نون لیگیوں کی سمجھ نہیں آتی
ایک تو ان نون لیگ والوں کی سمجھ نہیں آتی۔ خواہ مخواہ دکھی ہیں، غم و غصے کا اظہار کر ہے ہیں، ٹائر جلا رہے ہیں اور احتجاج کر رہے ہیں۔
ہوا کیا ہے؟
ہوا یہ ہے کہ ان کے لیڈر نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا گیا ہے اور جُرم کیا بیان کیا گیا ہے؟ عرب ممالک کے قانون کے مطابق اگر کوئی شخص کسی کمپنی کا ملازم ہو، کسی بھی طرح کا، تو اُسے اُس ملک کا اقامہ مل سکتا ہے۔ اقامہ کا مطلب ہے؛ ۔۔۔ Resident Permit ۔۔۔اور اقامہ ملنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آدمی کو وہاں آنے جانے کے لئے باربار ویزے کے لئے درخواست نہیں دینا پڑتی۔ جب چاہے آئے، جب چاہے جائے۔ دوسرے لفظوں میں ملٹی پل ویزہ۔ اب چونکہ نواز شریف نے بار بار متحدہ عرب امارات آنا جانا تھا تو اُنہیں بھی اس ملٹی پل ویزے یا اقامے کی ضرورت تھی۔ اس مشکل کے حل کے لئے یہی کیا گیا کہ اُن کے بیٹے نے کیپیٹل ایف زیڈ ای کے نام سے ایک فرم بنائی اور نواز شریف کو رسمی طور پر اس کا چیئرمین مقرر کر دیا۔ فرم میں اُن کا شیئر وئیر کوئی نہیں تھا۔ اب وہاں کا یہ بھی قانون ہے کہ فرم یا کمپنی کے ہر ملازم یا عہدیدار کی کوئی تنخواہ بھی ہوتی ہے۔ قانون کا یہ تقاضا پورا کرنے کی خاطر اُن کی تنخواہ دس ہزار درہم مقررکر دی گئی۔ اُنہیں نہ اس کی ضرورت تھی، نہ اُنہوں نے بیٹے سے تنخواہ لینا تھی، تاہم قانون کا تقاضا پورا کرنے کے لئے تنخواہ مقرر کرنا ضروری تھا، سو کردی گئی جو اُنہوں نے کبھی وصول نہیں کی۔
پھر یوں ہوا کہ 2013ء کے انتخابات آگئے۔ انہوں نے الیکشن کمیشن سے اس فرم کا چیئرمین ہونے کی بات چھپائی نہیں۔ چھپانے کی ضرورت بھی نہیں تھی،اس لئے کہ قانونی طور پر کسی اُمیدوار پر ایسی کوئی پابندی نہیں کہ وہ کاروبار نہیں کر سکتا یا کسی فرم کا عہدیدار نہیں ہوسکتا۔ سو وہ چھپاتے کیوں؟ لیکن کاغذات نامزدگی میں اس نوع کا کوئی خانہ نہیں تھا، اس لئے پیپرز کے ساتھ پاسپورٹ کی فوٹو کاپی دکھائی گئی، جس پر اقامہ لگا ہوا تھا۔ یہ سب کرنے کے بعد وہ مطمئن ہوگئے کہ اُنہوں نے الیکشن کمیشن سے کوئی بات نہیں چھپائی۔ اثاثے بھی اُتنے ہی بیان کئے، جس قدر رکھے۔ یہ کمپنی 2014ء میں بند ہوگئی۔ اب پانامہ لیکس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے اس کمپنی کا سراغ لگا لیا اور ساتھ یہ بھی کہ نواز شریف اس کے چیئرمین تھے اور یہ کہ تنخواہ دس ہزار درہم مقرر تھی جو اُنہوں نے اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کی۔ نتیجہ یہ کہ ان پر اثاثے چھپانے کا الزام آگیا۔ نواز شریف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اُن کے موکل نے کبھی یہ تنخواہ وصول نہیں کی۔ تو جب یہ رقم وصول ہی نہیں کی تو یہ اُس کا اثاثہ کیسے بن گیا؟ یہ بات تسلیم نہیں کی گئی۔ معزز عدالت نے 28جولائی کو اُن کے خلاف جو فیصلہ دیا۔ اس میں اثاثہ جات کی تعریف بیان کی گئی۔ اس تعریف کی رو سے اگر کوئی رقم قابل وصول ہو تو چاہے وہ شخص رقم وصول کرے یا نہ کرے دونوں صورتوں میں یہ اُس کا اثاثہ تصور ہوگی اور بے شک نواز شریف نے یہ رقم وصول نہیں کی، لیکن چونکہ یہ قابلِ وصول تھی، اس لئے یہ اُن کا اثاثہ ہے اور جب انہوں نے کاغذات نامزدگی میں اپنے اثاثہ جات کی فہرست میں اس کا ذکر نہیں کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اثاثے چھپانے کے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں، چنانچہ آئین کی دفعہ 62 (1)(ایف) کے مطابق صادق اور امین نہیں رہے، سو رُکن پارلیمان بننے کے لئے نااہل ہوگئے۔
ایک شخص پر کسی جُرم میں مقدمہ چل رہا تھا۔ عدالت کی طرف سے اُسے عمر قید کی سزا سنائے جانے کے وقت اس کا ایک دوست بھی عدالت میں موجود تھا۔ فیصلہ سن کر اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اُس شخص نے پوچھا۔۔۔’’کیوں رو رہے ہو‘‘؟۔۔۔’’اس لئے کہ تم بے گناہ ہو، اس کے باوجود تمہیں سزا دی جارہی ہے‘‘۔۔۔ کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ اُن کے لیڈر نے واقعی کسی بہت بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہوتا، جس کی اُسے سزا سنا دی جاتی؟
پس نوشت: تیسری دنیا کے ایک ملک کو آزادی دلانے والے رہنما، جو اس ملک کے حکمران بھی تھے، اپنے سرکاری عہدے کی تنخواہ وصول نہیں کرتے تھے۔ پانامہ کیس کے فیصلے کی روشنی میں دیکھا جائے تو وہ بھی سیاست کے لئے نااہل قرار پاتے ہیں، اس لئے بے شک وہ تنخواہ وصول نہیں کرتے تھے، لیکن یہ قابل وصول توتھی۔ سو اُن کا اثاثہ تھی، جسے اُنہوں نے ڈیکلیئر نہیں کیا سو، 62 (1)(ایف) کے تحت وہ بھی نااہل قرار پاتے ہیں۔