علامہ عارف الحسینی رحمتہ اللہ علیہ، ایک سیاسی لیڈر 

Aug 05, 2022

سید منیر حسین گیلانی


 آج شہید علامہ عارف حسین الحسینی رحمتہ اللہ علیہ کی 34ویں برسی منائی جارہی ہے۔امت اسلامیہ پاکستان اپنے قائد کی رہنمائی سے 5۔ اگست 1988ء کو محروم ہوئی۔جب سفاک قاتل نے جامعہ معارف الاسلامیہ پشاور میں انہیں نماز فجر کے وقت شہید کردیا۔علامہ عارف الحسینی 25نومبر 1946ء کوسابقہ قبائلی ایجنسی اورموجودہ ضلع کرم کے صدر مقام پارا چنار اورافغانستان کی سرحد سے چند کلومیٹر دور واقع گاؤں پیواڑ کے معزز حسینی سادات خاندان میں پیدا ہوئے۔ علامہ عارف الحسینی وہ قائد ہیں جنہوں نے سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھنے والی ملت جعفریہ کو عملی سیاست میں شمولیت پر آمادہ کیا۔وہ وسعت نظر، سیاسی بصیرت اورجمہوری سوچ کے مالک، جمود کو توڑنے اور فوری قوت فیصلہ رکھنے والے سیاسی و مذہبی رہنما تھے۔میری ان سے پہلی ملاقات قصر زینب بھکر میں 10 فروری 1984ء کو ہوئی، جب انہیں مفتی جعفر حسین رحمتہ اللہ علیہ کی وفات کے بعد تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ اس وقت ان کی عمر 38 سال تھی۔ وہ تقریبا ساڑھے چار سال قیادت اور نمائندہ ولی فقیہہ کے منصب پر فائز رہے۔پھر 42سال کی عمر میں استعماری قوتوں کے خریدے گئے قاتل کے ہاتھوں شہید کرا دیئے گئے۔قاتل پکڑے گئے، اعتراف جرم بھی کیا، مگر ان کے مقدمہ کا نتیجہ بھی وہی نکلا جو باقی شہداء کے مقدمات کا ہوا مگر یہ بات واضح ہو گئی کہ استعمار کسی ایسی اسلامی قیادت کو برداشت کرنے کو تیار نہیں جس کی اپنی سوچ ہو۔ وہ اتحاد امت کی بات کرے، ملی شعور پیدا کرے، امام خمینی کا عاشق ہو،غریبوں کے انصاف پر مبنی حقوق، مساوات اور ترقی پسنداسلامی انقلاب کی دعوت دے۔


 عملی سیاست میں شمولیت کے حوالے سے مجھے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پنجاب کے سیاسی سیل کامسؤل رہنے کا موقع ملا۔اس دوران شہید علامہ عارف الحسینی سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔وہ سیاست کو حصول اقتدارکی بجائے، اسلامی نظام کے نفاذ اور جمہوری و شہری حقوق کے تحفظ کے لئے سازگار سمجھتے تھے مگر ایسا اسلامی نظام جس پر تمام مکاتب فکر کا اتفاق ہو۔ وہ برملا کہتے تھے کہ اسلام کی پیروی کرنے والے شیعہ سنی بریلوی دیوبندی حنبلی مالکی میں تقسیم لیکن سب فرقے امت محمدی کا حصہ اور ہمارے لیے قابل احترام ہیں مگرکسی ایک فرقے کے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی آئین اجازت نہیں دیتا۔پاکستان ہمارا اسلامی جمہوری ملک ہے۔جس میں اسلامی نظام کا نفاذ ہر کلمہ گوکی خواہش ہے مگر اس پر تمام مکاتب فکر کے درمیان اتفاق رائے ضروری ہے،جیسے 1951ء میں 31 علماء کے 22 نکات میں تھا۔
اس میں شک نہیں کہ جنرل ضیاء الحق کی طرف سے اسلامائزیشن کے نعرے نے اس کے اقتدار کو طول تودیا مگر ملک میں مذہبی لسانی علاقائی فرقہ وارانہ تصادم کی راہ ہموارہوئی۔جس کا قوم آج بھی شکار ہے۔ضیاء الحق کی آمریت کو چیلنج کرنے کے لئے علامہ عارف الحسینی نے تحریک بحالی جمہوریت یعنی ایم آر ڈی کی حمایت کی اور مارشل لاء کے خلاف احتجاجی تحریک میں جمہوری قوتوں کا ساتھ دیا۔انہوں نے نوابزادہ نصراللہ خان، مولانا فضل الرحمن اور دیگر سیاسی قائدین سے بھی ملاقاتیں کیں۔


ٹی این ایف جے کے سینیر نائب صدر علامہ ساجد علی نقوی کی زیر نگرانی سیاسی سیل میں مجھے بھی پنجاب کی نمائندگی کا موقع ملا۔ میں ایم آر ڈی کے جلوسوں اور جلسوں میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی نمائندگی کرتا تھا۔ جس سے ایم آر ڈی کو افرادی قوت بھی میسر ہوئی اور بزرگ سیاستدان نصراللہ خان مرحوم کے اتحادی ایجنڈے کو تقویت بھی ملی کہ وہ مختلف سیاسی نظریات کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کا ڈھنگ جانتے تھے۔ کوئی ذاتی رائے ٹھونسنے کی بجائے جب علامہ عارف الحسینی نے سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو مشاورت کے لیے متعدد اجلاس منعقد ہوئے جن میں مجھے بھی شریک رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔علامہ ساجد علی نقوی کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے مختلف اکابر علماء سے آرا طلب کیں جن میں علامہ گلاب علی شاہ نقوی،علامہ صفدر حسین نجفی، آیت اللہ ریاض حسین نجفی،غلام حسن جاڑا،ملک اعجاز حسین اور دیگر بھی متعدد لوگ شامل تھے، جنہوں نے اتفاق کیا کہ ملی حقوق کے تحفظ کے لئے ٹی این ایف جے کو الیکشن میں حصہ لینا چاہیے۔پھر فیصلے کے بعد جمہوری انداز اپناتے ہوئے تحریک کے تمام اداروں کے فیصلے اور بزرگ علماء کی مشاورت اور رہنمائی سے سیاست میں حصہ لینے کے حوالے سے مختلف سوالنامے تیار کیے گئے۔جن کی روشنی نے ”ہمارا راستہ“ کے نام سے تحریک کا سیاسی منشور تیار کیا گیا۔جس میں پاکستان کے تمام مسائل کا حل دیا گیاہے۔ انشاء اللہ، شہید عارف الحسینی کی یاد گار کے طور پر ہم اسے دوبارہ شائع کروائیں گے۔


ٹی این ایف جے کی سیاست کے حوالے سے تنظیمی اور سیاسی واقعات کو زیادہ تفصیل کے ساتھ میں نے اپنی خود نوشت’سیاسی بیداری‘میں بھی تحریرکیا ہے۔ ملت جعفریہ نے سیاست کو شجرممنوعہ قراردے رکھا تھا۔اس نظریاتی جمود کو علامہ عارف حسین الحسینی نے آکر توڑا اور واضح کیا کہ وہ عملی سیاست میں حصہ لیے بغیر ملی مفادات کا تحفظ نہیں کر سکتے۔اس وقت کچھ مفاد پرست دین کے نام پر کاروبار چلانے والے روایتی لیڈروں اور کمزور فہم و فراست رکھنے والے چند اہل علم حضرات نے بھی عملی سیاست میں شمولیت کی مخالفت کی تھی۔ مگر شہید عارف الحسینی نے اپنا سفر جاری رکھا۔قائد ملت جعفریہ ابھی تنظیمی ادارے اور تنظیمی ڈھانچے منظم کر رہے تھے کہ علامہ عارف حسین الحسینی کومینار پاکستان گراونڈ 6۔جولائی 1987ء کی قرآن وسنت کانفرنس سے تقریبا ایک سال بعد شہید کردیا گیا۔وہ تحریک کے ہنگامی حالات میں رکھے گئے نام”تحریک نفاذ فقہ جعفریہ“ کو بھی بدلنے کا اصولی فیصلہ کر چکے تھے۔مگر ان کی زندگی نے وفا نہ کی۔ پھر ملت جعفریہ کی خوش قسمتی رہی علامہ عارف حسین الحسینی کے بعد ان کے جانشین کے طور پرٹی این ایف جے کی سپریم کونسل اور مرکزی کونسل نے جس مجاہد عالم دین کا انتخاب کیا، وہ مرکزی سینئیر نائب صدر علامہ سید ساجد علی نقوی تھے۔انہوں نے شہید عارف الحسینی کے شروع کیے گئے تنظیمی کاموں کو نہ صرف مکمل کیا،بلکہ بہتر بھی کیا۔ تنظیم کو مضبو ط کیا اور سیاسی پیشرفت میں اعلیٰ اقدامات کئے۔جس کے مطابق 1988ء کے عام انتخابات میں حصہ لیا۔ پھر 1993ء میں سپریم کونسل اور مرکزی کونسل کی منظوری سے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے نام کو مختصر کرکے تحریک جعفریہ رکھ لیا۔


ٹی این ایف جے نے پاکستان عوامی تحریک اور تحریک استقلال کے ساتھ سہہ جماعتی اشتراک عمل،پھر پیپلز پارٹی، تحریک استقلال، مسلم لیگ (قاسم گروپ) کے ساتھ پیپلز ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی اے)، مسلم لیگ ن کے ساتھ سیاسی اتحاداور متحدہ مجلس عمل کی بانی رکن جماعت کے طورپر سیاسی کردار ادا کیا۔ یہ سب علامہ عارف الحسینی کی فکر اور ان کے جانشین علامہ ساجد علی نقوی کی اپنے قائد کے مشن سے لگاو اوراسے پورا کرنے کا عز م تھا۔آج کی اسلامی تحریک پاکستان تو علامہ عارف الحسینی کی سیاسی فکر و بصیرت کا تسلسل ہے، لیکن کافی عرصہ بعد تشکیل پانے والی مجلس وحدت مسلمین بھی خود کو علامہ عارف الحسینی شہید کی سیاست سے ہی منسلک کرتی ہے۔ البتہ مجھے حیرت ہوتی ہے،کہ کچھ کم فہم لوگ علماء کی سیاست اور انتخابی عمل میں شمولیت پر اعتراض کرتے ہیں۔ 
اللہ تعالیٰ نے علامہ عارف الحسینی ظاہری خوبصورتی وجاہت،دراز قدوقامت کے ساتھ نور انیت اور روحانیت سے بھی نوازا تھا۔ وہ زہدو تقویٰ، پرہیز گاری، شب زندہ دار ہونے کے ساتھ ملازمین اور ساتھیوں کا بھی خیال رکھنے والے تھے۔ علامہ عارف الحسینی مجھ سے تین سال چھوٹے تھے۔ مگر میں انہیں آنکھ بھر کر دیکھ نہیں سکتا تھا۔ان سے میری علمی بحث ممکن نہ تھی مگر وہ تنظیمی اور سیاسی معاملات میں رائے کو سن کر کسی فیصلے پر پہنچتے تھے پھر جو فیصلہ ہو جاتا اس پر عمل کرنا ضروری خیال کرتے۔ آج علامہ عارف الحسینی کی شہادت پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ اور عقیدت کا اظہار یہ ہے کہ پاکستان میں ان کے طے کردہ سیاسی اصولوں کے مطابق عادلانہ اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد کو تیز کیا جائے،جس پر تمام مکاتب فکر کا اتفاق ہو۔

مزیدخبریں