آج 5 اگست ہے۔۔۔۔
کیا آپ کو یاد ہے کہ آج سے دو سال قبل 5 اگست 2019 کو بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کردی تھی. اقوام متحدہ کی جنرل کونسل و سلامتی کونسل اور جنیوا کنونشن سمیت تمام عالمی قوانین کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھ کر بھارت نے کشمیریوں کے ساتھ ظالمانہ، جابرانہ اور غیر انسانی سلوک کی تمام حدیں پار کردیں.
بعض لوگ کہتے ہیں کہ بھارت کے زیرقبضہ مقبوضہ کشمیر پہلے بھی تو ان کے ہی کنٹرول میں تھا اب اگر انہوں نے 370 کا خاتمہ کرکے اس کی خصوصی حیثیت ختم کردی ہے تو کیا فرق پڑتا ہے؟؟؟ ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ فرق پڑتا ہے اور بہت زیادہ فرق پڑتا ہے.۔۔پہلے کشمیر اپنی ایک خصوصی حیثیت کے ساتھ بھارت کے قبضے میں تھا.۔۔ وہاں بھارت کے قوانین نافذالعمل نہیں تھے۔۔. اس کو ریفرنڈم کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا تھا.۔۔۔ وہاں بھارت کے کسی بھی شہری کو بسنے کی اجازت نہیں تھی.
5 اگست 2019ء کو بھارت نے عالمی قوانین کی دھجیاں اڑا کر، کشمیریوں کے حق خودارادیت کو دبا کر، اقوام متحدہ کی قراردادوں کو جلا کر اور انسان حقوق کے علمبرداروں کے منہ پر طمانچہ مار کر کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی.۔۔۔ وہاں پر بھارت کے قوانین نافذ کردیے.۔۔ بھارت سے انتہا پسند ہندوؤں کو لاکر بسانا شروع کردیا جو ابھی تک جاری ہے.۔۔
کشمیر کے نوجوانوں کو جیلوں میں ڈالنے، بچوں کو ظلم و تشدد سے مارنے، عورتوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر ان کی عصمت دری کرنے اور اپنے حق کے لیے بولنے والوں کو جعلی مقابلوں میں شہید کرنے کا سلسلہ تیز کردیا. لاک ڈاؤن کرکے، انٹرنیٹ بند کرکے اور ان کا ہر طرح کا باقی دنیا سے رابطہ منقطع کرکے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا شروع کردیے جو ابھی تک جاری ہیں.۔۔ بھارت نے بہت بڑی سازش کے زریعے یہ اقدامات اٹھائے ہیں تاکہ یہاں کشمیریوں کی نسل کشی کرکے اور غیر کشمیریوں کو یہاں پر لا آباد کرکے وہاں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلا جاسکے تاکہ اگر کل کو یہاں ریفرنڈم بھی کروانا پڑ جائے تو بھارت اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوسکے۔۔.
آج اس سانحہ عظیم کو پورے دو سال گزرچکے ہیں مگر پاکستان میں اس دن کی اہمیت کو نظرانداز ہوتے دیکھ کر دکھ ہورہا ہے کہ کیا کوئی قوم اتنی لاپرواہ ہوسکتی کہ کہ وہ اپنی شہ رگ پر دشمن کا قبضہ ہونے کے باوجود اطمینان سے سوتی رہے؟؟؟ چاہئے تو یہ تھا کہ آج کے روز سرکاری سطح پر بڑے پیمانے پر پروگرام کیے جاتے، تقریبات منعقد ہوتیں، دنیا بھر کے سفیر مدعو ہوتے اور انٹرنیشنل میڈیا کو بلایا جاتا تاکہ دنیا کو پیغام جاتا کہ پاکستانی قوم کشمیریوں پر ہونے والے ظلم پر دنیا سے توقعات رکھتی ہے۔۔.
ماہ اگست میں قوم کے قومی و ملی جذبے کے مزید گرمایا جاتا اور وہ اپنی آزادی کے شادیانے بجانے کے ساتھ ساتھ مظلوم کشمیریوں کی بے بسی کے نوحے بھی گاتی.۔ آج کے دن بھارت کے اس فعل پر ایسا احتجاج ریکارڈ کروایا جاتا کہ اس کی حدت دنیا کے آخری کونے تک محسوس کی جاتی.۔۔
سفارتی سطح پر پاکستان کو اپنا جائز اور قانونی موقف منوانے کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں.۔۔ سفارتی ناکامیوں پر نظر دوڑائیں توکلیجہ حلق کو آتا ہے۔۔. افسوس کہ دو سال گزر گئے مگر ہم ایک بھی سلامتی کونسل کا اجلاس نا بلا سکے.۔۔ چاہئے تو یہ تھا کہ جب بھارت نے یہ جارحیت کی تھی وزیراعظم عمران خان صاحب اپنے وزیرخارجہ کے ہمراہ نکلتے اور دنیا بھر کو جا کر پاکستان کا موقف سمجھاتے مگر انہوں نے جمعہ کے جمعہ اپنی قوم کو آدھا گھنٹہ کھڑے رہنے کا مشورہ دے کر سمجھا کہ وہ اپنا فرض ادا کرچکے.۔۔
ہماری قوم بھی آدھا گھنٹہ کھڑا ہو کر ایسی بیٹھی کی بیٹھی ہی رہ گئی. سفارتی محاذ پر اس قدر سرد مہری کا مظاہرہ کیا گیا کہ ابھی تک کشمیر سے مکمل کرفیو نا اٹھوایا جاسکا.۔۔عالمی میڈیا تو وہاں تک رسائی نا دلوائی جاسکی.۔۔ عالمی فورمز پر باقاعدہ اس مسئلہ پر کوئی اقدامات نا کروائے جاسکے۔۔. بات مذمت سے ایک قدم بھی آگے نا بڑھائی جا سکی.
تقسیم کے وقت باؤنڈری کمیشن نے جو کشمیر کے ساتھ بددیانتی کی اس کی ابھی تک کشمیری سزا بھگت رہےہیں.۔۔ تقسیم کے تمام تر اصولوں کو پامال کرکے کشمیر کو بھارت کی جھولی میں پھینک دیا گیا.۔۔ مزید "نہلے پر دھلہ" یہ کہ بھارت کو کشمیر دینے کے لیے اکثریتی مسلم آبادی والے ضلع گورداس پور کو بھی بھارت کی جھولی میں پھینک دیا گیا کیونکہ اس کے بغیر بھارت کو کشمیر جانے کے لیے کوئی زمینی راستہ نہیں لگتا تھا. کشمیر زمینی طور پر مکمل پاکستان کے ساتھ منسلک ہے.۔۔ اس کی واحد ریلوے لائن بھی سیالکوٹ سے گزر کر کشمیر جاتی تھی. سیالکوٹ اور راولپنڈی کے راستے سے تمام تجارت اور خط و کتابت ہوتی تھی. کشمیر 80 فیصد سے زائد مسلم آبادی والا خطہ تھا مگر تقسیم کے ان تمام اصولوں کی دھجیاں اڑا کر کشمیر کے مفرور مہاراجہ سے الحاق نامے پر دستخط لے لیے گئے اور کشمیر بھارت کے قبضے میں دے دیا گیا...
تقسیم کے وقت سوا پانچ سو ریاستوں کو یہ حق دیا گیا کہ اس کا حاکم جس کے ساتھ چاہے الحاق کرسکتا ہے مگر ریاست مناوادار کے حاکم غلام محی الدین نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تو اس کا الحاق تسلیم نہیں کیا گیا. غلام محی الدین اس ریاست کا عرصہ 29 سال سے حاکم تھا اور لوگ اس سے خوش بھی تھے.ریاست حیدر آباد کے حاکم نے پاکستان سے الحاق کرنا چاہا مگر اس کو ڈرا دھمکا کر اس کا الحاق بھارت سے کردیا گیا کیونکہ یہ ہندوستان کی سب سے امیر ریاست تھی.
ریاست جودھ پور کے حاکم کی پہلی ترجیح آزادی و خودمختاری جبکہ دوسرا آپشن پاکستان تھا جبکہ لاڑد ماؤنٹ بیٹن اور سردار پٹیل کی دھکیاں اس کے آڑے آگئیں.۔۔ریاست جوناگڑھ نے باضابطہ طور پر پاکستان کے ساتھ منسلک ہونے کا فیصلہ کیا جس کو پاکستان نے تحریری طور پر قبول کرلیا لیکن بھارت نے اعتراض کیا کہ چونکہ جوناگڑھ کا بھارت کے ساتھ جغرافیائی تعلق ہے اور اس ریاست کی 80 فیصد آبادی ہندو ہے اس لیے اس کا الحاق بھارت سے کردیا گیا.۔۔
کشمیر کی تقسیم کرتے وقت کی تمام تر حقائق جھٹلا دیے گئے اور تمام اصول پس پشت ڈال دیے گئے. کشمیر مکمل طور پر پاکستان کے ساتھ منسلک ہونے، اس کی 80 فیصد آبادی مسلمان ہونے، 80 لاکھ روپے میں کشمیر کو خریدنے والے ڈوگروں کے خلاف 16 سال سے وہاں تحریک آزادی چلائی جانے اور وہاں کے مہاراجہ کے مفرور ہونے کے باوجود کشمیر کا الحاق ایک متنازعہ ترین الحاق نامے کی وجہ سے بھارت سے کردیا گیا جو تاریخ کا بدترین ظلم ہے.۔۔
پاکستان کشمیر کے معاملے میں خدارا سستی ترک کرکے اس کا مقدمہ ہنگامی بنیادوں پر لڑنے کا آغاز کرے. عالمی برادری کو سفارتی طور پر مجبور کرے کہ وہ بھارت کو مجبور کریں کہ کشمیریوں کا اپنی آزادی کا فیصلہ خود کرنے دیا جائے.
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔