’میں نے اب تک 400 لوگوں کو سزائے موت دی جاتی دیکھی ہے اور یہی کہوں گا کہ۔۔۔‘ 400 لوگوں کی پھانسی دیکھنے والے رپورٹر نے مجرموں کے آخری لمحات کے بارے میں ایسا انکشاف کردیا کہ آپ بھی کانپ اُٹھیں گے
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) جب کسی سزائے موت کے قیدی کو پھانسی دی جاتی ہے تو اس کے تاثرات کیا ہوتے ہیں؟ امریکی ریاست ٹیکساس کی ایک جیل میں 400لوگوں کی پھانسی دیکھنے والے صحافی نے اس کا ایسا جواب دے دیا ہے کہ ہر سننے والا کانپ اٹھے۔ میل آن لائن کے مطابق مائیکل گریکزیک نامی یہ صحافی ایسوسی ایٹڈ پریس سے وابستہ ہے اور 1983ءسے سزائے موت پانے والے قیدیوں کے متعلق رپورٹنگ کر رہا ہے۔ جب ٹیکساس کی اس جیل میں کسی کو سزائے موت دی جاتی ہے تو وہ سزائے موت کے اس چیمبر میں موجود ہوتا ہے جہاں قیدیوں کو زہریلا انجکشن لگا کر موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے۔ مائیکل کا کہنا ہے کہ” اپنے آخری لمحات میں کئی قیدی روتے اور چیختے چلاتے ہیں، کئی لطیفے سناتے ہیں، کئی غیرملکی زبانوں میں گفتگو کرتے ہیں، کئی کوئی نظم پڑھتے یا کوئی گیت گنگناتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بالکل خاموش ہوتے ہیں اور وارڈن جب ان سے پوچھتا ہے کہ ”تم کوئی آخری بیان دینا چاہتے ہو؟“ تو اس کے جواب میں بھی کچھ نہیں بولتے، وہ اتنے خاموش رہتے ہیں کہ جیسے انہوں نے کچھ سنا ہی نہیں۔“
مائیکل کا کہنا ہے کہ ”400لوگوں کی موت آنکھوں سے دیکھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ زندگی انتہائی قیمتی چیز ہے جس کا کوئی مول نہیں۔جب یہ لوگ مر رہے تھے تو میں چند فٹ کے فاصلے پر موجود تھا۔ میں نے ان کا پچھتاوا دیکھا، ان کے لواحقین کا درد دیکھا، میرے ذہن میں اس تشدد کا خیال آیا جس کے زیراثر انہوں نے کسی شخص کو قتل کر دیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ یہ لوگ چند فٹ کے فاصلے پر میرے سامنے باتیں کر رہے تھے اور پھر چند منٹ کے بعد وہ اس دنیا سے چلے گئے۔ اپنے اس سارے کیریئر پر نظر دوڑاﺅں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ زندگی کتنی قیمتی ہے اور کسی شخص سے اس کی زندگی کتنی جلدی چھینی جا سکتی ہے۔ کتنی جلدی ایک جیتا جاگتا انسان مردہ ہو جاتا ہے۔“