عمران خان اور حکمرانی کا چیلنج
انتخابات میں عمران خان کی کامیابی کوئی عام واقعہ نہیں، بلکہ یہاں تک پہنچنے کے لئے 22سال پر محیط جدوجہد شاہد ہی کسی سیاستدان نے کی ہو، انہیں بہت دفعہ شکست ہوئی اُن کا مذاق اُڑایا گیا، لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور آخرکار منزل پائی۔
انہوں نے سیاست کے خاندانی کھلاڑیوں کو چت کرکے یہ مقام حاصل کیا ہے۔ وہ جب سے سیاست میں آئے ہیں وہ اقتدار کے کھلاڑیوں کے لئے ’’تھریٹ‘‘ بنے رہے ہیں۔ میاں نوازشریف نے انہیں کئی دفعہ وزیر بنانے کی پیشکش کی اگر وہ یہ پیشکش قبول کر لیتے تو راستے میں ہی بھٹک جاتے۔
جنرل پرویز مشرف سے بھی ان کی نہ بن سکی۔1992ء میں انہوں نے ورلڈ کپ جیتا توسید اختر وقار عظیم کے بقول پی ٹی وی کو کہا گیا کہ اُن کا شارٹ نہ دکھایا جائے۔ کارپردازان حکومت کو سمجھایا گیا کہ یہ بہت بُرا ہو گا اور شاید ممکن بھی نہیں پھر بھی کلوز اپ کی بجائے لانگ شارٹ دکھایا گیا۔ پیپلزپارٹی کی قیادت بھی ان سے ہمیشہ خائف رہی۔ فروری 1995ء میں محترمہ بینظیر بھٹو نے فلپائن کا دورہ کیا۔
مجھے بھی ہمراہی کا موقع ملا۔ مجھے یاد ہے کہ منیلا ہوٹل میں میڈیا سے بات چیت کے دوران کراچی کی ایک خاتون صحافی (نام بھول رہا ہوں) نے اسی پس منظر میں محترمہ سے عمران خان کے بارے میں تبصرہ چاہا۔حالانکہ عام حالات میں اس دورے سے عمران خان کا بظاہر کوئی تعلق نہیں تھا۔
محترمہ نے کہا کہ عمران خان نے ابھی بہت سفر کرنا ہے انہیں ابھی سیاست کے اُتار چڑھاؤ کا اندازہ نہیں۔ عمران خان بڑے سیاسی لیڈروں کے لئے ’’تھریٹ‘‘ اس لئے تھا کہ وہ پہلا سیاستدان ہے جو سیاست میں آنے سے پہلے ہی پاکستان اور بیرون ملک اچھی طرح متعارف تھا۔ پھر اُس پر کرپشن یا ناکامی کا کوئی داغ نہیں تھا۔ اس کے علاوہ اس لحاظ سے بھی پہلا سیاستدان ہے جس نے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی پاکستان کو بہت کچھ دے دیا۔ پہلے ورلڈ کپ جیتا اور دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا پھر اُس نے شوکت خانم ہسپتال بنایا۔
قیام پاکستان سے لیکر آج تک کوئی ایسا بڑا پراجیکٹ کسی مسلمان کے نام نہیں۔ لاہور میں گنگا رام ہسپتال ہے، گلاب دیوی ہسپتال ہے اور میو ہسپتال ہے کسی مسلمان کا نام ایسے کاموں میں نظر نہیں آیا پھر انہوں نے میانوالی جیسی پسماندہ جگہ پر نمل یونیورسٹی بنا دی۔
خیربالآخر غیبی امداد کے ساتھ ساتھ اُن کے کام اور طویل جدوجہد کا صلہ انہیں مل ہی گیا،وہ سارے کام انہوں نے مناسب وقت پر شوق سے کئے، لیکن اب اُن کے سر پر مسائل کی گٹھڑی آ پڑی ہے اصل امتحان تو اب شروع ہوا ہے۔ ہمارے اندرونی جھگڑوں اور نالائقیوں کے نتیجے میں پاکستان یہاں تک آ پہنچا ہے۔ موجودہ صورتحال کی ذمہ داری صرف مسلم لیگ (ن) پر ڈالنا زیادتی ہو گی۔ دراصل یہ ہماری اجتماعی ناکامی ہے کوئی پارٹی یا کوئی ادارو اس سے بری الذمہ نہیں۔ ہم آج تک گیم کے بنیادی قواعد پر اتفاق رائے نہیں کر سکے۔پتہ نہیں ہم یہ کھیل کب تک کھیلتے رہیں گے۔
آج ہمارے مسائل بہت گھمبیر اور پیچیدہ ہو چکے ہیں ان کے حل کے لئے صرف نیت ہی نہیں مطلوبہ اہلیت کی بھی بڑی ضرورت ہے لہٰذا عمران خان کا پہلا اور شاید سب سے اہم ٹیسٹ یہ ہے کہ وہ اس چیلنج کے لئے کونسی ٹیم سلیکٹ کرتے ہیں۔
اُن کی سیاسی ٹیم میں تجربے کی بڑی کمی ہے اور بیوروکریٹک ٹیم کی سلیکشن میں بھی انہیں کافی مشکل پیش آئے گی۔ اس سلسلے میں پارٹی کے اندر شدید اختلافات ہیں یہ بھی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ہے کہ پارٹی کے لوگ ٹیلی ویژن پر اپنی پسند بتا رہے ہیں یعنی وہ اتنے بے تاب ہیں کہ پارٹی کے فیصلوں کا انتظار اُن کے لئے مشکل ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ اور وفاقی کابینہ کا انتخاب بہت اہم ہو گا۔ اس انتخاب سے مستقبل کے بارے میں پیشنگوئی کسی حد تک ممکن ہو گی۔
بیوروکریسی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ شریف فیملی کی وفادار ہے لہٰذا عمران خان اُن سے الرجک ہوں گے، پھر وہ غیرجانبدار بیوروکریٹک ٹیم کہاں سے لائیں گے اس معاملے میں انہیں بہت سارے ساتھیوں کی طرف سے بھی گمراہ کیا جا ئے گا اور بیوروکریسی کی اندرونی چپقلشوں کو سمجھنا بھی مشکل ہو گا۔ نوازشریف نے ایک آدھ کو چھوڑ کر بہت اچھی شہرت اور قابلیت کے حامل افسروں کو اپنے ساتھ رکھا مثلاً شیردل، سعید مہدی، انور زاہد اور کھوسہ برادران وغیرہ میرا مشورہ یہ ہے کہ عمران خان کچھ بہت قریبی بیوروکریٹوں کو چھوڑ کر باقی سب پر شریفوں کی وفاداری کا دھبہ نہ لگائیں اور انہیں اعتماد میں لیں۔
مجھے یقین ہے وہ پوری قابلیت اور وفاداری سے عمران کے ساتھ بھی کام کریں گے ۔ اس شعبے میں چیف سیکرٹری ٹو پرنسپل سیکرٹری ، پرائم منسٹر اور آئی جیز کی سلیکشن بہت احتیاط سے کرنی ہو گی۔
بیوروکریسی میں اگر آپ نے لیٹرل انٹری کی سکیم شروع کی اور ٹیکنوکریٹس کی خدمات اصل کیں تو شاید یہ زیادہ مفید ثابت نہ ہو سکے۔ یہ تجربہ ذوالفقار علی بھٹو کر چکے ہیں۔ اس سے موجودہ بیوروکریسی میں بددلی پھیلے گی اور وہ حکومت سے مخلصانہ تعاون نہیں کریں گے۔ وزارتوں میں محکمے کے چند اچھی شہرت کے ریٹائرڈ افسروں اور کچھ متعلقہ ماہرین پر مشتمل ایڈوائزری گروپ بنائے جائیں گے جو محکموں کو ضروری اِن پُٹ دیں گے۔
سیاسی میدان میں بہت سارے الیکٹیبلز ان کے ساتھ شامل ہوئے اور عمران نے اُن کو خوش آمدید کہہ کہ ہائی مارل گراؤنڈ لوز کر دی، لیکن اُن کا فائدہ کم ہی ہوا۔ اُن میں سے بہت سوں کو عوام نے رد کر دیا۔ باقی نمبر گیم میں تو شامل ہوں گے، لیکن حکمرانی کے چیلنج میں وہ کوئی خاص کردار ادا نہیں کر سکیں گے۔ اُن میں زیادہ تر زمیندار طبقے کے لوگ شامل ہیں وہ صرف اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں اُن کے پاس مسائل کا کوئی حل نہیں، زیادہ سے زیادہ وہ اپنے حلقوں میں لوکل باڈیز کا کام سنبھالے ہوئے ہیں، لیکن وہ بھی اُن سے چھن جائے گا۔ کیونکہ عمران خان پارلیمنٹ کے ارکان کے ترقیاتی فنڈز ختم کرنے کا وعدہ کر چکے ہیں۔ عمران خان کے اِردگرد ایک مخصوص طبقے نے گھیرا ڈالا ہوا ہے، اُن کی شہرت اور ارادے اچھے نہیں ، میں سب لوگوں کا نام تو نہیں لے سکتا، لیکن وہ لوگ ہیں جو ہر پارٹی میں رہے ہیں اور عمران خان کے خلاف باتیں کرتے رہے ہیں وہ آپ کو ہر وقت ٹی وی چینلز پر نظر آتے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ اس قسم کے لوگ عمران خان کو نقصان پہنچائیں گے۔ ایک چینل پر میں نے عمرا ن خان کے ایک انتہائی قریبی دوست زلفی بخاری صاحب کا انٹرویو دیکھا جس میں اُن سے پوچھا گیا کہ عمران خان سے اُن کی دوستی کیسے اور کب شروع ہوئی۔
انہوں نے صرف ایک جملہ کہا کہ ہماری دوستی 2011ء میں ہوئی اور منہ نیچے رکھا۔ بخاری اور عمران خان کے درمیان کوئی قدر مشترک کم از کم میں تو تلاش نہیں کر سکا۔
یہ انفارمیشن کے پھیلاؤ کا زمانہ ہے لہٰذا میڈیا ہینڈلنگ کے لئے بھی کچھ سلجھے ہوئے آدمیوں کی ضرورت ہوگی۔ مسلم لیگ (ن) کے پاس مصدق ملک اور بیرسٹر ظفراللہ جیسے پڑھے لکھے قابل لوگ ہیں۔
پھر یہ مسئلہ بھی آپ کے سامنے آئے گا کہ پیمرا او رسرکاری میڈیا یعنی پی ٹی وی ریڈیو پاکستان اور اے پی پی کے بارے میں آپ کی پالیسی کیا ہو گی۔ کیا آپ بھی مسلم لیگ کی طرح کچھ مخصوص لوگوں کو خوش کرنے کے لئے ان اداروں پر بٹھا دیں گے چاہے وہ اِن اداروں اور آپ کا بھی بیڑہ غرق کر دیں؟ اور پھر کیا آپ بھی ماضی کی طرح اِن اداروں کو حکومت کی ترجمانی تک محدود رکھیں گے یا اِن کے چارٹر میں کوئی بنیادی تبدیلی لائیں گے؟ تاکہ یہ صحیح معنوں میں قومی ادارے بن سکیں ۔یہ فیصلے بہت مشکل اور اہم ہوں گے۔
مسائل کا توایسے ہی انبار لگا ہوا ہے، لیکن کچھ انہوں نے خود بڑے بلند وبانگ دعوے کر رکھے ہیں مثلاً کروڑں نوکریاں، لاکھوں مکانات،پاکستانی پاسپورٹ کی عزت کی بحالی، غیرملکوں میں جمع پاکستان کی دولت کی واپسی، قانون کی حکمرانی اور مدینہ کی طرز پر فلاحی مملکت ، معیشت کی بحالی ، سیاسی استحکام یہ ایسے دعوے ہیں جن کی تکمیل ایک کرشمہ اور خواب ہو گا، لیکن وہ انگریزی محاورے والی بات کہ ’’ہی آسکڈ فار اِٹ‘‘ (He asked for it)