نواب ناطق دہلوی کو کبھی کبھی کسی مشاعرے میں بھی دل لگی کے لیے بلایا جاتا تھا ایک بار ہم گوجرانوالہ گئے تو نواب صاحب ساتھ تھے۔ احمد ندیم قاسمی، ناصر کاظمی ، صوفی تبسم ، علامہ لطیف انور اور بہت سے دوسرے شعراءبھی ہمارے ساتھ گئے ۔ ہم لاہور ریلوے سٹیشن سے گوجرانوالہ کیلئے ٹرین میں بیٹھے تو گاڑی کے چلتے ہی ہم نے نواب صاحب سے کہا کہ کچھ ارشاد فرمائیے ۔ وہ بڑے تن کر اشعار سنایا کرتے تھے۔انہوں نے اس طرح بڑے تن کر غزل سنانی شروع کی جو یہ تھی:
طعنہ اغیار کا نہ طینئے کہ
یہ غزل کا پہلا مصرع تھا۔ جب وہ غزل سنا چکے تو میں نے بڑے ادب سے کہا کہ نواب صاحب باقی تو شاید لفظ ”طعنئیے بھی“ ہو گا لیکن یہ آخر میں ”کہ “ کیا مطلب ہے ۔ وہ مجھے کہنے لگے کہ آپ خاموش رہیں۔ ہم اہل زبان ہیں اور یہ زبان کا مسئلہ ۔ آپ اسے چھوڑ دیجئے اور اس کا مزا لیجئے۔ ہم نے سوچا کہ چلو اس بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ میں نے ٹرین ہی میں سب شاعروں کو کہہ دیا کہ چندا ڈالو اور ایک ایک شعر کہو۔ باقی میں بندوبست کر لوں گا۔
چنانچہ ہم وہاں مشاعرے میں گئے تو وہاں ان سے پہلے یہ غزل سنی گئی جو انہوں نے خوب تن کر سنائی۔ اس کے بعد پروگرام کے مطابق مجھے بلالیا گیا۔ میں نے سٹیج پر جا کر کہا کہ صاحب ! میں نواب صاحب کی غزل سن کر بہت متاثر ہوا ہوں اور انہوں نے کیا زمین نکالی ہے۔ ایسی زمین تو غالب اور میر بھی نہیں دے سکے۔ اس لیے ارتجالاً یہ اشعار ہو گئے ہیں۔ چنانچہ میں نے انہی کی زمین میں غزل سنائی جس میں سے ایک مصرع تھا:
پان حاضر ہے پانئے کہ
غزل کے آخر میں کہ آتا تھا۔ میں نے ان پر خوب طنز کیا اور جس جس طرح میں شعر پڑھتا جا رہا تھا ان کا رنگ سرخ ہوتا جا رہا تھا اور ان کے کان اور بال کھڑے ہوتے جا رہے تھے مگر وہ غصہ پی گئے اور اس وقت مجھے کچھ نہیں کہا ۔
جب ہم اگلی صبح واپس آئے تو کسی نے ان سے پوچھا کہ قتیل شفائی نے آپ کی زمین میں غزل کہی تھی اور آپ نے اسے بہت متاثر کیا ۔ تو کہنے لگے کہ تم قتیل شفائی کی بات کرتے ہو یا تو وہ پاگل ہے یا دشمن کا جاسوس ہے ۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ شعر کہنے کے سلسلے میں میں دشمن کا جاسوس کیسے ہو گیا۔ بہرحال خدا بخشے وہ بھی خدا کو پیارے ہو گئے۔ ایسے لوگ اب کہاں۔ اب تو کافی ہاﺅس کی نہ وہ بہار رہی اور نہ ہی نواب ناطق دہلوی یا فضلی صاحب رہے۔اب صرف یادیں ہی یادیں ہیں۔ خدا ان سب کو بخشے جن کے دم سے یہ محفلیں تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک ٹنڈا
لاہور کے ایک ملک صاحب تھے جن سے میرا تعارف فارغ بخاری نے کروایا تھا اور فارغ بخاری سے ان کا تعارف ان حالات نے کروایا تھا جو انہیں بیکاری کی وجہ سے درپیش تھے۔ فارغ بخاری اور رضا ہمدانی ایک جان و دو قالب کی حیثیت رکھتے تھے۔ اور اب تک یہی سلسلہ ہے ۔ خدا ان دونوں کو لمبی عمر دے اور اس جسم اور سائے کو ایک ساتھ ہی چلتا رکھے ۔ یہ روزگار کے سلسلے میں جب پشاور سے نکلے تو لاہور میں بھی ان کا قیام ہوا۔ اس بارے میں ان کی ایک الگ داستان ہے۔ اس عرصے میں ان کی ملاقات ملک صاحب سے بھی ہوئی ۔ اور یہاں انہوں نے ان سے ایک پرچہ بھی نکلوایا جسے بعد کے تلخ تجربات کی بنا پر چھوڑ کر فارغ اور رضا میں کراچی کی جانب بڑھ گئے ۔ اور ملک صاحب نے یہیں قیام ضروری سمجھا اور پھر یہاں سے ایک پرچہ ”جذبات “ نکالنا شروع کیا۔ لوگ انہیں ملک ٹنڈا پکارتے تھے۔یہ ایک ہفت روزہ تھا اور ہفتہ وار نہیں چھپتا تھا بلکہ منشاور چھپتا تھا۔ وہ جب اس کی ضرورت سمجھتے تھے تو اسے چھاپ لیتے تھے اور تازہ پرچہ اور پچھلی فائل لے کر دوسرے شہروں میں ٹور پر نکل جاتے تھے۔
یہ عجیب و غریب شخص لاہور کے ککے زئی برادری سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے باقی عزیز بہت معزز اور دیانتدار لوگ تھے۔ لیکن یہ ملک صاحب عجیب و غریب شہرتوں کے مالک بنے گھوما پھر اکرتے تھے جہاں بھی انہیں اپنے مطلب کا آدمی نظر آتا تھا یہ اسے گھیر لیتے تھے۔ اشخاص کے علاوہ بھی اداروں پر بھی ان کی نظر کرم خاصی رہتی تھی ۔ چنانچہ یہ اس زمانے میں سرحد کے دورے پر نکلے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلم لیگ کی تحریک زوروں پر تھی اور ہر طرف قائداعظم کے نام کا غلغلہ تھا۔ جب یہ ہری پور پہنچے تو وہاں یہ قاضی عزیز الرحمان صاحب سے ملے۔
قاضی عزیز الرحمان ہمارے بزرگ تھے اور خبار نویس تھے۔ وہ ہری پور سے ایک مقامی پرچہ ”پیغام سرحد “ کے نام سے نکالتے تھے۔ وہ سادہ آدمی تھے ۔ ملک صاحب نے جا کر قاضی صاحب کو آئینے میں اتارا اور ان سے کہا کہ میں ”جذبات “ کا مشاہیر نمبر نکال رہا ہوں۔ آپ بھی اس کے ساتھ ہی ”پیغام سرحد “ کا پاکستان نمبر نکال لیں۔ اور میں آپ کے ایک نمائندے کو ساتھ لے لیتا ہوں اور صوبہ سرحد کا دورہ کرتا ہوں ۔ اس زمانے میں اشتہارات نہیں تھے اور جیسے آج کل قیمتی اشتہارات ہوتے ہیں اس طرح کا سلسلہ نہیں تھا البتہ وہ لوگ جو اپنی تشہیر چاہتے تھے یا جو اپنے مسائل پر یس میں لانا چاہتے تھے ان کی سرپرستی حاصل کی جاتی تھی۔
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 114
”پیغام سرحد “ شرافت کے اندر رہ کر نکلتا تھا اور اس کے ذرائع آمدن جائز تھے لیکن ”جذبات “ کے مالک و مدیر کا میدا ن کچھ اور تھا۔ اس میں خوشامد بھی شامل ہوتی تھی اور حد سے بڑھی ہوئی خوشامد ایک طرح کی بلیک میلنگ ہوتی ہے۔
میں نے اپنی ابتداء”پیغام سرحد “ ہی سے کی تھی اور میں شروع میں اس سے چھوٹی چھوٹی نظمیں اور غزلیں لکھا کرتا تھا۔ جیسے کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ میری زندگی کا رویہ یہ رہا ہے کہ اپنے سے زیادہ قابل آدمیوں کے ساتھ بیٹھو ۔ ان کی باتیں سنوں اور ان سے کچھ سیکھوں ۔ چنانچہ جن لوگوں کی محفل میں میں بیٹھتا تھا ان میں سے ایک قاضی عزیز الرحمان بھی تھے۔ وہ بہت شفیق اور سیدھے سادے آدمی تھے۔ اور اپنے علاقائی صحافیوں میں معزز سمجھے جاتے تھے۔
جب ملک صاحب نے قاضی صاحب سے اپنا نمائندہ ساتھ کرنے کیلئے کہا تو قاضی صاحب کی نظر مجھ پر پڑی۔ میں اس زمانے میں بیروزگار تھا۔ قاضی صاحب نے مجھے کہا کہ تم ان کے ساتھ چلے چلو۔ صحافت کی یہ ڈیوٹی میرے مزاج کے مطابق لگتی تھی پھر مجھے یہ خیال بھی تھا کہ کچھ پیسے بھی مل جائیں گے چنانچہ میں نے ساتھ جانے کی ہامی بھر لی۔ ملک صاحب نے قاضی صاحب سے میرے اخراجات بھی خود وصول کئے اور میں اور ملک صاحب پشاور اور کوہاٹ کی طرف نکل پڑے۔ ہمارے قیام کے دو بڑے مقامات یہی تھے۔
پہلے ہم پشاور گئے جہاں ہم شاہی مہمان خانے میں ٹھہرے۔ یہاں لوگ تھوڑے سے پیسے دے کر ٹھہرا کرتے تھے اوریہ ایک طرح کا V.I.P ہاﺅس تھا۔ ملک صاحب نے پشاور میں مسلم لیگ والوں سے کہہ کر وہاں ایک کمرہ لیا ۔ اس کے بعد میں ان کے پیچھے تھا اور یہ میرے آگے آگے ۔ ہم جہاں بھی جاتے گفتگو ہی کرتے تھے اور ان کی تمام گفتگو جذباتی ہوتی تھی۔ یہ لوگوں کو مشاہیر نمبر کے ایسے ایسے سبز باغ دکھاتے تھے کہ ہر کوئی انہیں سو دوسو روپے دے دیتا تھا۔ اس زمانے میں سو دو سو روپیہ آج کے دس پندرہ ہزار روپے کے برابر شمار کیا جا سکتا ہے۔ یہ پیسے لینے کے بعد لوگوں کی تصویریں لیتے تھے اور صرف تصویروں پر ہی اکتفانہیں کرتے تھے بلکہ لوگوں کے راز بھی لیتے تھے۔
فرنٹیئر میں یہ خواتین سے بہت ملے۔ وہاں نسل در نسل مخالفانہ ماحول چلتا ہے ۔ جو خان ان سے ملتا تھا وہ ملک صاحب کی نیت جانے بغیر اپنے مخالف کی تمام برائیاں اور خامیاں غلیظ باتوں سمیت نوٹ کروا دیتے تھے۔ اور بعض اوقات اپنے مخالف کے تمام ثبوت بھی انہیں مہیا کر دیتا تھا۔ اس کے بعد وہ یہ توقع کرتا تھا کہ یہ سب کچھ پرچے میں چھپ جائے گا اور اس کا مخالف اب جہنم رسید ہو جائے گا ۔ وہ کچھ پیسے دے کر ملک صاحب کو رخصت کرتا تھا۔ ملک صاحب نے اس قسم کے کئی راز وہاں اکٹھے کئے۔
اس کے بعد ملک صاحب اپنے طریقہ واردات کے عین مطابق اس مخالف کے پاس جاتے تھے اور اسے کہتے تھے کہ ہمارے پاس آپ کے سلسلے میں بہت سی چیزیں آئی ہوئی ہیں اور ہم نے مناسب سمجھا ہے کہ چھاپنے سے پہلے آپ سے دریافت کر لیا جائے کیونکہ ہم بہت دیانتدار آدمی ہیں اور کبھی بھی یکطرفہ کارروائی نہیں کرتے ۔ پھر ان کے پاس جتنی بھی ڈراﺅنی معلومات ہوتی تھیں وہاس طرح بیان کرتے تھے کہ سننے والے کے پسینے چھوٹ جاتے تھے۔ اور اگر معلومات فراہم کرنے والے نے ایک سو روپیہ دیا ہوتا تو یہ انہیں دو سو روپے فراہم کرتا اور کہتا کہ یہ سب غلط بات ہے اور اسے کسی طرح رو کئے ۔ ملک صاحب اس طرح دو طرفہ پیسے وصول کر رہے تھے۔
ایک واقعہ یوں ہوا کہ ضلع ہزارہ میں ایک ریاست امب کے نام سے تھی ۔ نواب فرید خان اس ریاست کے والی تھے جن کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں جنہوں نے مجھ سے کبھی شاعری بھی کروائی تھی اور مجھے انعامات بھی دیئے تھے۔ نواب فرید خان قانونی طور پر اس ریاست کے حقدار بھی تھے لیکن ان کے ایک قریبی رشتہ دار کو اعتراض تھا اور اس کا کہنا تھا کہ وہ ناجائز طور پر گدی پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ رشتہ دار مسلسل نواب صاحب کے خلاف مہم چلائے ہوئے تھا۔ اس کا ایک اور ساتھی اور عزیز پشاور میں رہتا تھا ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ملک صاحب نے ان سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے شام کی چائے پر بلایا ۔ میں نے پہلی بار ان نوابزادہ صاحب کے گھر اچھی چائے پی۔ میں نے اس چائے کے ساتھ کئی ایسی چیزیں دیکھیں جو پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کبھی چائے کے ساتھ بھی ایسا اہتمام ہو سکتا ہے بلکہ میرا خیال ہے کہ کھانے کے ساتھ بھی اتنی اشیاءکا اہتمام نہیں ہو سکتا۔ بہرحال نوابزادہ صاحب نے ہمارے لیے بہت پر تکلف چائے کا اہتمام کیا۔
ملک صاحب کا اتفاق سے بایاں بازو کٹا ہوا تھا اور ان کا صرف ایک ہی ہاتھ تھا۔ لیکن کھانے پینے اور ہاتھ کی صفائی کے معاملات میں ان کا ایک ہاتھ بھی دو ہاتھ والوں سے زیادہ صفائی کرتا تھا۔ وہ کھاتے بھی جاتے تھے اور باتیں بھی کرتے جاتے تھے۔ اس موقع پر ان نوابزادہ صاحب نے نواب امب کے سلسلے میں جو باتیں کہیں ان میں ایسے بھیانک الزامات تھے کہ میں سن کر کانپ گیا۔ اس زمانے میں فوٹو سٹیٹ نہیں تھی لیکن انہوں نے ہاتھ سے کی ہوئی نقلوں کی شکل میں ملک صاحب کو کچھ ثبوت بھی فراہم کئے۔
ہم وہاں سے رخصت ہوئے تو وہاں کے بڑے بڑے مسلم لیگی افراد سے ملے اور انہیں بتایا کہ ہم مشاہیر نکال رہے ہیں۔ انہیں بھی آرزو تھی کہ پاکستان کے قیام کے بعد ان کا نام آنا چاہئے اور وہ بھی اپنے نام کی تشہیر چاہتے تھے۔ اس لیے ملک صاحب نے ان سے پیسے بٹورے۔ ملک صاحب ان لوگوں کے ساتھ مل کر جلسے میں تقریر بھی کرتے تھے اور تقریر اچھی ہوتی تھی ۔ ایک تقریر میں انہوں نے انڈیا کے ہندوﺅں کے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے اپنا کٹا ہوا بازو بلند کر کے کہا کہ ہندوﺅں کے مظالم کا یہ جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ انہوں نے میرا بازو کاٹ دیا۔ حالانکہ ان کا بازو کسی آپریشن میں کٹا تھا کسی فرقہ ورانہ فساد میں نہیں کٹا تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے بازو سے بہت فائدہ اٹھایا اور کہتے تھے کہ مسلمانو! کیا تم بھی اپنا یہ حال دیکھنا چاہتے ہو۔ کیا تم بھی اپنے بازو کٹوانا چاہتے ہو؟ بہتر ہے کہ تم لوگ مسلم لیگ میں شامل رہو اور پاکستان کی جدوجہد کرو۔
ویسے تو پاکستان کی جدوجہد میں اس وقت سبھی مسلمان شریک تھے جو مسلم لیگ میں بھی شامل تے۔ لیکن عام مسلمان تو اپنے خلوص نیت کی وجہ سے مسلم لیگ میں شامل تھے جبکہ ملک صاحب اپنے کٹے ہوئے بازو سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے چنانچہ جب وہ اپنا کٹا ہوا بازو لہرا کر کہتے تھے کہ میرے ساتھ ظلم ہوا ہے تو ان کے الفاظ میں کوئی خلوص نہیں ہوتا تھا۔ لیکن بہرحال اس کاروبار میں وہ خاصے کامیاب رہے۔
یہاں سے انہوں نے درمیانے درجے کے مسلمان لیڈروں سے بھی بہت ساروپیہ بٹورا جو بڑے درجے کے لیڈر بننا چاہتے تھے۔ پھر انہوں نے کوہاٹ کے مسلم لیگی لوگوں کی ایک فہرست بنائی اور ہم لوگ وہاں چلے گئے۔ اب صورت یہ تھی کہ ہم جہاں جاتے تھے ہمیں کھانا مفت مل جاتا تھا جبکہ کرایہ ملک صاحب لگاتے تھے ۔ میرے پاس تو ایک کوڑی بھی نہیں تھی اور اس تمام عرصے میں ”پیغام سرحد “ کے لیے کوئی کام نہیں ہوا تھا۔ ملک صاحب صرف اپنے پرچے کا ذکر کرتے تھے اور ساتھ صرف اتنا کہہ دیتے تھے کہ ایک اور پرچہ بھی ہے جس کا نام ”پیغام سرحد “ ہے ، اس میں بھی آپ کی مدد کی جائے گی۔ دوسرے لفظوں میں وہ اپنے کھاتے میں ہی دو پرچے ڈال کر پیسے بٹورتے رہے۔
اس کے بعد کوہاٹ والوں کی فہرست بنا کر وہاں چلے گئے۔ وہاں کے دو تین بڑے آدمیوں سے ان کی ملاقات بھی ہوئیں۔ جب ہمیں وہاں ٹھہرے ہوئے تیسرا دن تھا تو یہ مجھے کہنے لگے کہ تم یہاں بازار میں بیٹھو میں ابھی آتا ہوں۔ اس کے بعد یہ شام تک نہیں آئے میں ان کی راہ تکتا رہا۔ اس شہر میں میرا کوئی واقف نہیں تھا اور میرے پاس کھانے کیلئے بھی کوئی پیشہ نہیں تھا۔(جاری ہے)
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 116 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں