بھارت سی پیک کا حصہ؟ (2)

بھارت سی پیک کا حصہ؟ (2)
بھارت سی پیک کا حصہ؟ (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ بھی حقیقت ہے کہ تاریخ بڑی فیاضی سے تحائف تقسیم کرتی ہے اور ہمارے ماضی اور حال کے پس منظر کے باوجود ایک دوستانہ مستحکم امن کا ماحول ’’تحفتاً‘‘ دے دے۔

1985ء میں ایک روشنی اور امید کی کرن نظر آئی تھی، جب جنوبی ایشیا کے ممالک نے مل کر ’’سارک‘‘ کی بنیاد رکھی، لیکن جن مقاصد کے حصول کے لئے یہ تنظیم قائم کی گئی تھی، وہ حاصل نہ ہوسکے، بلکہ اجلاس تک باقاعدگی سے منعقد نہ ہوسکے، کیونکہ دونوں بڑے ممالک ایک دوسرے کے حوالے سے بداعتمادی کا شکارر ہے اور اِس طرح یہ تنظیم ’’COMA‘‘ کی حالت میں ہے، ہم اب تک کئی جنگیں لڑ چکے ہیں، البتہ اب جنگ کا امکان اِس لئے نہیں ہے کہ دونوں ایٹمی طاقت ہیں، البتہ لائن آف کنٹرول کافی ’’گرم‘‘ رہتی ہے۔

سارک کی جگہ EXTREME NON COOPERATION بن گئی ہے اور ہم گزرے ہوئے کل کے قیدی بن کر رہ گئے ہیں۔ بجائے اس کے یہ خطہ مستقبل میں خوشحالی اور باہمی تعاون کا مجسمہ بن جانے کی طرف سفر شروع کرتا۔

(یورپ نے تاریخ عالم کی خونریز ترین جنگیں دیکھی ہیں، جنگ عظیم اول جنگ عظیم دوم کے علاوہ جرمن ٹکڑے ہونے کے بعد ایک ہوا اور بالآخر یورپین یونین بن گئی۔

SCHENGEN بن گئی ہمارے درمیان نہ کھیل رہے، نہ تجارت رہی اور ثقافتی تعلقات اور یہ سب مئی 2014ء میں نریندرمودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد ہوا، کیونکہ مودی کی سیاست کی بنیاد ہی پاکستان فوبیا پر قائم ہے۔
جہاں یہ حقیقت ہے کہ دونوں ممالک 1.7 ارب آبادی والے ممالک ہیں، وہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ غربت اور زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہونے کے حوالے سے بھی کسی سے کم نہیں ،لیکن اِس ’’مشترکہ حقیقت‘‘ سے نپٹنے کے لئے شائد کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔ چین نے بھارت کے خدشات اور تحفظات دور کرنے کے لئے سی پیک کا نام تبدیل کرنے کا عندیہ بھی دیا، لیکن کیا یہ ہوسکتا ہے؟ کیا یہ ہوگا؟ پہلے سوال کا جواب نفی میں اس لئے ہے کہ ذمہ دار لوگوں میں دوررس نظر ہے اور نہ بلند ہمت۔

دوسرے سوال کا جواب بھی نفی میں ہے، لیکن اس کی وجہ وہ لوگ ہیں، جو اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے ’’سٹیٹس کو‘‘ کے حامی ہیں اور یہ لوگ وہ ہیں جو اسلحہ کے سوداگر ہیں۔کشیدگی برقرار رکھنے کے حامی ہیں۔متعصب مسلمہ سازشی ہیں اور جنوبی ایشیا کو غیر مستحکم رکھنا چاہتے ہیں اور یہ خطے میں بھی ہیں اور بین الاقوامی سطح پر بھی متحرک ہیں، لیکن جیسا پہلے کہا گیا کہ تاریخ بڑی فیاضی سے تحائف تقسیم کرتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں کشیدگی کم کرنے اور ممالک کو قریب لانے کے لئے چین کابی آر آئی منصوبہ ایک ایسا ’’ہی تحفہ‘‘ ہوسکتا ہے، یہ منصوبہ ایشیاء افریقہ یورپ اور مستقبل میں جنوبی وسطی اور شمالی امریکہ کے درمیان رابطہ بن جائے گا۔

تہذیبی اور ثقافتی تعاون کا ذریعہ بھی ہوگا اور تجزیہ کاروں کو یقین ہے کہ یہ منصوبہ مغرب کے غروب اور ایشیا کے طلوع ہونے کا سبب بنے گا، اس کے لئے ایک تکون کا اکٹھے اور مضبوط ہونا بھی ضروری ہے، چین، پاکستان اور بھارت سی پیک میں شمولیت کے لئے افغانستان، ایران اور وسطی ایشیائی ریاستیں بھی تیار ہیں۔

بھارت کے وزیراعظم مودی نے ابھی تک اِس پر آمادگی ظاہر نہیں کی اور وجہ یہ بتائی کہ سی پیک مقبوضہ کشمیر سے گزرتا ہے، لیکن قراقرم ہائی وے بھی ایسا ہی روٹ ہے۔ بعض تجزیہ نگار تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بھارت کے سی پیک میں شامل ہونے سے کشمیر کا مسئلہ حل ہونے کا راستہ بھی بن سکتا ہے۔

ایک شاخ آزاد کشمیر سے مقبوضہ کشمیر اور آگے دہلی تک جاسکتی ہے، اس سے پورے کشمیر میں ایک دوسرے پر انحصار، روزگار کے مواقع، عوام کا عوام سے رابطہ، تجارت اور یہی پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی ہو جائے گا یا ہو سکتا ہے ضرورت احساس پیدا ہونے کی ہے مقبوضہ کشمیر کے عوام اور سیاسی و مذہبی رہنما بھیسی پیک اور بی آر آئی کے زبردست حمایتی ہیں بھارت کا سی پیک کا حصہ بن جانے سے دونوں پنجاب اور سندھ گجرات اور راجستھان سے Connect ہو جائے گا۔ کراچی ممبئی سے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ کراچی اور ممبئی کے درمیان باقاعدہ Ferry سروس چلتی تھی جو 1965ء کی جنگ کے بعد بند ہو گئی ۔
بھارت اور پاکستان کو ماضی کی قید سے نکلنے کے لئے ایک بنیاد کی ضرورت ہے اور وہ بنیاد سی پیک مہیا کر سکتا ہے تاکہ ہم ایک روشن مستقبل کی طرف سفر شروع کر سکیں اس کے لئے بھارت پاکستان اور چین کے درمیان ٹریک ٹو ڈپلومیسی سے آغاز کیا جا سکتا ہے، جو بالآخر ٹریک ون، یعنی بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کا عمل رہ جائے گا، جو ایک عرصہ سے تعطل کا شکار ہے بھارت میں یہ احساس ہے،لیکن انتخابات اس کی راہ میں رکاوٹ ہیں انتخابات کے بعد اس کا اظہار بھی شروع ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔

بھارت اور چین ایک دوسرے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں ضرورت ہے کہ بھارت چین اور پاکستان کی قیادت اکٹھی ہوں Geo political اور Geo Economics صورتِ حال پر بات کریں لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان بداعتمادی کی جگہ اعتماد پیدا ہو مزاحمتی Mind Set کی جگہ تعاون کا Mind set بن جائے اور آزاد خود مختار ریاستیں رہتے ہوئے تعاون اور دوستی کا نیا باب شروع کریں۔ بھارت میں ابھی تک افواج پاکستان کے بارے میں ایک Pakistan Phobia کا پراپیگنڈہ کیا جاتا رہا ہے لیکن ان کے اس جھوٹ کی ہنڈیا رائل برٹش یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ (RUSI) نے بیچ چوراہے پھوڑ دی ہے۔ RUSI کے مطابق پاک فوج ایک عرصے سے بھارت کو سی پیک کا حصہ بنانے کی خواہش مند ہے،لیکن نریندر مودی کی طرف سے کوئی حوصلہ افزا ردعمل ظاہر نہیں کیا جا رہا وجہ انتخابات ہیں، جس میں وہ پاکستان مخالف جذبات ابھار کر Vote Bank میں اضافہ کرنا چاہتا ہے ۔
پاکستانی حکومت نے وزرائے خارجہ کی سطح پر بات چیت کی تجویز پیش کی تھی، لیکن مودی کی طرف سے انکار کر دیا گیا(اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقعہ پر) RUSI کی رپورٹ میں اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا گیا کہ پاکستان ڈے پریڈ کے لئے بھارتی ملٹری اتاشی اور ان کی ٹیم کو خاص طور پر مدعو کیا گیا اور وشوا راؤ نے شرکت بھی کی تھی،لیکن ساتھ ہی واضح بھی کیا کہ امن کی خواہش کو پاکستان کی کمزوری نہ سمجھا جائے۔
فاٹا کے علاقوں میں جواب کے پی کے کا حصہ ہیں دہشت گردی کے خاتمے اور قیام امن کے بعد بھارت کے لئے موقعہ ہے کہ علاقائی تجارت بڑھانے پر غور کرے اور Ultimately اسے کرنا پڑے گا چاہ بہار کے ذریعے افغانستان کے ساتھ تجارت پاکستان اور ایران کے درمیان بڑھتے ہوئے قریبی تعلقات اور تحفظات دور ہونے سے شاید ممکن نہ رہے ہوں تو بہت مہنگا سودا ہوگا۔

پاکستان کے ساتھ معمول کے تعلقات ہر لحاظ سے بھارت کے مفاد میں ہیں اس لئے جب بھی وہاں Sanity نے Previl کیا بھارت سی پیک کا حصہ بن جائے گا اس سے پہلے بھی جنرل ضیاء الحق، راجیو گاندھی، بے نظیر بھٹو شہید، میاں نوازشریف، جنرل پرویز مشرف 2007, ء1999, ء1990, ء 1980ء میں اٹل بہاری واجپائی نے بھی آگرہ میں کوشش کی لاہور میں کوشش ہوئی۔ مینار پاکستان Visit کیا گیا، لیکن Hawks نے کوئی کوشش کامیاب نہیں ہونے دی۔

اب بھی کبھی کبھی بھارتی Establishment کی طرف سے کافی بلکہ کافی زیادہ گرم بیان آ جاتے ہیں کبھی سرجیکل سٹرائیک کا کبھی کولڈ سٹارٹ کا ذکر ہوتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ کولڈ واٹر ڈال دیا جائے گا اور Doves کامیاب ہوں گے انتہا پسندوں کو آمادہ ہونا پڑے گا کہ یہ بھارت کے مفاد میں ہے کہ بھارت CPec کا حصہ بن جائے۔(ختم شد)

مزید :

رائے -کالم -