مصنف : عمران الحق چوہان
قسط:149
قلعے کے پچھلے حصے میں ایک چوبی بالکنی تھی جہاں سے نیچے دریا تک ایک سیدھی چٹان دکھائی دیتی تھی۔قلعے کی دیوار سے اچھے خا صے فا صلے پر مینار جیسی چٹان کاایک لمبا ٹکڑا تھا جیسے پہاڑ میں دراڑ پڑنے سے علیٰحدہ ہو گیا ہو۔ اوپر سے یہ چٹان بس اتنی چوڑی تھی کہ کوئی آدمی بہ مشکل دونوں پاؤں جوڑ کر اس پر کھڑا ہو سکتا تھا۔ اس مینار نما چٹان کی بھی ایک کہانی تھی۔ جاوید کا کہنا تھا کہ ملزم کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے قلعے کی چھت سے،لگ بھگ مینار ِ پاکستان جتنی اونچی اس چٹان پر کودنا ہوتا تھا۔ اگر ملزم اس بلندچٹان کے انتہائی مختصر اور نا ہموار فرش پر اپنا توازن قائم کرتے ہوئے ٹھہر پاتا (جو ایک نا ممکن کام تھا) تو بے گناہ قرار پاتا اور اگر توازن کھو کر سیکڑوں فٹ نیچے گر جاتا (جیسا کہ ہمیشہ ہوتا ہوگا)تو گناہ گارسمجھا جاتا۔ نیچے پتھریلی چٹانوں پر گر کر مجرم کے پرخچے اڑ جاتے ہوں گے اور منصفین کے انصاف کا بول بالا رہتا ہوگا۔ مجھے تو اس بلندی سے نیچے جھانکتے ہوئے بھی خوف آتا تھا۔ ہندوؤں کی اگنی پرکشا اور رومیوں کے بھوکے شیروں سے لے کر ہنزہ کی اس چٹان تک بادشاہوں کی ایک گنجلک تاریخ ہے جس میں محکوم اور کمزورانسانوں پر بڑی سختی گزری ہے۔ ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم۔۔۔
چھتوں کا رومان:
جاوید صا حب قلعے کا ماضی اور ہنزہ کی تاریخ و روایات پر روشنی ڈالتے ہوئے ہم سے آگے تھے اور ہم ننھے میمنوں کی طرح ان کے پیچھے پیچھے ہمہ تن گوش اور ہمہ تن چشم چلتے تھے۔
کمروں اور غلام گردشوں سے ہوتے ہم قلعے کی چھت پر آ گئے۔ کسی بھی عمارت کی چھت سے جو منظر نظر آتا ہے وہ ہمیشہ معمول سے ہٹ کر ہوتا ہے۔آپ جہاں بھی رہتے ہیں کبھی اس شہر اور گلی کو چھت سے دیکھیں۔یہ منظر روز کی زندگی سے یک سر مختلف ہوگا۔ مکان، گلیاں اور گلیوں میں چلتے پھرتے لوگ، بازار اور بازاروں میں بھاگتی مو ٹریں، ریڑھیاں، چہل پہل اور اس چہل پہل سے اٹھتاایک مبہم اور مدھم سا شور۔ سب کچھ بدل کر بہت رومانی ہو جاتا ہے۔ ارد گرد دیکھیں تو دوسرے گھروں کی چھتوں کا سلسلہ ہر طرف پھیلا دکھائی دیتا ہے۔ عام طور پر گھروں کے ڈیزائن اور آرائش میں بہت فرق ہوتا ہے بلکہ اہتمام سے فرق رکھا جاتا ہے لیکن چھتیں ایک سی سادہ، کشادہ اور بے رنگ ہوتی ہیں۔ تاروں اور منڈیروں پر سوکھتے رنگ برنگے کپڑے۔ منڈیروں سے نیچے گلی میں جھانکتی لڑکیاں۔ پلاسٹک کی بنی پانی کی نیلی ٹینکیاںاور ایک ممٹی۔ وہی ممٹی جس پر کبھی چیلیں آکر بیٹھتی تھیں اور پھر طلسم کار منیر نیازی ان پر شعر کہتا تھا۔
بیٹھی ہوئی ہے دھوپ میں ممٹی پہ ایک چیل
گلیاں اجڑ گئی ہیں مگر پاسباں تو ہے
چھوٹے شہروں کی چھتیں بڑے شہر کی چھتوں سے زیادہ آباد ہوتی ہیں۔ ان کی رونق موسم کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہے۔ سردیوں کی دھوپ میں بال کھولے کنگھی کرتیں، آپس میں باتیں کرتیں، مولیاں اور گاجریں کچر کچر کھاتیں یا سبزی کا ٹتیں توا ناعورتیں، سردی سے ٹھٹھرے جسموں میں دھوپ سے حرارت بھرتے بزرگ۔
گرمیوں کی کڑ کتی دھوپ میں ڈور تھامے آسمان میں ڈولتی اپنی اور دوسروں کی پتنگوں پر نظر جمائے”بو کاٹا‘ ‘ کے نعرے لگاتے، ننھے لڑکے، جن کی ماؤں کو غصہ آتا ہے کہ ان کے لال کا رنگ دھوپ سے کالا ہو رہا ہے۔ ان بے چاری ماؤں کو پتا نہیں ہوتا کہ خوبصورتی گورے یا کالے رنگ میں نہیں خوشی کے رنگ میں ہوتی ہے۔ انہی چھتوں کے بیچ کہیں کہیں درختوں کی ہریاول میں مسجدوں کے سفید میناراور تا حدِ نگاہ پھیلی ہوئی آسمان کی وسعت جس میں بھری سفیددھوپ ، اپنے خیال میں گم پر کھولے تیرتی چیلیں اور شہروں کا گرد و غبار مل کر اس میں افسردگی کی آمیزش کردیتے ہیں۔ اس افسردہ سمندر میں ایک دائرے میں گھومتے کبوتروں کے غول پروں کو پھیلا کر غو طہ لگاتے ہیں تو اداسی میں ایک مسکراہٹ سی گھل جاتی ہے۔انہی چھتوں پر برامدے میں دیوار کے ساتھ کھڑی چارپائیاں جن پر رات کو لوگ اپنے اپنے خواب اور خدشے لے کر سوئے جاگے تھے۔ گرمیوں کی چلچلاتی دوپہروں میں ان چھتوں کی سلگتی مٹی سے اٹھتی ایک خا ص قسم کی گرم مہک ۔ شام کو جب چارپائیاں بچھانے سے پہلے ان تپتی چھتوں پر پانی کا چھڑکاؤ ہوتا ہے تو یہ مٹی کی بُو کورے پنڈے کی سوندھی سوندھی خوش بو میں بدل جاتی ہے۔
اور پھر گرمیوں کی رات میں پاس پاس بچھی چارپائیاں۔چھتوں پر لوگ سوتے میں بھی ایک دوسرے کے پاس رہتے ہیں۔یہ نہیں کہ اپنے کمرے میںبند ہوئے اور سب رشتے پرائی ویسی(privacy) کے دروازے سے باہر رہ گئے۔ جوں جوں زمین کی روشنیاں بجھتی ہیں آسمان جا گتا جاتا ہے۔ بستروں کی ٹھنڈی چادروں پر لیٹ کر آسمان پر ستاروں کے افق تا افق تنے آشیانے کو دیکھنا جس کی تا بندگی رات کے گزرتے لمحوں کے ساتھ بڑھتی ہی جاتی ہے۔ اور جن راتوں میں چاند پر جوبن ہوتا ہے وہ کچھ اور ہی جادو اور رومان بھری راتیں ہوتی ہیں۔ رات بھیگتی ہے تو ہوا کا ٹھنڈا ہاتھ کروٹیں بدلتے، دن بھر کے تپتے سلگتے جسموں کو یوں سہلاتا ہے کہ نیند رگ و پے میں ایک ابدی سرور کی طرح اتر نے لگتی ہے اور صبح آنکھ کھلتی ہے تو جسم پھول سا ہلکا اور آسودہ ہوتا ہے (میں ائیر کنڈیشنر کی مصنوعی ٹھنڈک میں سو کر صبح اٹھوں تو لگتا ہے کسی نے تشدد کا نشانہ بنا یا ہے۔ نیند نے دن بھر کی جس تھکاوٹ کو اتارنا تھا وہ جسم پر پلستر کی طرح چڑھ کر پورے پنڈے کو اکڑا دیتی ہے۔) اورپھرصبح کی کومل روشنی میں جاگتا آسمان۔۔۔ جس میں کوّوں، چڑیوں، طوطوں کے چہکتے جھنڈاورابابیلوں کے غول جو آسمان کی وسعتوں میں غوطے لگاتیں، اپنی مرکی دار آوازمیں چہچہاتیں ہیں تو سلامت علی خاں، بڑے غلام علی خان اور آپا لالہ موسے والی یعنی ملکۂ موسیقی روشن آرا بیگم یاد آنے لگتے ہیں۔(جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔