تعلیمی نفسیات اور طالب علم
فواد ارشد اعوان
ہمارے نظامِ تعلیم کی خرابی اورنا خواندگی کی شرح میں اضافے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ تعلیمی نفسیات اور نفسیاتِ اطفال میں بے پناہ ترقی کے باوجود ہمارے ننانوے فیصد تعلیمی ادارے تعلیمی میدان میں انقلابی تبدیلیوں سے بے بہرہ ہیں ۔
چونکہ نظامِ تعلیم میں طالبعلم کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اس لئے طالبعلم کی نفسیات اور فطری تقاضوں کو مدِ نظر رکھنا بے حد ضروی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی عمل ان تقاضوں کے سراسر خلاف ہے جس وجہ سے تعلیمی پسماندگی ہمارا مقدر ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ہم کسی بھی فعل کی طرف اس وقت تک راغب نہیں ہو سکتے جب تک کوئی محرک کارفرما نہ ہو ، اور مختلف چیزوں یا رویوں کی جانب ہمارا ردِ عمل بھی مختلف ہوتا ہے( کبھی شدید کبھی دھیما) جس کا دارومدار محرکات کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے ۔ کوئی محرک جس قدر شدید ہوگا اس پر انسانی ردِعمل بھی اسی قدر شدید ہوگا اس کے برعکس اگر محرک دھیما اور سست ہوگا ردِعمل بھی اسی طرح دھیما اور سست ہوگا ۔
محرک کیا ہے؟ سادہ لفظوں میں یہ کہ جب بھی ہم کوئی کام کرتے ہیں تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے کبھی ہم اس وجہ سے واقف ہوتے ہیں تو کبھی انجان ۔ دراصل یہ وجہ محرک کہلاتی ہے ۔کسی ذہنی، جسمانی یا معاشرتی فعل پر اکسانے والی ایک ایسی قوت جو ہماری ضروریات، خواہشات اور مقاصد کا تعین کرتی ہے۔
ٓٓ مثال کے طور پر آپ جوتے خریدنے کے لئے بازار کا رخ کرتے ہیں جوتوں کی ضرورت بازار جانے کا محرک بنی، آ پ نے کسی دکان کا انتخاب کیا ضرور اس کے پیچھے بھی مختلف محرکات ہوسکتے ہیں مثلاً اس دکان پہ لگا خوبصورت سا بورڈ ، اس دکان یا برینڈ کے متعلق بار بار دیکھے گئے اشتہارات یا ایسا کچھ بھی جس کا تعلق اگر آپ کے شعور سے نہ بھی ہو تو لا شعور سے ضرور ہوتا ہے ۔ کسی بڑے شہر میں ایک آدمی دن میں اوسطاً پانچ ہزار سے زائد اشتہارات دیکھتا ہے جن کو اسکا شعور نظر انداز کردیتا ہے لیکن لا شعور محفوظ کرلیتا ہے اور جب ہم کوئی چیز خریدنے جاتے ہیں تو ہمارا لاشعور اس چیز کی طرف زیادہ جھکاؤ دکھاتا ہے اور ہم وہی شے خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اگر میڈیا ، میگاکارپوریشنز اور برینڈز مختلف محرکات کو استعمال کرتے ہوئے انسانی دماغ کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں تو والدین اور اساتذہ بچوں کی تربیت اورتعلیم میں مثبت محرکات کا استعمال کیوں نہیں ؟ تعلیمی عمل میں استعمال ہونے والے بنیادی محرکات ان کی اہمیت اور افادیت درج ذیل ہے۔
انعام:
انعام ایک موثر محرک ہے جس کا بخوبی اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اچھے اعمال کرنے پر بے شمار انعامات عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے اور ان انعامات کی جس قدر تفصیل قران پاک میں بیان کی گئی ہے اس سے بھی ہم اس محرک یعنی انعام کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔
ابتدائی تعلیم میں انعامات بچوں کے لئے مالی منفعت کا باعث بنتے ہیں بعد ازاں بچے شہرت اور ناموری کی خاطر محنت کرتے ہیں جو انعامات سے وابستہ ہوتی ہے ۔ ایسی تقویت اور حوصلہ افزائی سے بچے خوش ہوتے ہیں اور فرمانبردار بنتے ہیں۔ان میں مثبت سوچ پیدا ہوتی ہے کہ وہ اچھے ہیں اور اچھے کام کرسکتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اچھے کام کی نسبت برے کام کو زیادہ توجہ دی جاتی ہے جس سے منفی سوچیں پروان چڑھتی ہیں ۔اس کے برعکس اگر ہم اچھے اگرچہ معمولی اور چھوٹے چھوٹے کاموں پر بچوں کی حوصلہ افزائی کریں تو خاطر خواہ نتائج پا سکتے ہیں ۔
سزا:
سز ا ایک منفی محرک ہے یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ سزا کا مقصد صرف اور صرف بچے کی اصلاح کرنا ہے اور سزا سے مراد ہرگز یہ نہیں کہ گھنٹوں دھوپ میں کان پکڑوائے جائیں، ڈنڈوں کابے دریغ استعمال کیا جائے ۔بد قسمتی سے ہمارے ہاں سزا سے صرف مار پیٹ مراد لی جاتی ہے، حالانکہ اگر دیکھا جائے تو انعام کا نہ ملنا استاد کے چہرے پر مایوسی کے اثرات اور پسندیدہ کام کرنے کی اجازت نہ ملنا بھی سزا ہے ۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے ہاں سزا کا معیار اس قدر بڑھ چکا ہے کہ استاد اور شاگرد میں دشمنی کا گماں ہوتا ہے اور اساتذہ جنہیں اچھا پڑھانے کی وجہ سے نامور ہونا چاہیئے تھا وہ ڈنڈے کی زیادتیِ استعمال کے باعث نہ صرف یہ کہ مشہور ہوتے ہیں بلکہ فخر بھی محسوس کرتے ہیں ۔
سزا کے منفی اثرات:
سزا بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشونما میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔
بعض حالات میں بچوں کی عزتِ نفس اس قدر مجروح ہوتی ہے کہ وہ احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس سے بے شمار مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔
مسلسل سزا سے بچوں میں سزا کا خوف نہیں رہتا اور بچے تعلیم سے باغی ہو جاتے ہیں جس سے ان میں مجرمانہ رجحانات جنم پاتے ہیں ۔
سزا کا بکثرت اور بے دریغ استعمال معاشرتی پسماندگی کی علامت ہے ایسے ماحول میں پرورش پانے والے بچے معاشرتی ترقی میں مثبت کردار ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں ۔
مسلسل طعن تشنیع بچوں میں مریضانہ احساسات پیدا کرتی ہے جس سے وہ اضطراب اور جذباتی کھچاؤ میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ان میں قوتِ ارادی ، قیادت اور سوچنے سمجھنے کی روح ختم ہوجاتی ہے ۔
سزا سے بچے شدت پسند بنتے ہیں ان میں بہت سی اخلاقی برائیاں جنم لیتی ہیں۔
سزا کے اصول :
سزا ایک منفی محرک ہے اس کے استعمال سے حتی الوسع پرہیز کرنا چاہئے۔ بچوں کو سزا کی عادت نہ ڈالیں ۔
سزاکا مقصد بچے کی تذلیل نہ ہو سزا ہمیشہ اصلاح کی غرض سے دی جائے ۔
سزا دیتے ہوئے بچے کی عمر اور نفسیات کو مدِ نظر رکھیں۔
سزا کم سے کم دیں مسلسل سزا سے بچے سزا کے عادی ہو جاتے ہیں جس سے سزا مؤثر نہیں رہتی ،صرف سزا سے پرہیز کریں بلکہ جزا اور سزا دونوں کا مناسب استعمال کریں ۔ سزا اور جزا کا امتزاج بہترین محرک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی اہمیت اور اثر میں بھی اضافے کا باعث بنتا ہے۔
مقابلہ :
مقابلہ ایک کا رآمد محرک ہے جو بچوں کی رفتار بڑھانے کا بہترین ذریعہ ہے ۔اس سے بچوں کی صلاحیتوں کو ٖفروغ ملتا ہے اور کام کرنے کا اجتماعی احساس بیدار ہوتا ہے۔ صبر ،حوصلہ ،ہمت اور محنت کا جذبہ پروان چڑھتا ہے لیکن اگر اس میں احتیاط نہ برتی جائے تو منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں سکولوں میں مقابلے ایسے حالات میں کروائے جاتے ہیں کہ کامیابی ایک محدود تعداد کے حصے میں آ تی ہے، جبکہ باقی ماندہ طلبا محرومی کا شکار ہوتے ہیں جس سے بچوں میں رقابت جیسے منفی جذبات ابھرتے ہیں ۔اساتذہ کو مقابلے سے پہلے مقابلے کی تربیت دینی چاہئے۔ مقابلے کے لئے مثبت فضا قائم ہومقابلہ صرف کتابیں رٹنے کا نہ ہو بلکہ مختلف قسم کی سرگرمیاں موجود ہوں جو تمام طلبا کے لئے تسکین کا سامان مہیا کرسکیں ۔
استاد کی شخصیت :
استاد کی شخصیت ایک ایسا محرک ہے جو دوسرے تمام محرکات کو کارآمد بناتا ہے ۔ محرکات کا انتخاب اور مناسب استعمال استاد کی قابلیت پر منحصر ہے۔استاد کا اپنا رویہ اور جوش و جذبہ بچوں کے لئے بہترین محرک ثابت ہوتا ہے ۔
استاد اگر سکول میں خوشگوار فضا قائم کرتا ہے تو تعلیم سے متعلق بچوں کے اندر محرکات کی مثبت انداز میں نشونما ہوتی ہے ۔
استاد طلبا میں تعلیم کا رجحان اور دلچسپی پیداکرنے کے لئے مختلف مشاغل اور سرگرمیوں کا اہتمام کرتا ہے جس سے طلبا میں علم حاصل کرنے اور آگے بڑھنے کی تحریک پیدا ہوتی ہے ۔
طلبا کی ذہنی قابلیت اور صلاحیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے طلبا کو روشن مستقبل کے لئے تیار کرتا ہے ان کی زندگی کا مقصد واضح کرنے میں انکی مدد کرتا ہے جس سے مختلف مقاصد بطور محرک تعلیمی میدان میں طلبا کی معاونت کرتے ہیں۔
کمرہ جماعت میں ایک ایسا معاشرتی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے جس سے طلبا کو انفرادی اہمیت کا احساس ہوتا ہے ۔ محرکات کا استعمال صرف کمرہ جماعت میں تعریف باتضحیک تک محدود نہیں ہے اسے زندگی کے ہر پہلو میں مثبت انداز میں استعمال کر کے بچوں میں ولولہ اور زندگی میں امنگ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اِسی صورت میں ہم آنے والی نسلوں سے روشن مستقبل کی امیدیں وابستہ کر سکتے ہیں۔ بچوں کی تربیت کے حوالے سے ہم آج ’’جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے‘‘ ہمارے آج بچوں کے ساتھ پیش آنے والے مثبت رویئے ان کی شخصیت کا حصہ بنیں گے، جن کا اظہار ان کی شخصیت سے ہو گا۔ محرکات کی اہمیت اس بات سے بھی واضح ہوتی ہے کہ گاؤں میں رہنے والے لوگوں کی نسبت شہروں میں رہنے والوں کے لئے ترقی کے زیادہ مواقع ہوتے ہیں، کیونکہ شہروں میں بے شمار محرکات لوگوں کو ترقی کرنے اور آگے بڑھنے پر اکساتے ہیں۔ ہمیں ترقی کے زینے طے کرنے کے لئے مثبت محرکات کے استعمال کو فروغ دینا ہو گا اور منفی محرکات کے استعمال سے خود کو بچانا ہو گا۔
***