سائنس اور ٹیکنالوجی:مسلمانوں کی گمشدہ متاع
جن رسائل و جرائد کو پڑھنے کا شوق ہمیں سکول کے زمانے میں ہی لاحق ہو گیا تھا، ان میں نیشنل جیو گرافک بھی ایک تھا۔ پہلے پہل تو اس کا ریشمی (آرٹ) پیپر اور رنگین تصاویر ہمارا دامن ِ نگاہ کھینچتی رہیں۔ پھر رفتہ رفتہ جب تصاویر کے عنوانات پڑھنا آ گئے، تو اصل سٹوریوں کا مطالعہ بھی ناگزیر سا بن گیا۔ سوچتا ہوں کہ انگریزی سے انگریزی زبان کی لغات سے دو دو ہاتھ کرنے کی ہماری ابتداءبھی انہی مشاغل کی وجہ سے ہوئی۔ اس رسالے میں چھپنے والے سفر ناموں اور معلوماتی مضامین کی ندرت کے علاوہ ان کے نقشے اور مصنف کی اپنے ہاتھوں سے کھینچی ہوئی تصاویر نے ہم کو کافی دیر تک مرعوب رکھا۔
پھر جب فوج میں آئے تو معلوم ہوا کہ فوجی ماحول اور حربی معرکوں سے بھی اس نیشنل جیو گرافک میگزین کی دوستی بہت پرانی ہے۔آفیسرز میس میں اس رسالے کی فائلیں بڑی ترتیب سے رکھی ملا کرتی تھیں اور تقریباً سارے ہی لوگ اس کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ اس میں جغرافیائی، تاریخی، معاشرتی، ثقافتی اور سائنسی موضوعات پر چھپنے والے آرٹیکل گزرے ہوئے کل میں بھی بیش قیمت تھے اور آج بھی ہیں۔
رنگین ٹیلی ویژن کی نشریات، پاکستان میں عام ہو گئیں تو نیشنل جیو گرافک اور ڈسکوری (Discovery) چینل ہمارے مرغوب چینل بن گئے۔ لیکن ان پروگراموں میں مغربی تہذیب و تمدن کی بالادستی اور مغربی اقوام کی برتری کو بالعموم نمایاں کر کے پیش کیا جاتا تھا۔ تاہم آج یہ دیکھ اور جان کر خوشگوار حیرت ہوئی ہے کہ نیشنل جیو گرافک سوسائٹی ایسے پروگراموں کا اہتمام بھی کرنے لگی ہے جن میں مسلم تہذیب و تمدن، مسلم سائنس و ثقافت اور مسلم ایجادات و اختراعات پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔
چند روز پہلے پاک فضائیہ کی لاہور بیس کی پی آر او (PRO) سکواڈرن لیڈر جمیلہ ملک سے ملاقات ہوئی تو ان کی میز پر چند تازہ کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ مَیں نے ملاقات کے بعد جاتے ہوئے سرسری طور پر دیکھا تو ایک ایسی کتاب پر نظر پڑی جو نہ صرف کتابت و طباعت کا معیاری نمونہ تھی بلکہ اس کا موضوع بھی بہت دلچسپ تھا۔ مَیں نے سکواڈرن لیڈر صاحبہ سے کہا:” آپ نے تو لگتا ہے ان میں سے ابھی کوئی بھی کتاب نہیں پڑھی۔ سب ”نئی آمد“ معلوم ہوتی ہیں.... چند روز کے لئے یہ کتاب مَیں پڑھنا چاہوں گا۔“....
اس طرح میں وہ کتاب گھر لے آیا۔ رات کو حسب معمول اس کو خواب آور گولی کے طور پر ”نگلنا“ چاہا تو یہ گلے میں گویا ”اٹک“ کر رہ گئی.... مَیں اس کی وجہ بتاتا ہوں۔
اس کتاب کا نامLost History ہے۔ اس کا ترجمہ ”گمشدہ تاریخ“ کر سکتے ہیں۔ نیشنل جیو گرافک سوسائٹی اس کی پبلشر ہے۔2008ءمیں اس کا پہلا پیپر بیک ایڈیشن شائع ہوا اور یہی میرے سامنے ہے۔ تعارف کنگ عبداللہ (فرمانروائے اردن) نے تحریر کیا ہے اور مصنف کا نام مائیکل ہملٹن مورگن ہے۔ مورگن کا نام عسکری حلقوں میں اجنبی نہیں۔ سابق سفارت کار ہیں، بین المذاہب علوم و فنون پر انہوں نے بہت سا کام کیا ہے۔ ایک صحافی بھی ہیں اور امریکی ٹیلی ویژنوں (ABCاورCBSوغیرہ) پر امریکی خارجہ پالیسی پر ان کے تبصرے بڑے متوازن اور معلوماتی ہوتے ہیں....
”گمشدہ تاریخ“ کے عنوان اور کتاب کے مندرجات سے مجھے مولانا حالی کی مسدّس کا یہ بند یاد آیا جو مائیکل مورگن کی اس تصنیف کا بھی لب لباب ہے۔ مولانا حالی قرونِ وسطی کے عربوں کے علم و فضل کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ہر اک میکدے سے بھرا جا کے ساغر
ہر اک گھاٹ سے آئے سیراب ہو کر
گرے مثلِ پروانہ ہر روشنی پر
گرہ میں لیا باندھ حکم پیمبر
کہ ”حکمت کو اک گمشدہ لال سمجھو
جہاں پاﺅ اپنا اسے مال سمجھو“
مصنف کا اسلوب نگارش محققانہ یا فلسفیانہ نہیں بلکہ نہایت رواں، سہل اور برجستہ ہے ۔ لیکن تحریر کی اس سادگی میں بھی انہوں نے تحقیق کو آسان پیرایہ میں بیان کرنے کی ایک نئی طرح ڈال دی ہے۔ ساری کتاب گویا ایک مسلسل تحریر ہے جس میں مسلم امہ کی ایک ہزار سالہ عظیم تاریخ کے ٹکڑوں کو اتنی خوبصورتی سے جوڑا گیا ہے کہ قاری کو مختلف اسلامی ادوار کی ٹائم لائن تک یاد ہو جاتی ہے۔ دوران مطالعہ آپ کو معلوم ہو گا کہ آپ کوئی تحقیقی تاریخ نہیں بلکہ ایک دلچسپ افسانوی تحریر پڑھ رہے ہیں۔ مسلم جغرافیہ دان، سائنس دان، مورخ، موجد اور علاوہ ازیں علم طب، ریاضی، جیومیٹری، الجبرا، راکٹ سازی، توپ سازی، کیمیا، فزکس، نباتات، فلکیات اور سب سے بڑھ کر قیادت کے باب میں آپ کو اتنا اثر آفریں مواد ملے گا کہ آپ حیران ہو جائیں گے کہ ہم مسلمانوں کا ماضی کتنا عظیم تھا!
مائیکل مورگن نے اس کتاب میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ عربوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ان کو اہل مغرب نے بعد میں کس طرح اپنے نام کر لیا۔ کتاب یہ بھی بتاتی ہے کہ مغرب نے مختلف علوم و فنون میں آج تک جو حیرت انگیز ترقیاں کی ہیں اور فلک بوس پلازے تعمیر کئے ہیں ان کی بنیادیں عرب، انجینئروں اور معماروں ہی نے اٹھائیں۔
مورگن آنحضورﷺ کی ولادتِ باسعادت (570ئ) سے بات شروع کرتا ہے اور پھر خلافت راشدہ، امیہ، عباسیہ، فاطمیہ اور عثمانیہ کے ادوار کا جائزہ لیتا ہے۔ اس کے علاوہ سلجوقیوں، کُردوں اور مغلوں کی عظیم کامرانیوں کا احوال بیان کرتا ہے، ان ادوار کے جوہر قابل کی داد دینے میں بخل سے کام نہیں لیتا اور سب سے عجیب بات یہ ہے کہ وہ ان واقعات و حالات اور مغربی شخصیات کا بھی کھوج لگاتا اور ذکرکرتا جاتا ہے جنہوں نے مسلمانوں کے ان علوم و فنون سے اکتسابِ فیض کیا اور ان کی بنیادوں پر آج کی اپنی فلک بوس عمارتیں تعمیر کیں۔
مناسب ہو گا کہ قارئین کی خدمت میں کتاب کا ایک پیرا گراف بھی بطور نمونہ پیش کر دوں۔.... طورز (Tours) کی لڑائی ایک ایسا معرکہ ہے جو مسلمانوں اور اہل یورپ کے درمیان ایک واٹر شیڈ ہے۔ طورز کا یہ قصبہ جو آج جنوبی فرانس کا ایک نہایت مشہور اور گنجان آباد شہر ہے، وہاں732ءمیں مشہور اندلسی خلیفہ عبدالرحمن اور عیسائی جنرل، چارلس مارٹل کے درمیان ایک خونریز جنگ ہوتی ہے جس میں مسلم لشکر کو اس لئے شکست ہو جاتی ہے کہ عبدالرحمن کی فوج گزشتہ لڑائیوں میں حاصل ہونے والے مالِ غنیمت کو بچاتی بچاتی میدانِ جنگ کی فیصلہ کن گھڑیوں میں پسپا ہونے لگتی ہے۔ فرانس کا یہ مقام (طورز) وہ آخری مقام ہے، جہاں عرب افواج کی یلغاریں پہنچ کر رک گئیں۔ اس لڑائی کے انجام پر تبصرہ کرتے ہوئے مورگن لکھتا ہے: ”اس معرکے میں ہار جانے کے بعد بھی مسلمان مزید 700برس تک عیسائی یورپ کی اقتصادی، علمی اور فنی پیش رفتوں پر سایہ فگن رہے۔ اگر مسلمان فرانس، جرمنی، اٹلی اور دوسرے یورپی ممالک تک اپنی فتوحات کا دائرہ بڑھا لیتے تو کیا وہاں بھی 700برسوں تک سایہ فگن نہیںہو سکتے تھے؟“
”مسلم ٹیکنالوجی اور علم و دانش کی کشش اور مسلم قوت اور اس قوت کا خوف یہ دونوں عناصر اس لڑائی کے بعد کے ادوار میں اہل یورپ اور اہل اسلام کے مابین باہمی روابط کی بنیاد بنے رہے۔ پھر صورت حال اس وقت تبدیل ہونا شروع ہوئی جب16ویں صدی عیسوی میں یورپ ایک گلوبل پاور بن کے ابھرا اور مسلمانوں کا سنہری دور ختم ہونے لگا۔ اس کے بعد دُنیا کی جو تاریخ مرتب کی گئی اس کا سارا زورِ بیان یورپ کے گرد استوار کر دیا گیا اور مسلمانوں کے زریں دور کی عظمت کو تاریخ کے اوراق سے خارج کرنے(Expunge) کا کام شروع ہوا۔ اور اہل ِ یورپ کو تمام جدید علوم و فنون مثلاً ریاضی،فلکیات، طب، سائنس، ٹیکنالوجی، جہاں بانی وغیرہ میں اولیت کا تاج پہنا دیا گیا۔“
میرا خیال ہے آج تک اتنا سچ کسی اور مغربی تاریخ نویس نے شاذ ہی بولا ہو گا! ٭