کرتارپور راہداری: من ڈولے میرا تن ڈولے……
گزشتہ ماہ (9نومبر) جب کرتارپور راہداری کا افتتاح ہوا تھا تو اس کے لئے حکومتی سطح پر بڑے طمطراق کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہ منصوبہ واقعی تحریکِ انصاف گورنمنٹ کا ایک میگا پراجیکٹ تھا جس کے دور رس نتائج پر میڈیا نے شادیانوں کے لاتعداد بگل بجائے تھے۔ تاہم کسی نے یہ نہیں سوچا تھا کہ اس کا کوئی منفی پہلو بھی ہو سکتا ہے۔ میں نے البتہ کئی قارئین کی ناراضگی مول لے کر اپنے کالم میں لکھا تھا کہ اس پراجیکٹ کا ایک تاریک پہلو بھی ہے۔ کالم کا عنوان تھا: ”کرتارپور راہداری: مشتری ہوشیار باش!“…… اس میں گزارش کی گئی تھی کہ پاکستان کو ایک بات کا ازبس دھیان رکھنا ہوگا۔
اور وہ یہ کہ یہ رہداری جن دو ملکوں کو آپس میں زمینی طور پر ملاتی ہے وہ ایک دوسرے کے گویا ازلی حریف ہیں۔ یہ حریفانہ کشاکش نہ ہوتی تو برصغیر دو حصوں میں تقسیم ہی نہ ہوتا۔ دو قومی نظریئے کی اساس ہی یہ تھی کہ پاکستان اور بھارت انگریزوں کے چلے جانے کے بعد اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ تقریباً ایک ہزار برس (990ء تا 1947ء) اکٹھے رہے لیکن اس طول طویل مدت میں مسلمان ہی حکمران تھے۔ اور ہندو محکوم تھے۔اس 850سالہ مسلم دور کے بعد 90سالہ دور (1857ء تا 1947ء) آیا۔ بقول اقبال مسلماں کے لہو میں تو دلنوازی کا سلیقہ تھا لیکن انگریزوں کے لہو میں بھی یہی سلیقہ بااندازِِ دگر موجود تھا۔ لیکن ہندو کے خون میں یہ ”سلیقہ“ عنقا تھا، ہندو کبھی ہندوستان سے نکل کر باہر نہ گیا،اس لئے اسے بین الاقوامی حکمرانی کے آداب کا کچھ پتہ نہیں۔ مسلمان اور اہلِ فرنگ سینکڑوں برس تک دنیا کے مختلف ممالک پر حکمران رہے اس لئے ان میں وسعتِ نظر کے ساتھ ساتھ کشادگی ء قلب بھی تھی۔ یہ کشادگی ہندو کے تنگ سینے میں کبھی نہیں سما سکتی……
1947ء سے لے کر اب تک چشمِ فلک نے یہ منظر دیکھا کہ ہندو نے نہ صرف مسلمان کو بلکہ سکھ، عیسائی، بدھ اور پارسی کو بھی اپنے ہاں برداشت نہ کیا۔ ہندوتوا کا فلسفہ یہی ہے کہ وہ کسی غیر ہندو جاتی کو قبول نہیں کرتا۔
میں نے اپنے اسی 9نومبر کے کالم میں سکھوں اور مسلمانوں کی دوستی اور دشمنی کی مختصر تاریخ کا بھی حوالہ دیا تھا اور لکھا تھا کہ جب اندرا گاندھی نے دربار صاحب امرتسر پر حملہ کروایا تو تب سکھوں کو احساس ہوا کہ قائداعظم کے دو قومی نظریئے کی اصل حقیقت کیا تھی۔ لیکن چونکہ سکھ،1947ء میں اپنی قسمت ہندو سے وابستہ کر چکا تھا اس لئے اب پچھتانے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ ہندو نے ایک اور کارڈ یہ بھی کھیلا کہ سکھوں کو اپنی مسلح افواج میں ان کی آبادی سے کہیں بڑھ کر نمائندگی دے دی۔ آج انڈین ملٹری (آرمی، ائر فورس، نیوی) کے سینئر رینک میں سکھوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ انڈیا میں سکھوں کی آبادی اگر دو کروڑ ہے تو انڈین آرمی میں اس کا تناسب 15،16فیصد ہے…… یہی وہ فرق ہے جو میری نظر میں کرتارپور راہداری کے لئے ایک چیلنج ہے۔ انڈین آرمی میں لوئر اور ہائر رینکس میں سکھوں کی یہ کثیر تعداد ان کو ہندوتوا فلاسفی سے قریب تر لانے کا باعث بھی ہے۔ لیکن امرتسر، جالندھر اور گورداسپور کا ایک سویلین سکھ، ایک فوجی سکھ سے مختلف ہے۔ کوئی سویلین سکھ پاکستان کے لئے اگر کوئی نرم گوشہ رکھتا ہے تو فوجی سکھ ایسا نہیں کر سکتا، کیونکہ اس کا پروفیشن اسے ایسا کرنے سے روکتا ہے۔
کرتارپور راہداری کے کھلنے سے ہر سکھ (مرد، عورت، بچہ، بوڑھا، جوان) جب چاہے گورودوارہ صاحب میں آ سکتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ 5ہزار سکھ روزانہ (بغیر ویزہ) سرزمینِ پاکستان میں آکر اپنے مذہب کے بانی بابا گورونانک جی کی آخری آرام گاہ کی یاترا کر سکتے ہیں۔ لیکن میری نظر میں اس پراجیکٹ کا جو پہلو کھٹکتا ہے، اس کا تعلق سیکیورٹی سے ہے۔
اگر بھارت اور پاکستان آپس میں حریف نہ ہوتے تو مسئلہ اور تھا۔ یورپ کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں۔ کئی یورپی ممالک ماضی میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے رہے۔ رودبارِ انگلستان (انگلش چینل) کا 25میل چوڑا آبی علاقہ اگر نکال دیں تو لندن سے ولاڈی واسٹک تک ایک مسلسل اور ملحق زمینی راہداری بن جاتی ہے۔(اور اب تو کئی برسوں سے انگلش چینل کے زیر زمین راستے نے برطانیہ اور فرانس کو بھی ایک کر رکھا ہے)…… فرانس اور جرمنی مدتوں تک ایک دوسرے کے دشمن رہے۔1870ء کی مشہور اور خونریز فرانکو۔ جرمن وار کے علاوہ دونوں عظیم جنگیں بھی ان دونوں ممالک کی دشمنی نے شروع کیں۔ لیکن ان کی یہ باہمی دشمنی مذہب کی بنیاد پر نہیں تھی۔ دونوں کا مذہب عیسائیت تھا۔ دشمنی صرف ایک دوسرے پر علاقائی سبقت اور بین الاقوامی رقابت کی تھی۔ ہٹلر نے آکر اگرچہ جرمن قوم کو باقی اقوامِ یورپ سے نسلی طور پر ممتاز کرنے کا فلسفہ ایجاد کیا لیکن یہ فلسفہ یورپ کے یہودیوں تک محدود رہا۔
برطانوی اور فرانسیسی اقوام اس زمرے میں شمار نہ تھیں۔ لیکن اپنے برصغیر میں تو ہندو مسلم دشمنی ہندوؤں کے لئے نہ صرف مذہب پر استوار تھی بلکہ ثقافت اور قومیت تک کو محیط تھی۔ میرا موقف اس کرتارپور راہداری کے سوال پر یہ تھا کہ چونکہ پاکستان، سکھوں کو اپنی سرزمین پر آنے جانے کی کھلی اجازت دے رہا ہے اس لئے ان سکھوں سے ہوشیار رہنا ہو گا جو انڈین آرمی کے رینک اور فائل کا حصہ ہیں۔ ان کو ہندو ورغلا سکتا ہے اور پاکستان کے خلاف جاسوسی کرنے پر اکسا سکتا ہے اور اس طرح پاکستان کو سٹرٹیجک زد پذیری (Vulnerability)کا شکار کر سکتا ہے۔ بنا بریں پاکستان کی آئی ایس آئی میں ایک الگ سیل (Cell)کھولنے کی ضرورت ہو گی جو کرتارپور میں تعینات کیا جائے اور انڈیا سے جو آنے والے ہر سکھ مرد اور عورت پر نظر رکھے۔ففتھ جنریش وار فیئر کا مضمون ان دنوں میڈیا پر عام ڈسکس کیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں ہمیں سائبروار کے امکانات کو بھی بالخصوص زیر نظر رکھنے کی ضرورت ہو گی۔
پاکستان کے سیکیورٹی پرسانل جو کرتارپور احاطے میں تعینات کئے جائیں گے وہ ان پاکستانی سویلین پر بھی نظر رکھیں گے جو سکھ یاتریوں کو کھانا وغیرہ کھلائیں گے اور دیگر حقوقِ میزبانی ادا کریں گے۔ یہ میزبانی آسان نہیں، اس میں سیکیورٹی کے ہزار پہلو قابلِ نگرانی ہوں گے۔ میں اگلے روز میڈیا میں یہ خبر بھی دیکھ رہا تھا کہ کرتارپور میں جو سکھ یاتری انڈیا سے آ رہے ہیں وہ اپنے ساتھ ٹماٹر، لہسن اور ادرک وغیرہ بھی لا رہے ہیں۔ انڈین بارڈر پوسٹ پر یہ ”سبزیاں“ اس لئے قابلِ مواخذہ نہیں ہوتیں کہ سکھ یاتری یہ کہہ کر ان کو اپنے ساتھ لاتے ہیں کہ وہ ان کو لنگر پکانے میں استعمال کریں گے…… میرا اندیشہ یہ ہے کہ آج اگر ٹماٹر آ سکتے ہیں تو کل دوسرے پھل بھی بطور نذرانہ اور چڑھاوا آسکتے ہیں۔ ان پھلوں اور سبزیوں کو جاسوسی کے لئے کس طرح استعمال کیا جاتا ہے اس موضوع پر انٹیلی جنس کمیونٹی میں بہت سا مواد موجود ہے…… ہندو جیسا دشمن اپنے سکھ فوجیوں کو پاکستان کے اندر گوردوارہ صاحب میں جا کر ”پاکستانی میزبانوں“ کے ساتھ گھل مل جانے اور ان کو ”اندر“ کی خبریں لانے کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔ میرے خیال میں اب تک ”را“ نے اس ”کارِ خیر“ کے لئے اپنے ہاں ایک الگ سیل کھول دیا ہو گا۔ ذرا بلوچستان میں کلبھوشن کی کارستانیوں کو یاد کیجئے، وہ کن کن پاکستانیوں سے ملا کرتا تھا ان کو یاد کیجئے اور پھر کرتارپور میں ویسے ہی کسی ”سکھ کلبھوشن“ کی موجودگی کے امکان کو یاد کیجئے۔ اگر گزرے کل میں ”را“ پاکستان میں اپنے ایک حاضر سروس نیوی آفیسر کو بھیج کر بلوچستان کی علیحدگی کی تحریک کا ایک نیٹ ورک بنا سکتی ہے اور اسے ہر طرح سے Nourish کر سکتی ہے تو آنے والے کل میں نارووال میں کسی بھارتی سکھ حاضر سروس ملٹری آفیسر کو یہی رول کیوں نہیں سونپ سکتی؟
ابھی کل ہی پرنٹ میڈیا میں ایک ایسی خبر بھی پڑھنے کو ملی جو میرے اندیشہ ہائے دور و دراز کو تقویت دیتی ہے۔ یہ سٹوری نارووال سے روزنامہ پاکستان کے نمائندے نے فائل کی ہے کہ ایک بھارتی دوشیزہ اپنے پاکستانی محبوب سے ملنے کرتارپور پہنچ گئی اور وہاں سے پاکستان داخل ہونے کی کوشش کر رہی تھی جسے سیکیورٹی حکام نے ”بروقت“ کارروائی کرتے ہوئے ناکام بنا دیا۔ دوشیزہ کا نام منجیت کور تھا اور عاشقِ نامراد کا نام اویس تھا۔ لڑکی بھارتی پنجاب کی رہنے والی تھی اور لڑکا گوجرانوالہ کا رہائشی تھا۔ دونوں کی فیس بک پر دوستی ہوئی اور جائے ملاپ (RV) کرتارپور گوردوارہ قرار پائی۔ چنانچہ ملاقات ہوئی، ایک دوسرے کو مزید پسند کر لیا گیا اور مزید ”ٹیسٹ“ کرنے کا پروگرام بنایا گیا۔ دوشیزہ کا پلان بی یہ تھا کہ وہ کرتارپور سے پاکستان داخل ہو کر گوجرانوالہ پہنچ جائے گی اور اس طرح یہ فراق، وصال میں بدل جائے گا۔ لیکن یہ تمنا پوری نہ ہوئی اور قانون نافذ کرنے والوں نے دونوں کو پکڑ لیا۔ اویس کو وارننگ دے کر واپس گوجرانوالہ روانہ کر دیا اور منجیت کور کو بھارت بھیج دیا……اویس نے منجیت کا من تو جیت لیا تھا لیکن تن جیتنے کی آرزو پوری نہ ہو سکی۔ اب اویس کا اگلا مرحلہ کیا ہو گا یہ تو اس سے ہی معلوم کیا جا سکتا ہے لیکن میری مشکل وہی ہے کہ فیس بک نے دو دلوں کو ملانے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔فیس بک کی ”ہوائی ملاپ“ کا یہ کیس پہلا کیس نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے میرے ایک رفیقِ کار کا بیٹا جو دبئی میں تھا اس کا دل (بہ توسط فیس بک) دہلی کی ایک مسلمان دوشیزہ پر آ گیا۔ پہلے دبئی میں ملاقات ہوئی اور پھر موصوف نے دہلی میں اپنے والدین کے ہمراہ جا کر شادی کر لی۔ اب دونوں میاں بیوی شاد و آباد رہ رہے ہیں …… لیکن اب یہ کرتارپوری مسئلہ ”شاد و آباد“ رہنے کا نہیں، پاکستان کی سلامتی میں نقب لگانے کا ہے!
فرض کریں منجیت کور کو ”را“ Adopt کر لیتی ہے۔ اسے دبئی یا کسی اور ملک کا ویزہ دے کر وہاں بھیج دیتی ہے۔ دوسری طرف ہمارا اویس بھی آتشِ عشق کا مارا وہاں پہنچ جاتا ہے۔ دونوں شادی کر لیتے ہیں (اور مذہب کا اختلاف شادی میں آڑے نہیں آتا) تو ”را“ اس منجیت کور کو ایسے فرائض سونپ سکتی ہے جو اصطلاح میں (Essential Elements of Intelligence) ای ای آئی کہلاتے ہیں اور پاکستان کے لئے کسی دور رس نقصان کا باعث بن سکتے ہیں …… اس پلان بی کو یکسر ناقابلِ عمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔
کرتارپور میں لنگر کی دیگیں پکانے والے اور دوسرے میزبانی عملہ میں اگر لاہور کا کوئی انڈین خوابیدہ سیل جو ”را“نے قائم کر رکھا ہو کوئی کردار ادا کرتا ہے اور اپنے ایجنٹ اس راہداری میں بھیج دیتا ہے اور اس کے ذریعے مختلف قسم کے پاکستان دشمن عزائم کی تکمیل کی راہ ہموار ہو جاتی ہے تو کیا ایسا پلان، خارج از امکان ہو گا؟……
کرتارپور راہداری ایک دو دھاری تلوار ہے۔ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی بھارت سے آنے والے سکھوں کو وہی رول دے سکتی ہیں جو ”را“ کی طرف سے دیئے جانے والے میرے متذکرہ بالا اندیشوں کے سکے کا دوسرا رخ ہے۔…… آج اگر کوئی من جیت کور بھارتی پنجاب سے آکر ہمارے گوجرانوالہ کے اویس کا من جیت لیتی ہے اور پاکستان آ سکتی ہے اور اگر آج کوئی سکھ یاتری اپنے گوردوارے کے لنگر میں حصہ ڈالنے کے لئے ٹماٹر اور ادرک وغیرہ لا سکتے ہیں تو یہ چڑھاوے، پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے ایک بڑا چیلنج بھی تو بن سکتے ہیں اور کسی من جیت کے من میں ڈوب کر ”اُس پار“ کی خبریں لانے کی راہداری بھی تو کھول سکتے ہیں …… اسی لئے میرا من بھی ڈول رہا ہے اور تن بھی……