کارکردگی کی تشہیر حقائق سے کریں!

کارکردگی کی تشہیر حقائق سے کریں!
کارکردگی کی تشہیر حقائق سے کریں!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


صبح دم جب سیر سے واپسی پر تھوڑی دیر کے لئے محفل جمی تو مرزا صاحب نے استفسار کیا کہ وفاقی مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کی بات سنی۔ ہم نے بتایا کہ انہوں نے دوسرے وزراء کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس کی اورملک کی معاشی حالت پر روشنی ڈالتے ہوئے خوشگوار گفتگو کی اور یہ بھی بتایا ہے کہ اگلے سال مارچ، اپریل سے مہنگائی کم ہو گی۔ سبزیاں اور پھل بھی سستے ہو جائیں گے، وہ مسکرانے لگے پوچھا اور کیا کہا، ہم نے پھر عرض کی کہ انہوں نے برآمد زیادہ اور درآمد کم ہونے کی بات کی اور یہ بھی کہا ہے کہ سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ مرزا منور بیگ خود ایک پریکٹیشنر انکم ٹیکس وکیل اور استاد ہیں وہ جز وقتی لیکچرار بھی ہیں اس لئے یہ تو ان کا شعبہ ہے۔ انہوں نے ہمیں یاد دلایا کہ مشیر خزانہ نے یہ بھی کہا ہے کہ حکومت نے بجلی اور پٹرول سستا کیا اور یہ مصنوعات مزید سستی کی جائیں گی۔

ہمیں حیرت ہوئی کہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے یہ بھی کہا، مرزا صاحب نے اصرار کیا کہ ایسا کہا گیا ہے تو ہمارا تجسس بھی بڑھ گیا کیونکہ موجودہ حکومت نے تو گزشتہ تین ماہ سے پٹرولیم مصنوعات میں عوام کو ایسا کوئی فائدہ نہیں دیا جو عالمی مارکیٹ میں نرخوں کی کمی سے دیا جانا چاہیے تھا اور جہاں تک بجلی سستی کرنے کا تعلق ہے تو خود وفاقی وزیر بجلی یہ کہہ چکے ہیں کہ نرخوں میں موجودہ اضافہ ناگزیر ہے البتہ جب حکومت سستی بجلی پیدا کرنا شروع کر دے گی تو قیمت کم کر دیں گے۔ قارئین ابھی تو گزشتہ دو ماہ میں دو روپے کچھ پیسے فی یونٹ تک بجلی مہنگی کی گئی جبکہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے نام پر الگ وصولی ہوئی، اس کے علاوہ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے سٹاک مارکیٹ کی تعریف کی، مرزا منور نے ذرا تفصیلی بات کی اور بتایا کہ بلاشبہ سرمایہ کاری ہوئی لیکن یہ سب سٹاک ایکسچینج میں آئی اور وہاں کاروبار ہوا، یہ سرمایہ کاری ہمارے صنعتی شعبہ میں نہیں ہوئی کہ کاروبار بڑھتا اور بقول مشیر خزانہ ملازمتیں ملتیں۔ منور صاحب نے یہ بھی بتایا کہ مزید سرمایہ ان بانڈز کے ذریعے آیا جو پاکستان کی ترقی کے حوالے سے جاری کئے گئے ہیں۔


ہمارے خیال میں تین وزرائے کی یہ پریس کانفرنس وزیراعظم عمران خان کی اس پالیسی کے تحت ہے جس کے مطابق انہوں نے ہدایت کی کہ حکومت کے اچھے کاموں کی تشہیر کی جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہر حکومت کا حق ہے کہ وہ نہ صرف تنقید کا مثبت جواب دے بلکہ خود ملکی ترقی کے لئے کئے گئے اپنے کاموں کی بھی تشہیر کرے، لیکن اس کے لئے تو بڑی احتیاط کی ضرورت ہے جو ہونا چاہیے لیکن ایسا ہونہیں رہا۔ اب یہی اندازہ لگا لیں کہ اگر مرزا حسین مرزا نے درست سنا تو پھر یہ کیسی تشہیر ہے جس میں حقائق کو ”یوٹرن“ دیا گیا کہ بجلی مہنگی ہوئی۔ تعریف کی گئی کہ سستی کی۔ پٹرولیم مصنوعات میں عالمی منڈی والی کوئی ریلیف نہیں دی کہا گیا کہ پٹرولیم کو سستا کیا، یہ صرف اس لحاظ سے درست ہے کہ اس مہینے 25پیسے فی لیٹر (ماشاء اللہ) پٹرول سستا کر دیا گیا ہے اور یہ نوید سنائی کہ آئندہ سال اشیاء خوردنی سستی ہوں گی مہنگائی کم ہو گی۔ تب تک صبر کرو اگر روٹی نہیں ملتی تو نہ سہی۔ اسی طرح بجلی کے نرخ اگر 24روپے فی یونٹ تک چلے گئے ہیں تو غم نہ کریں، آئندہ اسے سستا کریں گے۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے اس پر بڑا فخر کیا کہ آئی ایم ایف نے ان کی پالیسیوں کی تعریف کر دی ہے اور یہ بے جا بھی نہیں کہ ہم ہدایت پر ہی عمل کرکے تو تیل، گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھا رہے ہیں اور سبسڈی ختم کرتے چلے جا رہے ہیں۔البتہ یہ خوش آئند اعلان کیا کہ حکومت صنعتی شعبہ کو گیس اور بجلی کے استعمال پر سبسڈی دینے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ صنعت کا پہیہ چلے، یہ ارادہ رکھنے کی بات ہے ابھی ایسا کیا نہیں گیا۔


ہمیں تو گورنر سٹیٹ بینک کی بات بہتر لگی کہ انہوں نے ذرا صاف گوئی سے کام لیا ہے وہ کہتے ہیں کہ حکومتی پالیسیوں سے عام آدمی اور متوسط طبقے پر بوجھ پڑا ہے جب تک ان طبقات کو سہولت نہیں دی جائے گی بات نہیں بنے گی تو صاحبو! آپ سب جانتے ہیں کہ یہ بوجھ کیسا ہے۔ کساد بازاری اپنی جگہ، روزگار کے وسائل سکڑ گئے اپنی جگہ، صنعتوں کا پہیہ ”سلو“ ہو گیا اور بے روزگاری بڑھی یہ اپنی جگہ، تاہم جو بوجھ پیٹ اور جیب پر پڑا اس نے تو عام آدمی کو نڈھال کر دیا ہے۔ دالیں، سبزیاں تک پہنچ سے دور ہو گئی ہیں، فروٹ دوا کی حیثیت اختیار کر گیا اور سیزن کی سبزی اور پھل بھی مہنگے ہی بک رہے ہیں۔ یوں یہ جو ریڑھ کی ہڈی ہیں،جو ووٹ دے کر حکومتیں بناتے ہیں وہ تو فاقہ کشی تک مجبور ہو گئے ہیں، مشیر خزانہ بیٹھ کر نوید سنا رہے ہیں بہتر ہوتا کہ گورنر سٹیٹ بینک سے مشورہ کر لیتے یا پھر ان کے ساتھ تبادلہ خیال ہی کر لیتے تو شاید ایسی متضاد باتیں سامنے نہ آتیں۔


یہ سب اپنی جگہ، ملک کے اندر استحکام کی جو ضرورت ہے اسے بھی پورا نہیں کیا جا رہا، اپوزیشن کو ”پر سوناتان گریٹا“ قرار دے کر دیوار سے لگایا جا رہا ہے حتیٰ کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کی توسیع کے معاملہ پر بھی اپوزیشن کی ضرورت محسوس ہی نہیں کی جا رہی ہے یہ بھی یک طرفہ طورپر کرنے کی کوشش ہے۔ اپوزیشن سے ”تعلقات کار“ بہتر بنانا تو دور کی بات ان کو تو اور بھی زچ کیا جا رہا ہے۔ جو راہنما نیب کے کسی نہ کسی ریفرنس کی وجہ سے جیلوں میں ہیں اور ان کے ریفرنسوں کی صورت حال تسلی بخش نہیں اور ان کی ضمانت کے امکانات بڑھ گئے ہیں تو ان کو جیل میں رکھنے کے لئے اور بندوبست کیا جا رہا ہے۔ نیب کے ایگزیکٹو بورڈ میں سراج درانی، محمد شہباز شریف، رانا ثناء اللہ اور دیگر کے خلاف نئی انکوائریاں شروع کر دی ہیں اور ان کے تحت پھر سے ان حضرات کو جیل میں رکھنے کا انتظام کر لیا گیا ہے کہ نیب کے اختیارات ہی وسیع ہیں اور ان کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے، سراج درانی، رانا ثناء اللہ کی ضمانتیں متوقع ہیں، اگر ایسا ہوا تو ان سب کے لئے اگلا شکنجہ تیار ہے۔ حالانکہ کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ سے محمد شہباز شریف کی آشیانہ ہاؤسنگ سکیم کے ریفرنس میں ہونے والی ضمانت منسوخ کرانے کے لئے رجوع کیا گیا، جب فاضل جج حضرات نے ریکارڈ دیکھ کر سوال پوچھے تو یہ درخواست واپس لے لی گئی۔ اسی سے اہلیت بھی ثابت ہوتی ہے۔ اس کے بعد نئی تحقیقات شروع کرکے جائیدادیں منجمد کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا۔

مزید :

رائے -کالم -