عدم استحکام۔ بے چینی! خطرے کی گھنٹی؟

عدم استحکام۔ بے چینی! خطرے کی گھنٹی؟
 عدم استحکام۔ بے چینی! خطرے کی گھنٹی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

زندہ دِلوں کا شہر ثقافتی مرکز، داتا کی نگری اور میرا شہر لاہور اپنی صفات کے باعث مشہور تھا اور ہے۔ اس داتا کی نگری کے بارے میں کہا گیا کہ یہاں کوئی بھوکا نہیں سوتا کوئی مسافر بھی بھٹک جائے تو اسے علی ہجویریؒ کے لنگر سے کھانا اور پناہ بھی مل جاتی ہے۔ اس شہر کی اپنی روایات ہیں تو اس نے بڑی بڑی شخصیات بھی پیدا کیں، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس مادرِ علمی نے بہت بڑے بڑے نام اُجاگر کئے کہ یہ تعلیمی گہوارہ بھی تھا۔ اسلامیہ کالج اور پنجاب یونیورسٹی کے اولڈ بوائیز میں علامہ اقبالؒ اور فیض احمد فیض جیسے نام بھی ہیں، یہیں عبدالحفیظ کاردار، فضل محمود اور محمود حسین بھی تھے۔

یہ روایات کا شہر ہے۔ اس کی موجودہ ہیئت جدت اور دورِ جدید نے بنائی ہے ورنہ یہ تو باغات کا شہر تھا، جن کے گھنے سایہ کے نیچے جون، جولائی کی گرمی بھی دم توڑ جاتی تھی اس شہر نے بڑی بڑی ہستیاں پیدا کیں اور ایسے لوگوں میں بعض نام باغ و بہار شخصیات کے بھی ہیں۔ یہ بھی ایک سے بڑھ کر ایک تھے لیکن آج ہمیں مقصود صرف فرد واحد کا ہے، جو ہمیں بہت یاد آگئے یہ اتفاق ہے کہ ہمارے جوانی کے دور میں یہاں ایک ہی نام کے دو معتبر شخص گزرے اور دونوں نہ صرف شمالاً جنوباً(رہائش کے اعتبار سے) تھے بلکہ نظریاتی طور پر بھی ایک دوسرے کی ضد تھے۔ ان میں سے ایک صاحب غلام جیلانی ملک تھے جو جدید آبادی گلبرگ میں رہائش پذیر ہوئے ان کا گھر بہت بڑی سرگرمیوں کا مرکز تھا، وہ خود روشن خیال، اعتدال پسند اور غیر فرقہ پرست کہلاتے تاہم لوگ ان کو بائیں بازو سے موسوم کرتے تھے اور انہوں نے اپنا تعلق بھی ایسے ہی نظریئے کی سیاسی جماعتوں سے جوڑا اور ان کی دوستی کا دائرہ بھی ترقی پسند حضرات والا ہی تھا ، لاہور کے صحافیوں سے بھی ان کی بڑی دوستی رہی اور ہمارے سینئر بھی ان کے ڈرائنگ روم کی رونق بڑھا دیتے تھے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر اور وکلاء میں اپنے دھڑے کی سربراہ عاصمہ جہانگیر انہی غلام جیلانی ملک کی صاحبزادی ہیں اور انہی کی نظریاتی اساس بھی ہیں وہ بنیادی انسانی حقوق کے لئے جدوجہد کی چیمپئن کہلاتی ہیں اور بڑی نڈر اور بے خوف ہیں، ہم صحافیوں کے ساتھ انہوں نے بھی اپنا تعلق جوڑ کر رکھا ہوا ہے اور ہماری فیڈریشن کی وکالت بھی کرتی ہیں، ویج ایوارڈ کے لئے فیڈریشن کی وکیل تھیں اور ہیں، انسانی حقوق اور پسماندہ عوام کی ترجمانی کے حوالے سے مشہور ہیں اور ان سے یہی توقع رہتی ہے کہ وہ ہمیشہ حق کے لئے جدوجہد کریں گی اور ایسا کرتی بھی ہیں وہ عدلیہ کی آزادی، قانون و آئین کی بالادستی کے لئے کانٹوں پر چلنے کو بھی تیار رہتی ہیں۔


اتنا کچھ ہوتے ہوئے ان کا احترام واجب ہے اور ہم کرتے بھی ہیں لیکن حال ہی میں ان کے رویے نے ہمیں پریشان بھی کردیا ہے اور سوچ رہے ہیں کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے، وہ آج کل پاناما کیس کی سماعت کے بعد فیصلہ دینے والے فاضل جج حضرات کی براہِ راست مخالف ہو گئی ہیں اور بڑے بنچ کے چار ججوں کے حلف سے بات کرکے اب فیصلہ پر براہ راست حملہ آور ہیں، یہ درست کہ کسی مقدمہ کے فیصلے کے بعد اس کے نتائج کے حوالے سے نیک نیتی سے بات کی جا سکتی ہے،لیکن اس کے لئے انداز بھی وہی ہوتا ہے لیکن اب توحد ہوگئی اور محترمہ عاصمہ جہانگیر نے بھی وہی روش اختیار کرلی جو چند ایسے دوستوں نے کی تھی جو محبت اور خلوص کے باعث نتائج سے بے پرواہ ہیں، تاہم عاصمہ جہانگیر تو وکیل بھی ہیں اور سینئر وکیل ہیں ان کو فیصلہ پسند نہیں تو تنقید ضرور کریں لیکن انداز پرویز مشرف والا کیوں اپناتی ہیں؟


معلوم نہیں، ہماری سوچ میں فرق آگیا یا یہ خواہش اثر انداز ہوگئی ہے کہ معاشرے میں سکون اور چین ہونا چاہئے اور تبدیلی بھی آنا ہے تو امن سے آئے، اس کے لئے تمام اداروں، شخصیات اور افراد کا کردار بھی اسی کے مطابق ہونا چاہئے، آج جو صورتِ حال ہے اس میں اداروں ہی کے ٹکراؤ کے خدشات ابھر کر سامنے آرہے ہیں۔


ذرا صاف بات کی جائے تو پہلے ہی عدلیہ اور وکلاء میں تعلقات ناخوشگوار ہیں اور یہ دو نوں طبقات محاذ آرائی کی کیفیت میں ہیں، وکلاء حضرات عدالتوں میں برملا جج حضرات کے خلاف براہ راست ایکشن کردیتے ہیں، لاہور ہائی کورٹ اور وکلاء کے درمیان شدید تناؤ ہے، ملتان میں فاضل جج کے ساتھ جو سلوک ہوا اس پر کارروائی اور جوابی احتجاج کی صورت ہے، کچھ صلح جو حضرات کی کوشش بھی بار آور نہیں ہو رہی اور اب اگر عدالت عظمیٰ کے حوالے سے بھی یہ مہم ہے اور اس میں عاصمہ جہانگیر بھی شامل ہو گئی ہیں تو پھر اللہ ہی حافظ ہے، ہم کسی بھی فریق کی وکالت نہیں کرتے، فوج کا سول کردار ہمیں بھی ایک آنکھ نہیں بھاتا اور نہ ہی ایک ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے حالیہ انٹرویو سے اس ادارے کی کوئی خدمت کی ہے۔ عجیب شخص ہے کہ اپنے لئے ادارے کو محافظ قرار دیتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے کمان کی ہوئی ہے تو یہ ادارہ اس کا تحفظ بھی کرے اور پھر کہتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے مُلک کو جو نقصان پہنچایا وہ بھی ناقابلِ معافی ہے۔یوں ان کی تھیوری کے مطابق تو پھر جنرل ضیاء ان کے سینئر نہیں ایک سویلین حکمران تھے جن کو وہ برا کہتے چلے جا رہے ہیں۔ان کے فارمولے کے مطابق کیا جنرل ضیاء الحق نے فوج کی کمان نہیں کی تھی؟


دوسری طرف سیاسی ماحول بھی پراگندہ ہے اور آج کے میڈیا گروپ بھی اپنی بساط سے بڑھ کر حصہ ڈال رہے ہیں اور دو میڈیا گروپ تو ایک دوسرے کے مدمقابل فری سٹائل کشتی لڑ رہے ہیں۔صورتِ حال یہ ہے کہ سنجیدہ فکر حضرات یہ کہنے لگے ہیں کہ یہی حالات ہیں تو کوئی بھی خاندان بال بچوں سمیت اکٹھے بیٹھ کر ٹی وی نہیں دیکھ سکے گا کہ اب بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ یا بڑے اٹھ کر چلے جاتے یا پھر بچے اور نوجوان دوسری طرف رُخ کرتے ہیں۔

معاشرے میں بے چینی اور بے اطمینانی ہے اور ایسا ماحول کسی طور پر کسی بھی مُلک کے لئے بہتر نہیں ہو سکتا اس میں معمول کی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔ چہ جائیکہ بڑے پیمانے پر معاشی اور اقتصادی سرگرمیاں ہوں۔یہ مُلک تو اللہ کی نعمتوں سے مالا مال ہے۔ آج قرضوں میں جکڑا ہوا اور ایک ایسے پرندے کی طرح پھڑ پھڑا رہا ہے جس کے پَر کُتر لئے گئے ہوں، یہاں تو احساس زیاں بھی جاتا رہا ہے ، امریکی سینٹ نے اخلاق اور حملہ والے فار مولے پر فیصلہ کرکے امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ کو ہدائت دی ہے، بلکہ کھلی چھٹی دی ہے کہ پاکستان شرارتی بچہ ہے اسے سمجھاؤ اور نہ مانے تو چھڑی سے پٹائی کرو، صاف اور واضح بات یہ ہے کہ اگر امریکی انتظامیہ کی پسند اور منشاء کے مطابق پاکستان حقانی گروپ اور طالبان کے خلاف کارروائی نہیں کرتا تو پھر امریکہ خود کرے یعنی پاکستان کو عراق بنادیا جائے، ان حالات میں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم اور بھارتی متعصب وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت کا رویہ بھی بہت کچھ کہہ رہا ہے، ایسے میں جو ہم کر رہے ہیں کیا یہ ہمارے ملکی مفاد میں ہے۔

اللہ کے لئے ہوش کے ناخن لو، سب اپنا اپنا کام کرو، ادارے بھی آئینی اور قانونی حدود کا خیال رکھیں اور ہم سب کو بھی درجہ بدرجہ سب کا احترام کرنا ہوگا۔ سیاسی محاذ پر تو پہلے ہی شدید محاذ آرائی تھی اور اب عاصمہ جہانگیر جیسی جہاندیدہ خاتون کی طرف سے نیا محاذ کھول دیا گیا ہے وکلاء میں پہلے ہی ان کے مخالف گروپ کو حامد خان گروپ کہا جاتا ہے اور حامد خان تحریک انصاف کے راہنما ہیں ہم تو دکھ کا اظہا ر کرسکتے ہیں کردیا عمل تو خود متعلقہ حضرات ہی نے کرنا ہے۔

مزید :

کالم -