بیروت میں قیامت خیز دھماکہ، 100 افراد جاں بحق ،چار ہزار سے زائد زخمی ، متعددلا پتہ
بیروت(ڈیلی پاکستان آن لائن )گزشتہ روز شام میں لبنان کے دارلحکومت بیروت میں قیامت خیز دھماکے نے پوری دنیا کو ہی ہلا کر رکھ دیاہے جس میں اب تک اطلاعات کے مطابق 100 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں جبکہ چار ہزار سے زائد زخمی بتائے جارہے ہیں ، اس کے علاوہ سینکڑوں افراد کا ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہاہے ، بیروت کے ہسپتالوں میں گنجائش ختم ہو چکی ہے ۔
تفصیلات کے مطابق یہ دھماکہ بیروت کی بندرگاہ کے علاقے میں ایک گودام میں ہوا اور یہ اتنا شدید تھا کہ پورا شہر ہل کر رہ گیا۔دھماکے سے قبل بندرگاہ میں متاثرہ مقام پر آگ لگی دیکھی گئی جس کے بعد ایک بڑا دھماکہ ہوا اور جائے حادثہ پر نارنجی رنگ کے بادل چھا گئے۔دھماکے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ اس کی آواز کم از کم دس کلومیٹر دور تک سنی گئی۔ اس دھماکے سے بندرگاہ اور اس کے نواح میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اور کاروباری اور رہائشی عمارتیں اور گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔
دھماکے کی ویڈیوز اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں اور بیروت ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بن چکا ہے ۔ملک کے وزیراعظم نے اس حادثے پر بدھ سے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ بدھ کو لبنان کی وفاقی کابینہ کا اجلاس بھی طلب کیا گیا ہے اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ ملک میں دو ہفتے کے لیے ہنگامی حالت نافذ کی جائے۔
بی بی سی کا کہناہے کہ یہ دھماکہ بظاہر ایک گودام میں موجود امونیم نائٹریٹ کھاد کے ذخیرے میں ہوا ہے تاہم اس سلسلے میں سرکاری طور پر ابھی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔لبنانی وزیراعظم عون مائیکل نے کہا ہے کہ یہ ناقابل قبول ہے کہ ویئر ہاوس میں 2750 ٹن امونیم نائٹریٹ موجود تھا۔انھوں نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر پیغام میں لکھا کہ ’میں تب تک چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک مجھے اس واقعے کے ذمہ دار کا نہ پتہ چل جائے تاکہ اس کا محاسبہ کیا جائے اور بہت سخت سزا دی جائے۔‘
اس سے قبل لبنان کے سکیورٹی چیف کا کہنا ہے کہ یہ دھماکہ اس علاقے میں ہوا ہے جہاں بڑی تعداد میں بارودی مواد موجود تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ مواد چھ سال سے یہاں پڑا ہوا تھا۔لبنانی صدر نے مزید کہا کہ ان کی حکومت ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے 100 ارب لیرا جاری کر رہی ہے جو کہ ساڑھے چھ کروڑ ڈالر کے مساوی رقم بنتی ہے۔
جائے وقوعہ سے سامنے آنے والی ویڈیوز میں دھماکے سے پہلے آگ اور دھویں کے بادل اٹھتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔امدادی کارروائیاں ابھی بھی جاری ہیں اور ریسکیو ورکرز کا کہنا ہے کہ انھیں خدشہ ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔حکام نے کہا ہے کہ تفتیش شروع کر دی گئی ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ دھماکے کی وجہ کیا تھی۔اس کے علاوہ ملک میں ایک سیاسی تناو¿ کی بھی صورتحال ہے کیونکہ جمعے کو سابق وزیر اعظم رفیق حریری کو 2005 میں قتل کیے جانے والے ٹرائل کا فیصلہ بھی آنا ہے۔