کیا یونانی طیارے میں افغان شہری بھی سوار تھے؟
تجزیہ : آفتاب احمد خان
حکومت پاکستان نے یونان کے ایک چارٹرڈ طیارے کے ذریعے اسلام آباد ہوائی اڈے پہنچنے والے انچاس میں سے تیس افراد کو اسی طیارے میں واپس یونان بھجوانے کا جو اقدام کیا وہ اصولی طور پر درست ہے۔ ان افراد کے پاس پاکستانی شہری ہونے سے متعلق کوئی دستاویزات نہیں تھیں، ظاہر ہے ایسے میں انہیں پاکستانی شہری تسلیم نہیں کیا جاسکتا، ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی گئی۔ جن انیس افراد کے پاکستانی شہری ہونے کی تصدیق ہوئی انہیں حراست میں لے لیا گیا، اس کا مقصد یہ پتا چلانا ہے کہ کیا وہ قانونی طریقے سے بیرون ملک گئے تھے یا غیر قانونی طور پر؟
طیارے کے ذریعے آنے والے افراد کو ابتدائی مرحلے پر جہاز سے نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی کیونکہ یہ جانچ پڑتال کرنا ضروری تھا کہ یہ کون لوگ ہیں اور کیوں آئے ہیں؟ حکام نے یہ عمل مکمل ہونے پر فیصلہ کیا کہ ان میں سے کسے ہوائی اڈے کی زمین پر اترنے کی اجازت دی جائے اور کسے نہ دی جائے؟ اس مرحلے پر یونانی سفیر کا ہوائی اڈے پہنچ جانا اور مسافروں کو جہاز سے باہر نکالے جانے کی غرض سے پاکستانی حکام پر دباؤ ڈالنا سفارتی آداب کے منافی ہے۔ انہیں اپنی بات ہوائی اڈے کے عملے کی بجائے وزارت خارجہ کو پہنچانا چاہئے تھی۔
کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ جن افراد کو واپس بھیجا گیا وہ کس ملک کے باشندے تھے اور پاکستان آنے کے بارے میں ان کی خواہش کا مقصد کیا تھا؟ جاسوسی اور دہشت گردی کے شعبوں میں بڑے بڑے عجیب حربے استعمال کیے جاسکتے ہیں، پاکستان دنیا میں دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار ہونے والا ملک ہے، مذکورہ دونوں شعبوں کے حوالے سے چوکنا ہونا اس کے لئے بہت ضروری ہے۔
طیارے میں واپس بھیجے جانے والوں کے بارے میں مبینہ طور پر کہا جاتا ہے کہ ان میں افغان شہری بھی شامل تھے، دیگر ملکوں کے باشندے بھی ان میں شامل ہوسکتے ہیں۔ ان افراد کے شناختی دستاویزات کے بغیر پاکستان آنے کے مقاصد واضح نہیں تھے اس لئے ان کے بارے میں حکومت پاکستان کا حساس ہونا ہی بہتر حکمت عملی تھی۔ جیسے کہ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں کہتے ہیں یہ حکمت عملی سختی کے ساتھی جاری رکھنے کی ضرورت ہے، خصوصاً مبینہ افغان باشندوں کے حوالے سے نگرانی انتہائی ضروری ہے، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ سیکڑوں افغان شہری پہلے ہی پاکستانی پاسپورٹ پر بیرون ملک موجود ہیں، ان میں سے کئی سعودی عرب میں ہیں، ان میں سے بعض افغان باشندے منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہونے کی بناء پر وہاں کی عدالتوں سے سزا کا حکم پاتے ہیں تو بدنام پاکستان ہوتا ہے کیونکہ ان کے پاس شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پاکستان کے ہوتے ہیں۔ ایسے غیر ملکیوں کی طرف سے پاکستانی شہریت کے حوالے سے دستاویزات حاصل کرلینے کے عمل کو روکنا ضروری ہے ۔