ہماری کشمیر پالیسی بے اثر کیوں؟

ہماری کشمیر پالیسی بے اثر کیوں؟
ہماری کشمیر پالیسی بے اثر کیوں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے کشمیری بھائیوں کے لئے ہم جو کچھ کر رہے ہیں، وہ شاید ان کے نزدیک طفل تسلی کے سوا کچھ نہیں۔ اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ کشمیریوں کے حق ِآزادی کی خاطر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کریں گے، دوسری طرف ہم نے اسلام آباد کی شاہراہِ کشمیر کا نام سری نگر روڈ رکھ دیاہے۔ ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی فرماتے ہیں کہ ہم سری نگر کو آزاد ضرور کرائیں گے۔ کیا ایسی باتوں سے بھارت پر کوئی اثر ہوتا ہے، کیا ایک منٹ کی خاموشی کو نریندر مودی جیسا جارح کسی خاطر میں لائے گا۔ کیا ہماری وزارتِ خارجہ کشمیر پر جو ڈھیلا ڈھالا موقف رکھتی ہے، اس کے دنیا میں کبھی مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں؟کشمیر میں بھارت نے ظلم کے پہاڑ توڑ دیئے، کشمیریوں کو  بارہ مہینوں سے محبوس رکھا ہوا ہے، آزاد دنیا تک ان کی رسائی نا ممکن بنا دی ہے، کیا اتنے بڑے مظالم پر ہم دنیا کو متحرک کرنے میں کامیاب رہے ہیں؟ کیا کسی بڑی طاقت یا بڑے فورم پر کشمیر کے لئے دیگر ممالک نے آواز اٹھائی ہے؟ یہ سب کچھ تو ہم پچھلی کئی دہائیوں سے کر رہے ہیں۔ 5  فروری کو یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہیں،پورے ملک میں چھٹی کرتے ہیں، ریلیاں نکلتی ہیں، سیمینار اور جلسے ہوتے ہیں،ان کا رتی بھر اثر دنیا پر ہوتا ہے اور نہ بھارت پر۔ اب ہم نے پانچ اگست کوچُنا ہے، ایک منٹ کی خاموشی ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے یا پھر وہ نغمہ جو آئی ایس پی آر نے بنایا ہے۔ اس سارے عمل سے سوائے خود کو تسلی دینے کے اور کیا حاصل ہوگا، کیا کوئی بتا سکتا ہے؟


اس تلخ حقیقت کو مان لینا چاہئے کہ بھارت قابض، ظالم اور جارح ہونے کے باوجود دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہا ہے کہ کشمیر میں امن ہے اور سارا پروپیگنڈہ پاکستان کر رہا ہے۔ بھارت اپنے بڑے حجم کی وجہ سے دنیا کے لئے سونے کی چڑیا ہے۔ کوئی اس سے بگاڑنا نہیں چاہتا۔ یورپ یا امریکہ کے لئے کشمیر اتنا اہم نہیں جتنا بھارت ہے۔ پھر ماضی میں ہماری پالیسیوں نے بھی بھارت کو فائدہ پہنچایا۔ وہ دہشت گردی کا ڈھنڈورا پیٹ کر مظلوم بن گیا۔ اس نے پاکستان پر جہادی تنظیموں کی امداد کے الزامات لگائے، بات اس حد تک بڑھانے میں کامیا ب رہا کہ اقوامِ متحدہ اور خود امریکہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے لگے کہ وہ اپنے علاقے سے دہشت گردی کو روکے۔ اس نے خود اپنے شہروں میں حملے کئے اور ان کا الزام پاکستان پر دھرا، پاکستان کو اپنی صفائی دینے کے لئے مدافعتی پوزیشن اختیار کرنی پڑی۔ کشمیر پالیسی میں تسلسل نہ ہونے کی و جہ سے دنیا کے سامنے ہم یہ اہم ترین مسئلہ اُجاگر کرنے میں ہمیشہ ناکام رہے۔ اس بات کو تسلیم کر لینا چاہئے، ہم نے کبھی جہاد سے کشمیر آزاد کرانے کی پالیسی اختیار کی اور کبھی سفارتی جدوجہد سے اسے حاصل کرنے کا راستہ اختیار کیا، کبھی جنگ کی طرف گئے اور کبھی پر امن طریقے سے کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھائی۔ دوسری طرف بھارت نے اپنی ایک ہی پالیسی رکھی کہ کشمیر پر قبضہ ہر صورت برقرار رکھنا ہے، اسے مزید مستحکم کرنا ہے، نریندر مودی نے آکر تو ساری حدیں پار کر دیں۔ کشمیر کی خود مختار حیثیت کو ختم کر کے اسے بھارت میں ضم کر دیا۔ یہ اتنا بڑا واقعہ تھا کہ اس پر دنیا کو بآسانی جھنجوڑا جا سکتا تھا، مگر ہم اس بار بھی بھارت کو بے نقاب نہ کر سکے، حالانکہ اس نے مقبوضہ وادی میں کشمیر یوں کو گھروں میں محبوس کر کے ان کی زندگی کو عملاً قید خانہ بنا دیا تھا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔


وزیر اعظم عمران خان نے جب اقوامِ متحدہ میں خطاب کرتے ہوئے کشمیر کے بارے میں آواز اٹھائی تھی تو کافی حد تک عالمی ضمیر پر طاری بے حسی کی برف پگھلی تھی۔ تھوڑی بہت ہلچل بھی ہوئی تھی اور سلامتی کونسل کی کشمیر کمیٹی نے اس مسئلے کو ایک عالمی متنازعہ مسئلہ قرار دیا تھا۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوا، ہماری وزارتِ خارجہ نے فالو اپ کے طور پر کیا کیا، کتنے پارلیمانی وفود مختلف ممالک میں بھیجے گئے۔ دنیا میں کشمیریوں کا مقدمہ لڑنے کے لئے کیا کچھ کیا گیا؟کچھ بھی تو نہیں ہوا، ہاں البتہ ہم کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ضرور تبدیل کرتے رہے۔ یہ چیئرمین کیا کرتے ہیں کسی کو کچھ معلوم نہیں۔صرف پاکستان یا آزاد کشمیر میں جا کر ایک دو بیان، ایک دو جلسے کرنے سے کیا ہوتا ہے؟ بھارت ہماری ان باتوں کو کتنا سنتا ہے؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ آئے روز لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کر کے ہمارے نہتے شہری شہید کرتا ہے۔ وزارتِ خارجہ میں بھارتی ہائی کمشنر کو طلب کر کے ایک احتجاجی مراسلہ تھمایا جاتا ہے۔

ابھی اس مراسلے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی ہوتی کہ بھارت کی طرف سے ایک نئی خلاف ورزی سامنے آ جاتی ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ کشمیر کی جدوجہدِ آزادی کو کشمیریوں نے اپنے لہو سے زندہ رکھا ہوا ہے۔ ہم ڈھنگ سے ان کی مدد بھی نہیں کر سکے۔ کیا یہ وقت کی ضرورت نہیں کہ دنیا بھر کے پاکستانی سفارت خانوں میں کشمیر ڈیسک قائم کئے جائیں۔ جن کے ذریعے کشمیر میں بھارت کے مظالم کو سامنے لایاجائے؟وہاں کے دانشوروں، صحافیوں، سیاستدانوں اور تھنک ٹینک سے وابستہ افراد کو بتایا جائے کہ بھارت اسی لاکھ نہتے کشمیریوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھے ہوئے ہے اور ان پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ صرف اسلام آباد میں بیٹھ کر ایک دو بیان جاری کر دینا کیا معنی رکھتا ہے؟ دوسری طرف بھارت دنیا بھر میں اپنا یہ جھوٹا چورن بیچ رہا ہے کہ بھارت کو کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ ہمسایہ ملک کشمیریوں کو دہشت گردی کے لئے امداد فراہم کرتا ہے۔ اس ضمن میں کئی جھوٹی کہانیاں اس کے پاس موجود ہیں، جن میں ممبئی حملوں کا رسوائے زمانہ ڈرامہ بھی شامل ہے۔


سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں ایک منٹ کی خاموشی کسی بڑے مذاق سے کم نہیں۔ ایک نغمہ بنا دینے سے اگر کوئی سمجھتا ہے کہ کشمیریوں کو بہت بڑا حوصلہ ملے گا، تو یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ کشمیریوں کے حوصلے کبھی بھی ماند نہیں پڑے۔ بھارت کو سر سے پاؤں تک اگر کسی نے پریشان کر رکھا ہے تو وہ کشمیری عوام اور مجاہدین ہیں۔ وہ بھارت کی 9 لاکھ فوج کو بھی جوتے کی نوک پر رکھے ہوئے ہیں۔ کئی مہینوں کی قید و بند بھی ان کے حوصلے پست نہیں کر سکی۔ وہ آج بھی پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں اور اپنے گھروں پر پاکستانی پرچم لہراتے ہیں۔ ان کی یہ جدوجہد آزادی کسی جبر، کسی خوف یا کسی فوج کے ذریعے ختم نہیں کی جا سکتی۔ انہیں ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ دنیا تک ان کی آواز پہنچائی جائے۔ یہ کام پاکستان کو کرنا ہے۔ اس کے لئے ایک مربوط حکمتِ عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ خود وزیر اعظم عمران خان کو اس کے لئے دنیا کے مختلف ممالک میں جانا ہوگا، صرف اسلام آباد میں بیٹھ کے بھارت کو سفارتی محاذ پر کشمیر کے حوالے سے بے نقاب کرنا ممکن نہیں۔

مزید :

رائے -کالم -