کیا پاکستانی معاشرہ سٹاک ہوم سینڈروم ہے؟
نفسیات کی دنیا میں کئی دہائیوں سے ایک اصطلاح،سٹاک ہوم سینڈروم استعمال کی جا رہی ہے جس کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ مسلسل تناؤ،انحصار اور بقا کے لیے تعاون کرنے کی ضرورت کے نتیجے میں یرغمال بنائے گئے قیدی کااغواء کنندہ سے جذباتی لگاؤ کا ہونا،سٹاک ہوم سینڈروم کہلاتا ہے۔سٹاک ہوم سینڈروم،اسیر ہونے کا ایک نفسیاتی ردعمل ہے۔سٹاک ہوم سینڈروم والے لوگوں کااپنے اغواء کاروں کے ساتھ کچھ عرصہ گزارنے کے بعد ایک نفسیاتی تعلق قائم ہوجاتا ہے اور یوں اُن کے لیے ہمدردی محسوس کرناشروع کردیتے ہیں۔ماہرین کے مطابق یہ تعلق کسی طور بھی محبت نہیں کہلایا جا سکتا بلکہ ایسی صورتحال میں شکار محسوس کرتا ہے کہ زندہ رہنے کے لیے مثبت ہونا لازم ہے۔امریکن سائیکاٹیٹرٹ ایسوسی ایشن(APA)سٹاک ہوم سینڈروم کو ذہنی اور جذباتی ردعمل سمجھتی ہے نیزاس کو نفسیاتی دفاع یا مقابلہ کرنے کا طریقہ کار بھی سمجھا جاتا ہے جو عام طور پر یرغمال شکار،افراد میں ظاہر ہوتا ہے۔ مختلف نفسیاتی اورطبعی ماہرین کے مطابق اس طرح کا طرز عمل دراصل بُرے حالات میں ممکنہ بُرے طرزعمل سے بچنے کے لیے اپنایا جاتا ہے تاکہ اپنے اغواء کاروں کو مزید ظلم کرنے سے باز رکھا جا سکے۔ایسی صورت حال میں قابض افراد بھی اپنے اسیروں کا دل جیتنے اورشکرگزاری کے جذبات جگانے کے لیے نفسیاتی حربے استعمال کرتے ہیں اور انہیں جھوٹے خواب دکھاتے ہیں۔ان عوامل کے بعد متاثرین اپنے اغواء کاروں کے لیے ہمدردی محسوس کرنا شروع کر دیتے ہیں اور صدمے میں ہونے کے باوجود، اپنے دل میں اُن کے لیے دوستانہ جذبات رکھتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں متاثرین،بد سلوکی کرنے والوں کے دُورہونے سے دل شکستہ ہوتے ہیں اور اپنے خیرخواہوں سے ناراض ہو جاتے ہیں اور انہیں اپنا مخلص ساتھی نہیں سمجھتے۔اس سوچ کے ردعمل کی وجہ سے انہیں اپنے اردگرد ماحول کے ذرائع پر قابض استحصالی قوتوں سے ہمدردی ہو جاتی ہے۔سٹاک ہوم سینڈروم میں ڈپریشن، تناؤ، فلیش بیکس، ڈراؤنے خوب، الجھنیں، بے خوابی اور اس طرح کی دیگر علامات نمایاں ہوتی ہیں۔اسٹاک ہوم سینڈروم کے چند مشہور کیسزمندرجہ ذیل ہیں۔
23 اگست 1973ء میں سویڈن کے شہر سٹاک ہوم کے بینک میں ڈکیتی کی واردات کے دوران ملزمان نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے، چند افراد کو یرغمال بنا لیا اگرچہ بعد میں ملزمان گرفتار ہوئے اور مقدمہ بھی چلامگرسب سے حیران کُن بات یہ تھی کہ جب تمام یرغمالی رہا ہوئے تو انہوں نے مجرموں کو گلے لگا کر رخصت کیا اور پولیس کو گولی چلانے سے بھی رُوکا۔جب مجرم پکڑے گئے تو تمام یرغمالیوں نے نہ صرف مل کر چندہ اکٹھا کیا بلکہ اُن کا مقدمہ بھی لڑا۔یرغمالیوں کے مطابق،چونکہ اُن کے ساتھ،دوران حراست بہترین سلوک کیا گیا تھا اور وہ اپنی جانیں بچنے پر مجرموں کے مقروض ہیں لہذا کسی ایک بھی یرغمالی نے،عدالت میں ملزمان کے خلاف گواہی نہ دی۔4 فروری 1974ء کو ایک دہشت گرد گروپ سیمبونیز لبریشن آرمی (SLA) نے سیاسی اور مالی فائدے کے لیے پٹریشیا ہرسٹ نامی ایک لڑکی کو اُس کے ذاتی اپارٹمنٹ سے اغواکر لیا۔ہرسٹ اپنے اغواکاروں کے ساتھ ایک سال سے زائد عرصہ رہی، اس دوران اُس کی عصمت دری بھی کی گئی،اُس پرتشدد بھی کیا گیا اور اُس کو قید تنہائی میں بھی رکھا گیا مگربرے رویوں کے باوجودایک سال کے بعد ہرسٹ نے انقلابی بنتے ہوئے اس دہشت گرد تنظیم میں شمولیت کا اعلان کر کے سب کو حیران کر دیا۔ہرسٹ نے اس تنظیم کے ساتھ مل کر دہشت گردی کی مختلف وارداتوں میں بھی حصہ لیا۔1975ء میں ہرسٹ کو ایف بی آئی نے پکڑ لیا تو اُس نے اعتراف کیا کہ اغواکاروں کی جانب سے اُس کو برین واش کر کے سب وارداتیں کروائی گئی ہیں۔یہ کیس برین واش کی ایک کلاسک مثال سمجھا جاتاہے۔پیٹی ہرسٹ کے اغوا کے تین سال بعد 1977ء میں سڑک پر کھڑی بیس سالہ کین اسٹین کو کیمرون ہُکر اور اُس کی بیوی جان نے لفٹ دینے کے بہانے گاڑی میں بٹھایا اوراغوا کر لیا۔کین اسٹین کو جنسی غلامی میں سات سال تک قید میں رکھا گیا اس دوران اُس کوسزائیں دی گئیں اور ڈرایا دھمکایا بھی گیا۔اسٹین کی اس طرح برین واشنگ کر دی گئی تھی کہ کیمرون ہُوکر،اسٹین کواُس کے گھر والوں سے ملانے کے لیے جب لے کر گیا تواسٹین نے اپنے گھر والوں کو بتایا کہ ہُوکر اُس کا بوائے فرینڈ ہے۔اسٹین،عام زندگی میں،کیمرون ہُکر سے اتنی متاثر تھی کہ ایک بارہُکر کے کہنے پر اپنے منہ میں پستول رکھ کر چلا دیا۔دراصل یہ عمل صرف وفاداری کا امتحان تھا کیونکہ ہُکر جانتا تھا کہ پستول خا لی ہے۔
یہ چند مثالیں دینے کا مقصد یہ بات سمجھانا ہے کہ سٹاک ہوم سینڈروم کا شکار ایک فرد بھی ہو سکتا ہے اور سارا معاشرہ بھی۔اگر آج ہم اپنے معاشرے پر نظر دالیں تو ہمیں بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ ہمارا معاشرہ مکمل طور پرسٹاک ہوم سینڈروم کا شکار ہے۔ہم بحیثیت قوم اپنے محسنوں کو دشمن سمجھتے ہیں،حفاظت کرنے والوں پر اعتبار نہیں کرتے،راستہ دکھانے والوں کی تذلیل کرتے ہیں اورقوم کی بقا کی خاطرقربانی دینے والوں کی بے حرمتی کرتے ہیں۔جبکہ دوسری طرف،ہم اُن کو اپنا رہنما،قائد اور مسیحا سمجھتے ہیں جو ہمارا سکون چھینتے ہیں،بے آرام کرتے ہیں،جھوٹے خواب دکھاتے ہیں،ہمارا مال کھاتے ہیں اور ہمیں بھوکے مارتے ہیں۔ہم اُن کو اپنا خیر خواہ سمجھتے ہیں جو اپنے سکھ کی خاطر،ہمیں دکھوں کی سوغات دیتے ہیں اورجو شرافت کی بجائے شرارت پر یقین رکھتے ہیں۔کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہے کہ جب کوئی فرد یا گروہ اپنی زنجیروں سے محبت کرنا شروع کردے تو پھر اُس کی رہائی کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں۔ہمیں آج خود سے یہ سوال کرنا ہے کہ کیا ہم اپنی آنکھوں پر بندھی محبت،عقیدت اور مصالحت کی پٹی اُتارنے کے لیے تیار ہیں؟۔اگر جواب مثبت آئے تو سمجھ جائیں کہ عنقریب ہم اپنی دنیا خود آباد کریں گے ورنہ یاد رکھیں!زنجیروں سے محبت،آزادی کی موت ہے۔