اقبال اور عصرِ حاضر

اقبال اور عصرِ حاضر
اقبال اور عصرِ حاضر

  

برصغیر کے عظیم فلسفی شاعر علامہ اقبالؒ کے کلام اور افکار میں نہ صرف گزشتہ صدی بلکہ آنے والی کئی صدیوں کے لئے زندگی کا پیغام موجود ہے۔ برصغیر کو اپنی قسمت و خوش بختی پر فخر کرنا چاہئے کہ اس سرزمین پر جنم لینے والے علامہ اقبال مفکر اور شاعرکی حیثیت سے آج تک مسلمانوں کی شان و شوکت کا درخشاں ستارہ بن کر اُفقِ مشرق پر چمک رہے ہیں۔ اُن کی مخاطب پوری مسلمان قوم اور دنیا بھر کے لوگ تھے اسی لئے پیغامِ اقبال میں وسعت، ہمہ گیری اور آفاقیت ہے۔ علامہ اقبال کی شخصیت اور فکر مغربی دانشگاہوں کی اعلیٰ تعلیم اور مشرقی اقدار اور اسلامی روایات کا حسین امتزاج ہے۔ انہوں نے حیات و کائنات کے بیشتر بنیادی مسائل اور موضوعات پر غور و فکر کیا۔ وہ زندگی میں حرکت کے قائل تھے اور کائنات کو ایک ایسی حقیقت سمجھتے تھے جو ہر لمحہ اپنی تشکیل نو میں مصروف ہے۔ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آرہی ہے دما دم صدائے ”کن فیکون“ اقبال کی نظر تاریخ، اپنے عہد کے انقلابات، مستقبل میں بدلتے حالات، زوال پذیر ہوتے معاشروں ، عروج پاتی قوموں اور وجود میں آتی نِت نئی ایجادات پر تھی۔ وہ دنیا میں زندہ رہنے کے لئے ایک عالمی صداقت کو موضوع سخن بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”اپنی دنیا آپ پیدا کر، اگر زندوں میں ہے۔“اکیسویں صدی کو مختلف طبقات کی جدوجہد اور کشمکش کی صدی کہا جاتا ہے۔ دنیا کے ہر خطے میں لوگ بنیادی انسانی حقوق کے حصول کے لئے علاقائی و عالمی سطح کی تنظیمیں قائم کرکے جدوجہد میں مصروف ہیں۔ انسان آزادی کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ ان کی جدوجہد کا عنوان اقبال کا یہ پیغام ہے: جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی روح اُمم کی حیات کشمکشِ انقلاب اقبال کی دور اندیش نگاہ بصیرت ، مستقبل میں زندہ رہنے کے لئے تعلیم کو انتہائی اہم قرار دیتی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے معاشرے میں معلمین کے کردار کو اجاگر کرتے ہوئے اقبال لکھتے ہیں: ”معلم حقیقت میں قوم کے محافظ ہیں۔ کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا او ران کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہی کی قدرت میں ہے۔ پس تعلیم پیشہ اصحاب کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے پیشے کے تقدس اور بزرگی کے لحاظ سے اپنے طریق تعلیم کو اعلیٰ درجے کے علمی اصولوں پر قائم کریں۔“ اقبال نے معاشی زندگی کے بارے میں محض فلسفیانہ خیالات کا اظہار نہیں کیا بلکہ انہیں جب بھی موقع ملا اپنے خیالات سے مطابقت رکھنے والی عملی تجاویز بھی پیش کیں۔ غربت و افلاس کو دور کرنے اور معاشی خوشحالی کو لوگوں کی تقدیر بنانے کے لئے اقبال نے اپنی تحریروں میں جن عوامل پر خاص طور پر زور دیا ہے ان پر آج کل عام بحث ہو رہی ہے لیکن ان کے زمانے میں لوگ ان عوامل سے زیادہ باخبر نہ تھے۔ مذہبی طبقہ کسی بھی قوم کی تربیت و کردار سازی میں بنیادی درجہ رکھتا ہے۔ اقبال مشائخ عظام کو خانقاہوں سے نکل کر قوم کی رہنمائی کا فریضہ انجام دینے کی دعوت دیتے ہیں۔”نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری“۔ اقبال قرآن کی جانب غیرمعمولی اہمیت کی نگاہ سے دیکھ کر اسے ازحدا ہم سمجھتے تھے۔ ممتاز عالم دین مولانا سید سلیمان ندوی سے منقول ہے کہ: ”ایک دن میں اقبال کی ملاقات کو گیا اور میں نے ان سے کہا بڑی حیرت کی بات ہے کہ میں اور میری طرح کے دوسرے علماءنے مذہبی علوم کے حاصل کرنے میں عمریں صرف کردیں مگر ہم میں سے کسی نے بھی معارف اسلامی کی ترویج و اشاعت میں لوگوں کے درمیان آپ جتنی کامیابی حاصل نہیں کی، آپ کس طرح اس میں کامیاب ہوئے؟ اقبال نے جواب دیا کہ اس کی وجہ وہ عمل ہے جس کی ہدایت مجھے میرے والد بزرگوار نے کی۔ ایک دن میں صبح کے وقت تلاوت کلام الہٰی میں مشغول تھا کہ میرے والد میرے کمرے کے سامنے سے گزرے آپ نے فرمایا ”کیا پڑھ رہے ہو؟“ میں نے کہا قرآن پڑھ رہا ہوں۔ اس وقت میرے والد نے کہا ”بہت اچھا، لیکن مجھے یہ بات پسند ہوگی کہ تم قرآن کی تلاوت اس انداز سے کرو کہ گویا تم پر نازل ہوا ہے اور تم خدا سے گفتگو کررہے ہو“۔کہتے ہیں اقبال کا حال تلاوت کے دوران اس قدر متغیر ہوگیا کہ آپ کے آنسو بہہ بہہ کر قرآن کریم کے صفحات پر ٹپکنے لگے اور اب بھی اس نسخہ قرآن پر آپ کے آنسو¶ں کے اثرات موجود ہیں۔“ خودی اور خود آگاہی آزاد قوموں کی پہچان ہوتی ہے۔ اقبال اپنے عہد کے اور آنے والی صدیوں کے انسانوں کو اپنے پا¶ں پر کھڑا ہونے کے لئے جدوجہد کا درس دیتے ہیں۔ فکر اقبال کی روشنی میں آزاد اور خودمختار قوموں کے لئے خودی میں بنیادی سبق پنہاں ہے۔ اقبال مذہب کو اساس قرار دیتے ہوئے اتحاد عالم اسلام کی اہمیت کو اپنے اس شعر میں اجاگر کرتے ہیں: قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں جذب باہم جو نہیں، محفل انجم بھی نہیں اقبالؒ نے دنیا بھر کے مسلمانوں پر یہ بات واضح کردی کہ فرد کا ملت سے وابستہ رہنا انتہائی ضروری ہے۔ اور اسلام کے زریں اصولوں پر عمل کرنے والے مسلمانوں کو ہی بنی نوع انسان کی تاریخ میں ازسرنو تاریخ ساز کردار سونپا جاسکتا ہے۔ اقبال، عالم اسلام کے اتحاد کے لئے، دنیا بھر کے مسلمانوں کو نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر متحد ہونے کا درس دیتے ہیں۔ آج کے دور کا ایک نہایت اہم مسئلہ Afghan Issue ہے جس پر علامہ اقبال کا نقطہ¿ نظر بہت ہی حقیقت پسندانہ اور عملیت پسندی پر مبنی ہے، انہوں نے اپنے اشعار میں افغانستان کو Region میں امن کی کلید کا درجہ دیا۔ بقول علامہ اقبال: آسیا یک پیکرِ آب و گل است ملتِ افغان درآن پیکر دل است (اردو ترجمہ ، ایشیا پانی اور مٹی کا ایک جسم ہے اورافغانستان کی قوم اس جسم میں دل کی مانند ہے) از فسادِ اُو ، فسادِ آسیا از کشاد او ، کشاد آسیا (اردو ترجمہ، اس (افغانستان ) کی بدامنی سے ایشیا میں بدامنی اور اس کے امن میں ایشیا کا امن ہے۔ ) آج کے واقعات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ علامہ اقبال کا نقطہ¿ نظر آج سے کم از کم پون صدی پہلے اس ریجن کی ترقی اور امن و سلامتی کے بارے میں مبنی برحقیقت تھا اور آج کے حالات کے بھی عین مطابق ہے۔ علامہ اقبال کی نظر ہمیشہ مستقبل پر رہتی تھی۔ وہ عالمِ اسلام کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے ماضی کی تاریخ سے آشنا تھے۔ اقبال عورتوں کے حقوق کے حامی، خواتین کی عظمت کے معترف اور خاندانوں اور قوموں کی تربیت کے لئے انہیں بنیادی درس گاہ قرار دیتے ہیں۔ وہ جنگ طرابلس میں ایک عرب لڑکی فاطمہ بنت عبداللہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں کہ جو میدان جنگ میں مجاہدین کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہوگئی تھی۔ اقبال کی نظر میں وہ آبروئے ملت تھی: فاطمہ تو آبروئے ملت مرحوم ہے ذرہ ذرہ تیری مشتِ خاک کا معصوم ہے اسی طرح علامہ اقبال نے سیدہ مریم اور سیدہ فاطمہ ؓ کے حوالے سے بھی مقبول نظمیں لکھیں۔ اور ”والدہ مرحومہ کی یاد میں“ ان کی معروف اوریادگار نظم ادبِ عالیہ کا حصہ بن چکی ہے۔ آج دنیا کی نظریں سیاروں اور ستاروں کو مسخر کرنے پر مرکوز ہیں۔ اقبال مرشد رومی کو ایک استعارے کے طور پر اپنے اشعار میں محفوظ کرتے ہیں اور تخیلاتی طور پر ان ستاروں اور سیاروں سے بھی آگے نکل جاتے ہیں۔ وہ اپنے قارئین کو آنے والی صدیوں میں، حقیقتاً ، کائنات میں بکھری، ہر قوت کو اپنے تصرف میں لانے کے لئے دعوتِ عمل دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے آج دنیا بھر میں تقریباً ڈیڑھ ارب مسلمان کمزور اور بے بس نظر آتے ہیں۔ اقبال کا پیغام اس حوالے سے یہ ہے کہ اگر مسلمان دنیا میں آزاد قوموں کی طرح زندہ رہنا چاہتے ہیں تو فکراقبال کی روشنی میں تمام طبقات کو اپنی گفتار و کردار میں یکسانیت پیدا کرکے عملی اتحادکا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اقبالؒ کی شاعری عزم اور حوصلے کی شاعری ہے ان کا پیغام امید کا پیغام ہے۔ مایوسی کو وہ گناہ سمجھتے تھے: نہیں ہے ناامید اقبالؒ اپنی کشت ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی اقبالؒ کے فلسفہ اتحاد اور خودی پر عمل کرکے مسلمان قوم گروہ بندی سے بچ سکتی ہے۔ آج اور آنے والے ہر دور میں اقبالؒ ہماری قوم کے جسم میں روح کی طرح زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ اگر ہم یہ عہد کریں کہ ہم صرف اور صرف پاکستانی ہیں اور مسلمان ہیں تو کوئی بھی اندرونی یا بیرونی طاقت ہم میں انتشار پیدا نہیں کرسکتی۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اقبالؒ کے دیئے ہوئے تصورات پر عمل پیرا ہوکر ایک متحد اور مضبوط قوم بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا (یوسف رضا گیلانی سابق وزیراعظم اور پیپلزپارٹی کے مرکزی سینئر وائس چیئرمین ہیں) ٭

مزید :

کالم -