افغان باشندہ کس طرح سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر بلوچستان اسمبلی کا رکن منتخب ہوگیا؟
تجزیہ:۔ قدرت اللہ چودھری
دُہری شہریت والے پاکستانی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے اور اس بنیاد پر کئی ارکان کی رکنیت ماضی میں عدالتوں سے منسوخ ہوئی ہے، بہت سے نامور سیاستدان دہری شہریت کے حامل رہے ہیں جن میں تحریک انصاف کے رہنما چودھری محمد سرور بھی شامل ہیں جو برطانوی ہاؤس آف کامنز کے کئی بار رکن رہے غالباً یورپی پارلیمنٹ میں بھی برطانیہ کی نمائندگی کرتے رہے لیکن نواز شریف کی حکومت میں وہ پاکستان آ گئے تو انہیں پنجاب کا گورنر بنایا گیا، انہوں نے اعلان کیا کہ وہ اب دوبارہ برطانوی شہری نہیں بنیں گے، گورنر تو وہ زیادہ عرصے تک نہیں رہ سکے اور خود ہی استعفا دیکر تحریک انصاف کو پیارے ہو گئے، چودھری سرور کا ذکر قدرے تفصیل سے اس لئے کرنا پڑا کہ ان کے بھائی چودھر ی رمضان کو اس بنیاد پر الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ملی کہ ان کے پاس بھی دہری شہریت ہے اگرچہ انہوں نے بھی کہا تو یہی کہ وہ برطانیہ کی شہریت چھوڑ چکے ہیں لیکن ان کا موقف نہیں مانا گیا اور وہ الیکشن لڑنے سے محروم رہ گئے، سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے پاس بھی کینیڈا کی شہریت تھی جسے چھوڑ کر وہ پاکستان آ گئے اور پہلے سندھ صوبائی اسمبلی کے رکن اور پھر وزیر اعلیٰ بن گئے، البتہ سندھ میں اب بھی بہت سے ’’چھپے رستم‘‘ موجود ہیں جن کے پاس دہری شہریت ہے لیکن اول تو ان کے کاغذات نامزدگی پر کوئی اعتراض نہیں کرتا اور کر دے تو ثبوت نہیں ملتے اس لئے کئی دہری شہریت والے نہ صرف ماضی میں رکن منتخب ہوتے رہے بلکہ اب بھی شاید ہوں گے ایک وزیر اعظم کو اقامے کی بنا پر نا اہل قرار دیا جا چکا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے بیٹے کی کمپنی میں ایک عہدہ لے رکھا تھا جس کی ایک تنخواہ بھی مقرر تھی اگرچہ یہ تنخواہ وصول نہیں کی گئی تاہم عدالت کے فیصلے کے مطابق یہ بلیک ڈکشنری کے مطابق ان کا اثاثہ تھا اور چونکہ اس اثاثے کو نواز شریف نے کاغذات نامزدگی میں ڈیکلیئر نہیں کیا تھا اس لئے وہ قومی اسمبلی کی رکنیت اور نتیجے کے طور پر وزارت عظمیٰ کے لئے نا اہل ٹھہرے۔ اس سے ملتا جلتا معاملہ خواجہ محمد آصف کا تھا جن کے پاس اقامہ تھا اور وہ یو اے ای کی کمپنی سے تنخواہ بھی لیتے تھے،یہ دونوں باتیں انہوں نے تسلیم کیں۔ اس لئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں نا اہل قرار دے دیا، وہ قومی اسمبلی کی رکنیت کے نا اہل قرار پائے، وزارت خارجہ سے گئے اور عمر بھر کے لئے الیکشن لڑنے کے نا اہل قرار پائے البتہ سپریم کورٹ سے انہیں اتنا ریلیف ملا کہ وہ دوبارہ الیکشن لڑنے کے اہل ہو گئے۔ اب انہوں نے سیالکوٹ سے الیکشن لڑا اور جیت بھی گئے، انہوں نے اپنے پرانے حریف عثمان ڈار کو ہرایا۔ جنہوں نے 2013ء کے بعد ان کے خلاف انتخابی عذر داری دائر کی تھی وہ سپریم کورٹ تک یہ مقدمہ ہار گئے اور خواجہ صاحب کی رکنیت کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے البتہ اس ہار کے بعد اقامے کا مقدمہ انہوں نے جیت لیا اور اپنے تئیں خواجہ آصف کو میدان سیاست سے باہر کر دیا لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے سے وہ دوبارہ ان ہوئے۔ دوبارہ عثمان ڈار کو ہرایا اب پھر انتخابی مقدمے بازی کا نیا سلسلہ شروع ہو گا یعنی یار زندہ صحبت باقی، دیکھیں اب کی خواجہ آصف کو کن کن مراحل سے گذرنا پڑتا ہے، البتہ عثمان ڈار کو اتنا تو معلوم ہو جانا چاہئے کہ عوام کا فیصلہ ہی دیرپا ہوتا ہے۔ لیکن وہ کسی نہ کسی موہوم امید پر عدالتی مقدمے بازی میں الجھے رہیں گے۔
ایک طرف تو دہری شہریتوں اور اقاموں کا ایک چکر ہے اور اچھے بھلے پاکستانیوں کو الیکشن لڑنے کے لئے نا اہل قرار دیا گیا جبکہ دوسری جانب ایک افغان باشندہ بلوچستان اسمبلی کا باقاعدہ رکن منتخب ہو چکا ہے، (اس کی کامیابی کا اعلان روک دیا گیا ہے) آپ کو اگر حیرت ہو رہی ہے تو جان لیں کہ ایک افغان باشندے نے ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر بلوچستان اسمبلی کا الیکشن لڑا، اس نے پاکستان کا شناختی کارڈ بنوا رکھا تھا جو نادرا نے بلاک کر دیا تھا، لیکن اس کے باوجود اس کے کاغذات نامزدگی کسی نہ کسی وجہ سے قبول ہو گئے، اسے الیکشن لڑنے کی اجازت بھی مل گئی، پاکستان کی ایک سیاسی جماعت نے اسے ٹکٹ بھی دیا اور وہ بلوچستان اسمبلی کا رکن بھی منتخب ہو گیا، یہ کیسے ممکن ہوا یہ پاکستانی حکام کے سوچنے کی بات ہے، پاکستان کے اندر بڑی تعداد میں افغان باشندوں نے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنا رکھے ہیں، بہت سے افغان باشندے پاکستان پاسپورٹ پر بیرون ملک ملازمتیں بھی کر رہے ہیں اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس سیاسی پارٹی نے افغان باشندے کو ٹکٹ جاری کیا اسے تو معلوم ہو گا کہ یہ پاکستانی نہیں اس نے ٹکٹ کیوں جاری کیا، ووٹر تو ممکن ہے بے خبر ہوں اور انہوں نے پارٹی ٹکٹ کی بنیاد پر اسے ووٹ بھی دیئے ہوں اس لئے وہ منتخب بھی ہو گیا لیکن کیا یہ متعلقہ اداروں کی کوتاہی نہیں کہ ان کے چیکنگ سسٹم سے تو دہری شہریت والا ایک پاکستانی نہیں بچ پاتا اور سابق گورنر پنجاب کا بھائی اس بنیاد پر الیکشن نہیں لڑ سکتا لیکن ایک افغان باشندہ نہ صرف الیکشن میں امیدوار بن جاتا ہے بلکہ جیت بھی جاتا ہے، شاید ایسے ہی موقعہ کے لئے کہا گیا تھا تم مچھر چھانتے ہو، لیکن سالم اونٹ نگل جاتے ہو۔
افغان باشندہ