علم کو تن پر سجاؤ تو سانپ ہے، دل میں بساؤ تو یار ہے، آپ جیسے ہی تاج محل کے سامنے آتے ہیں تو تعمیر ی نفاست دیکھتے ہی سکتہ طاری ہو جاتا ہے

علم کو تن پر سجاؤ تو سانپ ہے، دل میں بساؤ تو یار ہے، آپ جیسے ہی تاج محل کے ...
علم کو تن پر سجاؤ تو سانپ ہے، دل میں بساؤ تو یار ہے، آپ جیسے ہی تاج محل کے سامنے آتے ہیں تو تعمیر ی نفاست دیکھتے ہی سکتہ طاری ہو جاتا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد اسلم مغل 
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید 
 قسط:183
 کیمپس کی مجموعی زندگی بہت پرسکون تھی۔ یہاں بہت کم لوگوں کے پاس کاریں تھیں اور زیادہ تر طلبہ پیدل آ جا رہے تھے یاسائیکلوں پر سواری کر رہے تھے۔ سر سید احمد خان اسی کیمپس میں مدفون ہیں۔ ہم ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے گئے اور ان کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کیا جو انھوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی حیات نو کے لیے کی تھیں۔ اس کے بعد ہم نے مولانا آزاد لائبریری بھی دیکھی جو ایک بہت بڑی عمارت میں ہے اور اس کو موضوعات کے لحاظ سے مختلف سیکشنز میں ترتیب دیا گیا ہے۔ یہ شام کا وقت تھا اور لائبریری طلبہ سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ بتایا گیا کہ یہ نصف شب تک کھلی رہتی ہے تو یہ تب بھی اسی طرح یہاں بڑی تعداد میں طالب علم موجود ہوتے ہیں۔ یہ پیچھے وطن عزیز کے طلبہ کے رویوں سے قطعی مختلف تھی جہاں دن دیہاڑے بھی لائبریریاں سنسان پڑی ہوتی ہیں۔ اس حقیقت سے دونوں ممالک کے طلبہ کے مابین علم کے حصول کی تگ و دو کا موازنہ با آسانی کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے وہاں کے اساتذہ کو بہت منکسر المزاج پایا۔ ان میں سے کچھ تو ایسے تھے جنہوں نے اپنے شعبے کے لیے متعدد کتابیں بھی تحریر کی تھیں لیکن ان کی سادگی اور انکساری سے کوئی بھی اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ وہ کتنے بڑے لوگ ہیں۔ یہ ایک اور بات تھی جو دونوں ملکوں میں حصول علم کی سنجیدگی کا موازنہ کر سکتی ہے۔ تاریخ کے ایک پروفیسر کی خواہش پر ہم ان سے ملاقات کرنے کے لیے ان کے گھر گئے۔ یہ وہ استاد تھے جن کو قومی سطح کا اعلیٰ ترین ایوارڈ مل چکا تھا۔ جب ہم ان کے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے تو وہاں ابھی تک پرانی طرز کا وہ فرنیچر پڑا ہوا تھا جس میں روایتی بینچیں بھی تھیں اور وہ خود ایک سادہ سے لباس میں ملبوس لکڑی کی ایک بینچ پر بیٹھے ہوئے تھے لیکن ان کے پاس علم کا خزانہ تھا۔ ایک رات وائس چانسلر نے ہمارے اعزاز میں ایک عشائیہ کا اہتمام کیا جہاں ہماری ملاقات یونیورسٹی کے سینئر اساتذہ اور ڈینز سے ہوئی۔ ان میں سے کچھ تو سائیکل پر وہاں آئے تھے۔ پاکستان میں کم از کم ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔
علم را بردل زنی یارے بَوَد
علم را بر تن زنی مارے بَوَد
(علم کو تن پر سجاؤ تو سانپ ہے، دل میں بساؤ تو یار ہے)
مجھے یہ لوگ مولانا روم کے اس شعر کی تفہیم نظر آئے۔
میں 1986 ء میں تاج محل دیکھ آیا تھا جب میں پہلی دفعہ بھارت آیا تھا۔ اب ہمارے گروپ کو ایک دن کے لیے تاج محل دکھانے کے لیے لے جایا جا رہا تھا۔ یہ وسیمہ کو تاج محل دکھانے کے لیے ایک نادر موقع تھا۔ علیگڑھ سے آگرہ صرف 94 کلومیٹر تھا۔ہم تاج محل کے احاطے میں داخل ہوئے اور کچھ ہی دیر میں ہم تاج محل کی سنگ مر مر سے بنی ہوئی خوبصورت عمارت کے سامنے کھڑے تھے۔ آپ جیسے ہی یکدم تاج محل کے سامنے آتے ہیں تو اس کی عظمت، بناوٹ، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر ی نفاست اور تناسب کو دیکھتے ہی سکتہ ہو جاتا ہے۔ اس کے چاروں مینار اور گنبد مل کر ایک مکمل خوبصورتی بیان کرتے ہیں اور یہ منظر ایک سماں باندھ دیتا ہے۔ یہ ایک بہت قابل ذکر بات ہے کہ اس کی تعمیر کو 600 سال گزرنے کو باوجود اس کی خوبصورتی ابھی تک اپنی اصلی حالت میں قائم ہے۔ یہ ان معماروں کو خراج تحسین ہے کہ جن کی صناعی نے بخشی تھی اسے شکل جمیل۔ ان میں سے اکثر کے تو ناموں کا علم ہی نہیں ہے البتہ وہاں دو نام تحریر کئے گئے ہیں ان میں سے ایک استاد احمد لاہوری اور دوسرے میر عبدلکریم ہیں۔ اُس وقت تک ہندوستان میں فن تعمیر کے متعلق کوئی رسمی تعلیم بھی نہیں دی جاتی تھی۔ لیکن پھر بھی وہ اپنے وقتوں کے بہت بڑے معمار تھے جن کو اللہ ہی کی طرف سے یہ فن تحفے میں ملا تھا۔ شام ڈھلے ہم ایک بار پھر علی گڑھ لوٹ آئے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -