والٹیئر اور روسو میں شکر رنجی کی ابتدا
تحریر: ظفر سپل
قسط:54
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ”تہذیبی، علمی و ادبی“ فرانس نے روسو کو زیادہ گھاس نہیں ڈالی، مگر اسے چند دوست ضرور مل گئے جن میں سے ایک دیدرو بھی تھا، جس کے ذہن میں”انسائیکلوپیڈیا“ کا سودا سمایا ہوا تھا اور جب آزاد خیال دانش وروں کے حلقے پر مشتمل لکھاریوں کے مضامین سے مرصع ہو کر یہ شائع ہونا شروع ہوا تو مذہبی اور سیاسی حلقوں میں آگ لگ گئی۔ آخر کار جولائی1749ءمیں انسا ئیکلوپیڈا کے مدیر دیدرو کو گرفتار کرلیا گیا اور یہ واقعہ اکتوبر1749ءکا ہے، جب روسو اپنے دوست دیدرو سے ملنے جیل کی طرف جا رہا تھا تو راستے میں اس کی نظر اخبار کی اس خبر پر پڑی جس میںدویڑون اکیڈیمی(Academia de Dijon) کی طرف سے ایک تحریری مقابلے کا اعلان شائع ہوا تھا اور موضوع تھا،”آیا علوم و فنون کی ترقی نے اخلاق سدھارنے میں مدد دی، یا ان کو بگاڑ دیا ہے۔“ روسو لکھتا ہے کہ جیسے ہی اس نے یہ خبر پڑھی، اس پر عجیب کیفیت طاری ہوگئی۔ خیالات کے ہجوم نے اس کے ذہن پر اس قدر یورش کی کہ اس کا چلنا دو بھر ہوگیا اور وہ ایک درخت کے سائے تلے بیٹھ گیا۔ جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو اس نے دیکھا کہ اس کے واسکٹ کا سامنے والا حصہ اس کے آنسوﺅں سے تر ہو چکا تھا۔ خیر، وہ دیدرو کے پاس پہنچا اور اس نفسیاتی واردات کا ذکر کیا۔ دیدرو نے اس کو مشورہ دیا کہ وہ اس مقابلے میں ضرور حصہ لے۔ تب اس نے اس مؤقف کے ساتھ کہ”علوم و فنون کی ترقی نے اخلاق و آداب تباہ کر دیئے ہیں“ اپنا مقالہ لکھ کر اکیڈمی کو پیش کر دیا۔ اس نے جو دلائل دیئے، اس میں سے ایک تو یہ تھا کہ دنیا کی طاقتور تہذیبیں مصر، یونان اور روم جیسے ہی علوم و فنون کی ترقی کی معراج کو پہنچیں، وہ تہذیبیں عیش و عشرت میں مبتلا ہو کر زوال پذیری کے راستے پر گامزن ہوگئیں۔ دوسری دلیل اس نے یہ دی کہ علوم و فنون کے سوتے برائی و گناہ کے سرچشموں سے پھوٹتے ہیں۔ مثلاً فلکیات نے توہمات کے گھر میں جنم لیا۔ ریاضی کی ابتدا ءلالچ اور طبیعیات کی ابتدا ءاحمقانہ حیرت سے ہوئی۔ اسی طرح فصاحت و بلاغت کا سرچشمہ چاپلوسی اور مطلب براری ہے۔
اب ذرا سوچیے، اٹھارویں صدی کے وسط میں یہ وہ دن تھے جب علوم و فنون کی ترقی کی ہر طرف منادی ہو رہی تھی اور روسو نے یہ اعلان کر دیا کہ سائنس اور علوم و فنون ہمیں زوال کی کھائی کی طرف دھکیل رہے ہیں… لوگ چونک اٹھے اور ایڑیاں اٹھا اٹھا کر دیکھنے لگے کہ یہ روسو کون شخص ہے؟… اور جب روسو کو انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا تو وہ راتوں رات اس شہرت کو حاصل کر چکا تھا جس کا لوگ خواب دیکھتے ہیں… یہ روسو کی پہلی باقاعدہ تحریر تھی اور شہر دانش کے دروازے پر پہلی فتح کا پرچم بھی!
انعام تو روسو نے جیت لیا اور اس کی شہرت بھی ہوگئی، مگر یاد رکھنا چاہیے کہ وہ کوئی باقاعدہ فلسفی نہیں تھا اور نہ پیشہ ور پروفیسر۔ اس لیے لامحالہ اس کی تحریر میں اسلوب کی ناپختگی اور دلائل کے تضادات کو آسانی سے نشان زد کیا جا سکتا تھا۔ اس لیے دانشوروں نے اس کے دعوے کی تردید میں دلائل کے انبار لگا دئیے۔ اب اس نے یہ طرز استد لال اپنایا کہ علم ہر ایرے غیرے کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ صرف ذہین و فطین اشخاص کے ساتھ مختص ہے اور زوال سے بچنے کا راستہ صرف یہ ہے کہ فطرت کی آغوش میں پناہ لی جائے۔ یہ گویا کلاسیکیت کے عہد کے خاتمے اور رومانیت کے نظرئیے کے ابھار کا آغاز تھا۔ اپنے نظرئیے پر ایمان کی عملی تفسیر کا نمونہ بننے کے لیے سب سے پہلے اس نے اپنی گھڑی یہ کہہ کر فروخت کر دی کہ جب فطرت انسان کو دن رات کا فرق بتا دیتی ہے تو پھر گھڑی رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔
1753ءمیں دویڑون اکیڈیمی نے ایک بار پھر تحریری مقابلے کا اعلان کیا۔ اس دفعہ مقالے کا موضوع تھا:”انسانی عدم مساوات کا منبع اور اس کے اسباب“ (Origin and Basis of Inequility among men) اس دفعہ روسو نے اس استد لال کے ساتھ مقالہ قلمبند کیا کہ عدم مساوات کا سب سے بڑا سبب ذاتی املاک کا تصور ہے۔ جس کا آغاز قابل افسوس زرعی انقلاب کے ساتھ ہوا اور پہلا دن وہ دن تھا جب کسی شخص نے ایک قطعہ اراضی کو گھیر کر کہا کہ یہ زمین کا ٹکڑا میرا ہے اور پھر اس کو ایسے سادہ لوح لوگ بھی مل گئے جنہوں نے اس کی بات کا یقین بھی کر لیا۔ یہی پہلا شخص سول سوسائٹی کا حقیقی بانی تھا۔ اب سوال یہ تھا کہ اس صورت حال سے نجات کیسے حاصل کی جائے۔ روسو نے مؤقف اختیار کیا کہ تہذیب کو ترک کرکے فطرت کی طرف واپس لوٹ جایا جائے، جہاں کھانا کھا چکنے کے بعد تمام انسان ایک جیسے، پرامن اور ایک دوسرے کے دوست بن جاتے ہیں۔
اس دفعہ روسو کو اس مقالے پر انعام نہیں ملا۔ مگر اس نے اپنا مقالہ والٹیئر کو بھیج دیا۔ والٹیئر کا واپسی جواب مزے کا تھا۔ اس نے لکھا:
”نسل انسانی کے خلاف آپ کی نئی کتاب مجھے مل گئی۔ اس کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ ہم سب کو احمق بنانے کے لیے ایسی ہوشیاری کبھی استعمال نہیں کی گئی۔ آپ کی کتاب پڑھتے ہوئے انسان کا جی چاہتا ہے کہ وہ اپنے ہاتھ پاﺅں پر چلنا شروع کر دے۔ چونکہ یہ بات میں60 سال پہلے ترک کر چکا ہوں، اس لیے نئے سرے سے ایسا نہ کرنے کے امکان پرمجھے ناخوشی ہو رہی ہے۔“
یہ والٹیئر اور روسو کے تعلقات میں شکر رنجی کی ابتدا ءتھی!(جاری ہے )
نوٹ :یہ کتاب ” بک ہوم “ نے شائع کی ہے ، جملہ حقوق محفوظ ہیں (ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں )۔