پنجاب حکومت کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل امتیاز کیفی کی ممکنہ برطرفی کیخلاف دائر درخواست واپس لینے کی بنا پر مسترد
لاہور(نامہ نگارخصوصی)لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں قائم دو رکنی بنچ نے پنجاب حکومت کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل امتیاز کیفی کی ممکنہ برطرفی کے خلاف دائر درخواست واپس لینے کی بنا پر مسترد کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل آفس میں لاء افسروں کے حوالے سے شرائط ملازمت کا کوئی قاعدہ ،ضابطہ یا قانون موجود نہیں ہے اس بنا پر ممکنہ برطرفی کے خلاف ہائیکورٹ سے رجوع نہیں کیا جا سکتا،فاضل بنچ نے سرکاری وکیل کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے مزید قرار دیا ہے کہ حکومت سمیت کسی بھی فرد کو اپنی مرضی کے وکیل کی خدمات حاصل کرنے کا حق حاصل ہے ۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امتیاز کیفی نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ وزیر اعلیٰ شہبازشریف ایڈووکیٹ جنرل آفس میں پسند نا پسند کی بنیاد پر لاء افسروں کی بھرتیاں اور برطرفیاں کرنے جا رہے ہیں، خدشہ ہے کہ وزیر اعلیٰ درخواست گزار کو بھی نااہلی کا جواز بنا کر برطرف کر دیں گے ،پنجاب حکومت کو درخواست گزار کی ممکنہ برطرفی سے روکنے کا حکم دیا جائے، سیکرٹری محکمہ قانون اور پنجاب حکومت کی طرف سے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل انوار حسین نے موقف اختیار کیا کہ عام شہری کی طرح حکومت کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کے وکیل کی خدمات حاصل کر سکے، لاء افسروں کی بھرتیاں یا برطرفیاں کرنا وزیر اعلیٰ پنجاب کا صوابدیدی اختیار ہے، صوبے کا سربراہ ہونے کی وجہ سے آئین اور قانون وزیر اعلیٰ پنجاب کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ ایڈووکیٹ جنرل آفس میں قابل وکلاء کو بطور لاء افسر تعینات کریں اور نااہل افسروں کو برطرف کر دیں، اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل انوار حسین نے استدعا کی کہ اس درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کیا جائے، فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ایڈووکیٹ جنرل آفس میں لاء افسروں کی بھرتیوں کے کوئی قواعد وضوابط یا قانون نہیں ہے، لاء افسروں کی بھرتیوں اور برطرفیوں کے خلاف ہائیکورٹ سے رجوع نہیں کیا جا سکتا ، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل امتیاز کیفی نے استدعا کی کہ انہیں درخواست واپس لینے کی اجازت دی جائے، عدالت نے استدعا منظور کرتے ہوئے پنجاب حکومت کے سرکاری وکیل کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر مسترد کر دی۔