جاپانی قوم اور عسکریت (1)
1965ء اور 1971ء کی دونوں پاک بھارت جنگیں ”چند روزہ“ تھیں۔ بارود کی ایجاد سے پہلے جو جنگیں لڑی جاتی تھیں وہ تقریباً ”یک روزہ“ ہوتی تھیں۔صبح کو شروع ہوئیں اور شام کو ختم ہو گئیں۔
جنگ قادسیہ، جنگ یرموک، جنگ اجنادین، اسلامی جنگیں تھیں جو زیادہ سے زیادہ ”پانچ سات روزہ“ جنگیں کہی جا سکتی ہیں۔ ان کے بعد صلیبی جنگوں کا دور آیا۔ یہ دور کہنے کو تو زمانی اعتبار سے لامتناہی دور تھا لیکن ان جنگوں کا دستور یہ تھا کہ صبح شروع ہوئیں اور شام کو بند کر دی گئیں۔ اندھیرے میں میدانِ جنگ کی تاریکی دوست دشمن میں تمیز نہیں کر سکتی تھی۔ اس لئے جب اگلی صبح ہوتی تو پھر آغازِ جنگ ہو جاتا۔ یہ تسلسل اس وقت تک جاری رہتا جب تک ایک فریق نڈھال ہو کر جنگ کے میدان سے باہر نہ ہو جاتا…… صلیبی جنگوں میں یہ تسلسل بارہا دیکھا گیا۔
پھر بارودی دور شروع ہوا اور رات کی تاریکی، اجالے میں تبدیل ہونے لگی۔ یہ سلسلہ یہاں تک بڑھا کہ 19ویں اور 20ویں صدی کی جنگیں صبح و شام و شب کے حربی معرکوں میں تبدیل ہو گئیں۔ آج بھی یہی صورت حال ہے۔ جوہری دور، بارودی دور کا گویا لاحقہ ہے۔ اس کا خاتمہ ہوتا نظر نہیں آتا۔آج کی روس۔ یوکرین جنگ اور مشرق وسطیٰ میں غزہ اور اسرائیل کی جنگیں گویا غیر جوہری جنگیں ہیں۔انسان جوہری جنگ سے ویسے تو گھبراتا ہے لیکن اس کی طرف بھاگتا چلاجاتا ہے۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر ہم مشرق کے مسکینوں کی سلیٹ بالکل خالی ہے۔ روس اور امریکہ کی مستقبل کی جنگوں کے امکانی ادوار کا ذکر اچھے بھلے پڑھے لکھے فوجیوں کی سمجھ سے بھی بالاتر ہو رہا ہے۔
میں نے کئی بار سوچا ہے کہ ایسی قوم کون سی تھی جو آناً فاناً تیر و کمان اور شمشیروسناں کے زمانے سے نکل کر جدید ترین سلاحِ جنگ کی حامل بن گئی۔ اور نہ صرف حامل بلکہ قریب تھا کہ جوہری دور کو بھی گلے لگا لیتی……میری مراد جاپانی قوم سے ہے۔
ہم برصغیر کے باسی جاپانیوں کی حربی صلاحیتوں کے شناسا نہیں۔ہم ٹیوٹا، مزدا اور سوزوکی کاروں کو ہی جاپان کی ٹیکنالوجی سمجھتے ہیں۔لیکن جاپان کا اصل مقابلہ چین سے ہے اور امریکہ اگرچہ اس کا خاص الخاص دوست اور اتحادی ہے لیکن وہ ابھی تک ہیروشیما اور ناگاساکی کو نہیں بھولا۔ وقت پڑنے پر جاپانی آنکھیں پھیر لینے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ جو قارئین جاپانی سولجرز کی نفسیات جاننا چاہتے ہیں وہ برماوار (1941ء تا 1945ء) کا مطالعہ کریں۔ اگر برطانوی فیلڈ مارشل ولیم سلم (Slim) کی 14ویں فوج آڑے نہ آتی تو ہم برصغیر کے باسی اپنے گلی کوچوں میں جاپانیوں کو آتا جاتا دیکھتے۔ جاپانی 100میٹر دوڑ کو جوہری بم نے بریک لگا دی۔کچھ خبر نہیں کہ اگر امریکہ ایٹم بم نہ بنا لیتا تو جاپان کا مستقبل کیا ہوتا۔ امریکہ، جاپان پر قبضہ تو کرلیتا لیکن جاپان اور چین کا یہ خطہ ایک دوسرا یورپ (یا مشرق وسطیٰ) بن جاتا۔
آیئے دوسری جنگ عظیم کے ایک عظیم جاپانی جرنیل کی داستان حیات کا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ جاپان کی حیرت انگیز ترقی کا راز (دوسری جنگ عظیم میں) کیا تھا۔ اس جرنیل کا نام ”ایڈمرل یاماموتو“ تھا۔
ابتدائی زندگی
یاماموتو (Yamamoto)کا اصل نام ایسوروکو (Isoroku) تھا۔ ایسوروکو سے وہ یاماموتو کیسے بنا، اس کی وجہ ہم آگے چل کربتائیں گے …… وہ 4اپریل 1884ء کو جاپان کے شمال مغرب میں واقع ایک شہر،ناگااوکا (Ngaoka) میں پیدا ہوا۔ ایسوروکو کا والد بھی امریکی جنرل بریڈلے کی طرح پرائمری سکول کا ایک سکول ماسٹر تھا۔ غربت کا ”دور دورہ“ تھا۔ ایسو کے پانچ بھائی اور ایک بہن اور تھی۔ اس کا نمبر چھٹا تھا اور وہ والدین کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا۔
جاپانی معاشرہ بھی کئی دوسرے ایشیائی معاشروں کی طرح رسوم و روایات کا اسیر ہے۔ جب ایسو پیدا ہوا تو اس کے باپ نے اپنی اہلیہ کو کہا: ”بھاگوان! بیٹوں کی تعداد اب جفت ہو گئی ہے اور ”نصف درجن“ والا فارمولا بھی مکمل ہو چکا ہے۔ اس لئے اب بس کر دینی چاہیے۔ اگر ساتواں بیٹا بھی آ گیا تو پھر درجن کا ہندسہ پور اکرنے کے لئے ہمیں کافی ”تگ و دو“ کرنی پڑے گی، جس کا میں متحمل نہیں۔ میری عمر اب 56برس ہو چکی ہے۔ اس چھٹے بیٹے کا نام بھی 56ہونا چاہیے……“ چنانچہ ایسوروکو نام کا انتخاب کیا گیا۔ جاپانی حروف تہجی میں اگر اس کے نام کے حروف کو جمع کریں تو ان کا ٹوٹل 56بنتا ہے۔
ایسوروکو کا بچپن اور لڑکپن شدید عسرت میں گزرا۔ باپ جتنا زیادہ پڑھا لکھا تھا، اتنا ہی توہم پرست بھی تھا اور یہ تو ہم پرستی آج بھی جاپانی سوسائٹی کی رگ رگ میں سمائی ہوئی ہے۔ اپنے چھوٹے سے گھر میں ایسوکو چھ گز مربع کا ایک باغیچہ دے دیا گیا جس میں چلغوزے اگے ہوئے تھے اور جس کی دیکھ بھال اس کے ذمے تھی۔ والد کا اصرار تھا کہ چاہے گرمیاں ہوں یا سردیاں اس باغیچے میں کوئی نہ کوئی پھول ضرور کھلا ہونا چاہیے اور چلغوزے کا کوئی درخت مرنا نہیں چاہیے وگرنہ ایسو کا مستقبل تابناک ہونے کا امکان ختم ہو جائے گا۔ چنانچہ گھر کی اس چھوٹی سی خیابان کو ہرا بھرا اور پھولوں سے لدا ہوا رکھنے کے لئے ایسو کو سارا سال محنت کرنا پڑتی تھی۔
1890ء میں ایسو جب مڈل سکول کا طالب علم تھا تو اسے سکول میں ملٹری ٹریننگ دی جانے لگی۔ جاپان کے سارے سکولوں میں اس عسکری ٹریننگ کو بڑے اہتمام سے ترتیب دیا جاتا تھا۔ تعلیمی سال کے اختتام پر اجتماعی جنگی مشقیں ہوتی تھیں جن میں قرب و جوار کے تمام سکولوں کے ہزاروں طلباء حصہ لیا کرتے تھے۔ آرمی آفیسرز ان مشقوں کو کنڈکٹ کرواتے تھے…… قارئین یہ جان کر حیران ہوں گے کہ جاپانی سکولوں کے طلباء کو اصل ہتھیاروں کے ساتھ ان جنگی مشقوں میں ٹریننگ دی جاتی تھی، البتہ ان میں گولیاں اصل (Live) نہیں ہوتی تھیں۔
جاپان کے تعلیمی اداروں میں عسکری ٹریننگ کا یہ انتظام و اہتمام کیوں کیا جاتا تھا۔ بہتر ہوگا اگر اس موضوع پرجدید جاپان کی سیاسی، صنعتی اور عسکری اساس پر ایک نہایت مختصر تبصرہ بھی قارئین کی خدمت میں پیش کر دیا جائے۔
جدید جاپان اور اس کا عسکری پس منظر
مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ جدید جاپان کی تاریخ 2نومبر1868ء کو اس وقت شروع ہوئی جب شوگن حکومت کا تقریباً تین سو سالہ دور ختم ہوا اور میجی خاندان بحال ہوا۔ اس خاندان کے ایک 14سالہ لڑکے موٹسو ہیٹو (Mutsohito) کو شہنشاہ جاپان تسلیم کرلیا گیا اور تمام امراء و روسائے سلطنت نے اس کی اطاعت کی قسم کھائی۔ اس شہنشاہ کے دور میں حیرت انگیز سیاسی، اقتصادی اور عسکری اصلاحات نافذ کی گئیں، جن کے طفیل دیکھتے ہی دیکھتے جاپان، جوشوگن دور میں اپنے خول میں گم سم ایک کمزور سا ملک تھا، ایک جدید اور صنعتی اعتبار سے مضبوط ملک بن کر ابھرا…… شہنشاہ اور اس کے وزراء نے جاپانی عوام کو جو نعرہ دیا وہ ”امیر ملک، مضبوط فوج“ تھا…… یہ نعرہ جتنا سادہ تھا اتنا ہی مبنی برحقیقت بھی تھا…… اس مختصر مضمون میں ہم جاپان کی صنعتی، سماجی اور اقتصادی تعمیر نو کا ذکر تو نہیں کر سکتے، البتہ ”مضبوط فوج“ کے سلسلے میں یہ بتانا چاہیں گے کہ اس دور کے جاپانی معاشرے میں اعیانِ سلطنت نے عوام میں ایک ایسا شعور پیدا کر دیا تھا جو حیرت انگیز ہے۔ جاپانی دانشور یہ دیکھ رہے تھے کہ یورپین اقوام کس طرح اپنے براعظم سے نکل کر دوسرے براعظموں (ایشیاء اور افریقہ) پر قابض ہوتی جا رہی ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے امریکہ اور آسٹریلیا جیسے نئے براعظموں کی دریافت کا حیرت ناک منظر بھی دیکھا۔ یہ سفید فام اقوام جاپان کے عظیم ہمسائے چین پر قابض ہو چکی تھیں اور کسی بھی وقت جاپان کو روند سکتی تھیں۔ جاپان کو یہ خطرہ اس لئے بھی حقیقی معلوم ہو رہا تھا کہ جب استعماری قوتیں یکے بعد دیگرے عسکری اعتبار سے کمزور تمام معاشروں کو نگل رہی تھیں تو جاپان کہ جو مختلف جزائر کا مجموعہ تھا کا روندا جانا، کچھ بھی بعید نہ تھا۔ اپنی بقاء کو اس خطرے میں گھرا دیکھ کر جاپانیوں نے یہ محسوس کیا کہ جب تک اپنی فوج کو ”جدید اور مضبوط“ نہیں بنایا جائے گا، یورپی استعمار کا مقابلہ نہیں کیا جا سکے گا۔ چنانچہ شہنشاہ جاپان اور اس کے مشیروں نے فیصلہ کیا کہ جاپان کی عسکری قوت کو جدید بنانے کے لئے کسی جدید مغربی قوت سے مددلی جائے۔ (جاری ہے)