آزادی کا اعلان ہوتے ہی سکھوں نے مسلمانوں پر زمین تنگ کر دی
ملتان(سٹی رپورٹر)قیام پاکستان سے قبل ضلع گورداس پور تحصیل بٹالہ تھانہ سری کوبندپور گاؤں بہادر پور رجوعہ کے رہائشی86سالہ محمد یوسف طالب نے کہاہے کہ جب پاکستان بنا تو میری عمر 17سال تھی اور میں کلاس نہم کا طالب علم تھا گلی گلی میں جلوس تھی اور گاؤں گاؤں میں لوگ مجمع کی شکل کی جمع ہو تے تھے ہر طرف ایک کی گفتگو تھی کی پاکستان ضرور بنے جبکہ دوسری طرف مخالفین کے پاس صرف ایک ہی بات تھی پاکستان نہیں بنے گا ،ہمارے اکابرین نے قیام (بقیہ نمبر30صفحہ12پر )
پاکستان کے لئے بہت قربانیاں دیں ،قیام پاکستان کا اعلان ہوتے ہی خون کی ہولی کھیلی گئی ۔ہم سکول کے مسلمان طالب علم رات کے وقت گلیوں میں نعرے لگاتے پھرتے تھے کہ لیکر رہے گے پاکستان بن کے رہے گا پاکستان ، پاکستان زندہ باد ، قائداعظم زندہ باد، کئی بار ایسا ہوتا کہ سکھ لڑکے ہمارے پیچھے لگ جاتے اور ہمارے اوپر پتھر پھینکتے ، لیکن ان کے باوجود ہم نعرے لگانے سے باز نہ آتے انہوں نے کہاہے کہ جب 14اگست 1947کو پاکستان بننے کا اعلان ہوا تو ہمارے پڑوس میں آباد سکھوں نے مسلمانوں کے لئے جگہ تنگ کر دی ایسا لگتا تھا کہ پاکستان بننے کا سب سے زیادہ دکھ سکھوں کو ہوا ہے سکھوں نے مسلمان آبادی کے گاؤں پر حملے شروع کر دےئے جب ہمارے آباؤ اجداد کو معلوم ہوا حالات خراب ہیں تووہ رات ہی رات میں قریبی مسلمان آبادی والے گاؤں کڑی افغاناں میں شفٹ ہو گئے جہاں بڑی تعداد میں مسلمان آباد تھے وہاں پر ایک ماہ رہنے کے بعد 9کلومیٹر دور گاؤں قادیاں گئے جہاں 22روز سکول میں گزارے اس کے بعد ڈوگراں ملٹری کی نگرانی میں بٹالہ اور پھر ڈیرہ بابا گرو نانک گئے اور پھر دریائے بیاس بیدل کراس کرکے سیالکوٹ کے راستے پاکستان میں داخل ہوئے راستے میں جگہ جگہ مسلمانوں کی لاشیں پڑی ہوئی تھی جن کو بے دردی سے قتل کیا گیا تھا ان لاشیں میں زیادہ تر خواتین اور نوجوانوں کی تھی محمد یوسف طالب نے روزنامہ پاکستان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جب ہم بٹالہ سے نکلے تو ہمارے سامنے سکھ نوجوان مسلمان لڑکیوں کو اٹھا کر لے جا رہے تھے تو میں نے ساتھ ہی کھڑی ڈوگرا ملٹری کے سپاہی کو جا کر شکایت کی تو اس نے میری ساتھ سنی ان سنی کر دی اور میں خاموشی سے واپس آ گیا جبکہ راستے میں جگہ جگہ سکھوں کے ٹولے کھڑے ہو ئے تھے جو پاکستان کی طرف جانے والے مہاجرین سے لوٹ مار کر رہے تھے انہوں نے کہاہے کہ جب ہم اپنے گاؤں سے نکلے تھے تو سارا سامان ویسے کا ویسا چھوڑ آئے تھا اگر کسی کے پاس کوئی سامان تھا تو وہ کھانے کے کچھ چیزیں یا پھر کسی کے پاس تھوڑا بہت زیور جس کو راستے میں سکھوں نے چھین لیا تھا 86سالہ محمد یوسف طالب نے کہاہے کہ آج کا پاکستان دیکھ کر دل خون کے آنسو ؤ ں روتا ہے آج کے پاکستان کے لئے 20لاکھ سے زائد افراد نے قربانیاں دی اور جانوں کے نذرانے پیش کئے انہوں نے کہاہے کہ آج جب 1947کی ہجرت کو یاد کرتے ہیں تو راتوں کی نیندیں اڑ جاتی ہیں کہ ہم پاکستان بنتے وقت کئی خواب دیکھے تھے آج کا پاکستا ن ہمارے خوابوں خیالوں میں بھی نہیں تھا ۔
یوسف طالب