود تھیں۔ یہ دیکھتے ہی میں نے اپنے دل کے خیال پر توبہ کی اور اس دن سے لے کر آج تک کبھی بھی آپ کی ذات کے بارے میں کوئی ادنیٰ خیال بھی مجھے گمراہ نہیں کر سکا۔اس کے علاوہ انور سعید صاحب اپنے مشاہدے اور تجربے میں آنے والی بے شمار باتیں اور کرامات سُناتے رہتے ہیں اور پیر و مرشد حضرت میاں جمیل احمد شرقپوری نقشبندی مجددیؒ کے وصال کے تقریباً ایک سال بعد دنیا سے کوچ کر گئے اور ان کی قبر بھی شرقپور شریف کے قبرستان میں موجود ہے۔
ایک دفعہ آپ چکوال کے تبلیغ کے دورہ پر تھے جس میں بابا حیات کے علاوہ مانووالہ سے آپ کا خادم ملک بلو، موہلنوال سے محمد اشفاق پٹواری اور کئی دیگر لوگ تقریباً تین گاڑیاں پر آپ کے ہمراہ تھے۔ ایک مقام پر پہاڑی علاقے میں ایک گاڑی میں تیل ختم ہو گیا اور وہ رُک گئی معلوم ہوا کہ وہ پٹرول نہ ہونے کی وجہ سے رُک گئی ہے آپ نے فرمایا کوشش کرو کہ تھوڑی بہت چلتی رہے اور پٹرول پمپ تک چلی جائے اور جہاں پٹرول پمپ آئے پٹرول ڈلوا لینا تو گاڑی سٹارٹ کرنے پر چلنے لگی 2 یا 3 کلو میٹر دور جا کر دوسری گاڑی بھی رُک گئی جس پر آپ ڈرائیوروں سے سخت ناراض ہوئے کہ آپ نے تیل کا خیال کیوں نہیں رکھا لیکن سب اپنی نالائقی کی وجہ بتانے سے قاصر رہے، جھجک میں تکلف میں اور اِس آس میں کہ چلو آگئے کوئی پمپ آئے گا تو ڈلوا لیں گے سب لاپرواہ رہے آپ نے تیل خالی ہونے والی دونوں گاڑیوں کو اپنی گاڑی سے آگے لگوا لیا اور اپنی گاڑی اُن کے پیچھے دیھان رکھنے کے لئے رکھی اور فرمایا کہ اب آہستہ آہستہ چلتے جاؤ۔ رات کا وقت تھا اور اُس ویران سڑک پر کوئی رہنما ئی کرنے والا بندہ بھی نظر نہیں آتا تھا۔ سب گاڑیاں چلتی گئیں اور تھوڑی دور جا کر تیسری گاڑی جس میں آپ خود تشریف فرما تھے وہ بھی رُک گئی اور آپ سخت پریشان ہوئے اور تھوڑی دیر بعد فرمایا کہ بسمہ اللہ پڑھ کے دوبارہ سٹارٹ کرو تو وہ سٹارٹ ہو گئی اور فرمایا اب آہستہ آہستہ چلاتے جاؤ اس بات کے سب ہمسفر گواہ ہیں کہ تینوں گاڑیوں نے 15 ، 20 کلو میٹر تک خالی ٹینکیوں کے ساتھ فاصلہ طے کیا پھر ایک دیہاتی پٹرول پمپ نظر آیا جہاں پر ایک آدمی چارپائی پر سویا ہوا تھا اُسے جگایا اور پٹرول حاصل کیاپھر آگے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوگئے اس طرح آپ کی ظاہری حیات میں بے شمار کرامات دیکھنے کو ملیں۔ لیکن آپ کی پوری کوشش یہی ہوتی کہ کسی طرح بھی ایسی کسی بات کا اظہار نہ ہو سکے۔ بالکل سادہ انداز میں بات کرتے، خلاف شریعت اور خلاف سنت بات دیکھ کر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کرتے۔کشف و کرامات بزرگوں کی بیان فرماتے ہیں لیکن خود اپنے بارے میں کسی کو بات کا اظہار نہ کرنے دیتے۔
میرے ایک دوست جنہیں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کئی بار آقا دو جہاںؐ کا دیدار ہوا اور انہوں نے ایک دفعہ حضور والد گرامی حضرت میاں جمیل احمد صاحب شرقپوری نقشبندی مجددیؒ سے دریافت کیا کہ حضرت اگر کسی کو نبی کریمؐ کی زیارت نصیب ہو تو کیا دوستوں کو بتانا چاہئے تو آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ شہد جو کھاتا ہے میٹھا اُسی کو لگتا ہے دوسرے کو اگر بتائے جس نے نہیں کھایا تو اُس کو کیا فائدہ ہو گا۔
اِسی طرح کسی نے ایک بار پوچھا کشف قبور کا وظیفہ کر لینا چاہئے تو آپ نے فرمایا کہ اگر تمہیں قبر کہ اندر دیکھنے کا کشف ہو جائے اور تمہیں نظر آئے کہ اُس قبر کے اندر حالت ٹھیک نہیں تو کیا تم اُس کی حالت ٹھیک کر لو گے وہ خاموش ہو گیا۔ ظاہر ہے وہ اِس بات کی طاقت اور قدرت نہیں رکھتا تھا تو آپ نے ناراضگی کے انداز میں فرمایا جب کسی کا بھلا نہیں کر سکتے تو اُس کا پردہ اُتارنے کا کیا فائدہ؟
ان چند باتوں سے آپ کے رحجان طبع کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہر چیز میں پردہ اور ہر چیز میں اخفاپر اِس قدر آپ کی مضبوط گرپ تھی کہ کبھی آپ نے کمالات کو عام طور پر ظاہر نہ ہونے دیا۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی رہی
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا