چھٹیوں کا ”جشن“
پچھلے دنوں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کے حکم سے تمام تعلیمی ادارے 26 نومبر کو بند ہو گئے، لیکن اس فیصلے پر طلبہ کا جو ردعمل تھا وہ بہت افسوسناک اور پریشان کن تھا۔ طلبہ کی خوشی کا یہ عالم تھا جیسے جیل سے چھوٹے ہوئے قیدی کا ہوتا ہے۔ اکثر طلبہ نے بے شمار ”میم“ بنا کر وزیر تعلیم کی تعریفیں کیں اور ان کا نام لے کر ”شفقت محمود زندہ باد“ کے نعرے بلند کئے۔ جیسے ہی چھٹیوں کا اعلان ہوا طلبہ نے فوراً ”تھینک یو شفقت“ کے سٹیٹس ڈال کر اپنی خوشی کا احساس اپنے دوست احباب تک پہنچایا۔ وزیر تعلیم شفقت محمود نے اپنا فیصلہ 23نومبر، اتوار کے دن دیا اور یہ آنکھوں دیکھی بات ہے کہ اگلے دونوں دن کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پچاس فیصد طلبہ بھی نہ آئے۔ انہوں نے سوچا ہو گا کہ چلو جہاں دو ماہ کی چھٹیاں مل رہی ہیں وہاں دو دن کی اور کر لیں تو کیا نقصان ہے۔
روایتی کلاس روم کی اہمیت کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لوگوں سے ملنا جلنا،نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینا ایک طالب علم کے لئے بہت ضروری ہے، لیکن اس موقع پرمحسوس ہوا کہ طالب علموں کو چھٹیوں کی طلب، علم سے کہیں زیادہ تھی۔ تمام تعلیمی ادارے اپنی طرف سے بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ ان کا بنایا آن لائن لرننگ کا منصوبہ رائیگاں نہ جائے، لیکن وہ تب ممکن ہوگا جب طلبہ میں بھی پڑھنے لکھنے کا شوق ہوگا اور بظاہر ابھی وہ نظر نہیں آرہا۔ پوری دنیا میں کورونا نے خوف و ہراس پھیلایا ہوا ہے اور یہاں ہمارے بچے چھٹیوں کا جشن منا رہے ہیں اور شمالی علاقوں کی طرف روانہ ہو رہے ہیں۔ بہت افسوس ہے۔ ایک زمانہ تھا جب بچے گھروں کے باہر جا کر کھیلتے تھے۔ کرکٹ یا کوئی بھی کھیل بچوں نے کڑی دھوپ میں تین چار گھنٹے لگانے ہی ہوتے تھے۔ دوستوں کے ساتھ کھیلنے کا مزا الگ اور تندرستی کی تندرستی۔ اب حالات اس کے بالکل برعکس ہیں۔ اب بچوں نے بس اپنے موبائل میں کوئی بھی گیم لگانی ہے اور اسی میں گم ہو جانا ہے۔
مثلاً اگر پب جی کھیلنے ہی بیٹھ جائے تو ایک گھنٹہ کیسے گزرا پتا بھی نہیں چلتا۔ ایک دور تھا جب والدین اپنے بچوں کو پکڑ کر گھر لاتے تھے اور اب کے و الدین انہیں باہر نکالتے ہیں کہ جاؤ کوئی کھیل کھیلو۔ ہمارے نوجوان اب ٹک ٹاک کے ذریعے مشہور ہونا چاہتے ہیں،اب گھر بیٹھ کر پیسے کمانے کو باہر جاکر کمانے پر ترجیح دی جاتی ہے۔ ہر کوئی یا تو ماڈل بنا ہوا ہے یا بلاگر۔کورونا کے باعث ملی چھٹیوں کو یہ سمجھیں کہ آپ کو ایک موقع ملا ہے۔ آپ کتابیں پڑھ سکتے ہیں، کوئی فن سیکھ سکتے ہیں،اپنے کاروبار کو زیادہ وقت دے سکتے ہیں۔ نوجوانوں سے درخواست ہے آپ ان چھٹیوں کو ضائع نہ ہونے دیں، بلکہ ان سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے آپ کو آنے والی زندگی کے لئے مزید بہتر طریقے سے تیار کریں۔