ایسی جمہوریت میں بادشاہوں کو مات نہیں آتی

ایسی جمہوریت میں بادشاہوں کو مات نہیں آتی
 ایسی جمہوریت میں بادشاہوں کو مات نہیں آتی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عزیر بلوچ کی گرفتاری سے پردہ کیا اٹھا کہ جیسے ٹی وی اسکرینوں پر بھونچال آگیا۔ ہر اینکر نے اسے ہی موضوع بحث بنایا۔ چینلوں کی خبروں کے مطابق اس نے سینکڑوں لوگوں کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کی، اس نے یہ بھی بتایا کہ اس نے دہشت گردی کے لئے لوگوں کو رقوم فراہم کیں۔ عزیر کے حوالے سے اور اس کے بارے میں وہ سب کچھ کہا گیا جو اگر یورپ یا امریکہ میں کسی کے بارے میں کہا جاتا تو ذرائع ابلاغ کو بہت کچھ بھگتنا پڑتا۔پی پی رہنماؤں کے ساتھ اس کے تعلق کو جوڑنے کی کوششوں میں ٹی وی والے اس کے گھر پہنچ گئے۔ اس کی والدہ اور اہلیہ سے ملاقاتیں کر کے انکشافات کی کوشش کی گئی کہ کہیں سے یہ ثابت ہو جائے کہ سابق صدر آصف علی زرداری کے کہنے پر اس نے کن کن جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ فریال تالپور اسے جانتی تھیں یا نہیں ؟ اس سے قبل ڈاکٹر عاصم سے کی گئی تحقیقات کو بھی کسی مصدقہ حوالے کے بغیر ایسے ظاہر کیا گیا جیسے دوران تفتیش چینل کے رپورٹر موجود تھے۔ یہ ٹھیک ہے کہ رپورٹروں کے اپنے ذرائع ان جے آئی ٹی میں نقب لگا دیتے ہیں اور انہیں معلومات فراہم کردیتے ہیں جن میں پولس یا دیگر ادارے دلچسپی رکھتے ہیں ،تاکہ کسی مخصوص سیاسی رہنماء کی تذلیل ہو سکے۔ عزیر نے ممکن ہے بہت کچھ کہا ہو ،لیکن کیا اس کے کہے کی عدالت کی تصدیق کے بغیر کوئی حیثیت بنتی ہے جسے ذرائع ابلاغ پیٹتے رہیں۔


صولت مرزا سے کی جانے والی جے آئی ٹی کے علاوہ چینلوں کو اس سے کئے گئے انٹر ویو کی فلم بھی فراہم کی گئی جو ملک کے اہم اور ذمہ دار اداروں نے کیا ہوگا۔ ہر چینل نے اس وڈیو پر ایکسکلوسیو لکھا۔ صولت مرزا نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین و دیگر رہنماؤں کے خلاف الزامات لگائے۔ اگر صولت مرزا کا انٹر ویو معاملات کو بہتر کرنے کے لئے کیا گیا تھا یا معلومات حاصل کرنے کی کوشش تھی تو اسے مناسب طریقے سے استعمال کرنا چاہئے تھا۔ اس ا نٹر ویو کو جس بھونڈے انداز میں استعمال کیا گیا، اس کا پہلا نتیجہ این اے 246پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں سامنے آ گیا تھا ۔ پھر بلدیاتی انتخابات کے نتائج بھی سامنے آ ئے ۔ اور اب عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی لوگوں کو ہیجان میں مبتلا کرنے کی کوشش ہے۔ دوسرے معنوں میں یہ بھی کہ انہیں چٹخارے دار خبروں کا چسکہ د ینا ہے۔ ماضی اس طرح کی کوششوں سے بھرا پڑا ہے۔ ایوب خان کے مارشل لا ء کے نفاذ کے فوری بعد کی خبریں دیکھیں تو ایسا ہی لگتا ہے کہ مقصد صرف یہ ہے کہ سیاست دانوں کی کردار کشی ہو سکے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں کیا کچھ نہیں ہو چکا ہے۔ بھٹو مرحوم کے بارے میں ان کے حسنہ شیخ کے ساتھ تعلق کو ثابت کرنے کی کوششیں حدود پھلانگ گئی تھیں۔ ایک انتخابی مہم کے دوران مرحومہ نصرت بھٹو کی امریکی صدر فورڈ کے ساتھ ڈانس کرتی ہوئی تصاویر شائع کرائی گئیں۔ بیگم نسیم ولی کے بارے میں خبریں شائع کرائی گئی کہ انہوں نے لندن میں کسی اسٹور سے انڈر ویئر چوری کیا ۔ پھر اس کے بارے میں خبریں شائع ہوتی رہیں۔ آج چینلوں میں استعمال کی جانے والی زبان میں کہا جاتا ہے کہ منجن مل گیا۔ کردار کشی کی لاتعداد مہمات چلا ئی جا چکی ہیں۔ نتائج کیا بر آمد ہوئے ؟ بہت سارے منجن استعمال کئے جا چکے ہیں۔ انتخابی نتائج میں مطلوبہ تبدیلی آنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ مطلوبہ تبدیلی کے لئے جو کچھ درکار ہے وہ اس ملک میں اکارت ہے۔


عزیر بلوچ نے شر کا کام کیا، خیر کا کام کم کیا ہوگا ۔ ایک سے زائد قتل کئے ہوں گے، بھتوں کی بہتات کی ہوگی، دہشت گردوں کے ساتھ اس کے روابط ہوں گے، تفتیش میں اس نے وہ کچھ بتایا ہوگا جس کے بارے میں عوام لا علم ہیں ۔ بہت سارے معاملات تو ایسے بھی ہیں جن سے با اختیار بڑے لوگ لا علم نہیں رہے ہوں گے ،لیکن کیا ضروری نہیں تھا کہ عزیر بلوچ کے خلاف مضبوط مقدمہ عدالت کے رو برو پیش کیا جاتا اور عدالت کے فیصلے سے قبل وہ کچھ نہیں کیا جاتا جسے کردار کشی بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جرائم کا ہمیشہ سے اہم تریں کردار رہا ہے۔ مجرموں کی پرورش کرنا اہل اقتدار کا پسندیدہ مشغلہ اور ضرورت رہی ہے۔ کرائے کے قاتلوں کی تاریخ طویل ہے۔ اسی کراچی میں دادل، کالا ناگ اور شیرو کا دور بھی لوگوں کو یاد ہے۔ وہ دور چاقو اور خردم کے استعمال کا دور تھا ۔ شیرو سے شہر کانپتا تھا۔ دادل سے لوگ دہلتے تھے۔ کالا ناگ کراچی سے نواب شاہ تک کی مار کرتا تھا۔ اس کے پھن کی آواز سے سب ہی گھبراتے تھے۔ ماضی میں پولس کا بھرم بھی تھا اور اس کے افسران قانون کا علم رکھتے تھے ۔ بدمعاشوں کا سلسلہ پاکستان کے کس شہر میں نہیں تھا یا ہے ، لیکن جرائم پیشہ یا جرائم کے مرتکب افراد کو جس طرح کی شہرت آج کل ٹی وی دینے پر تلے ہوئے ہیں اس کے نتائج سے بے خبر لوگ آگ سے کھیل رہے ہیں۔ پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ ہتک عزت کے دعووں اور مقدمات سے دو چار نہیں ہوئے ہیں۔


سیاست دان جس طرح رگیدے جارہے ہیں، انہوں نے خود بھی اپنے لئے یہ ساما ن پیدا کیا ہے۔ ان سے ایسی ایسی بدعنوانیوں کی کہانیاں منسوب ہیں کہ قوم اور ملک کی ’’ خدمت‘‘ کے دعویداروں کو زیب نہیں، لیکن کیا کریں اس ملک میں سیاست کو ہمارے ناقص نظام اور بے اثر قانون، بے زبان جمہوریت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اتنا بے اثر کر دیا ہے کہ اب سیاست ، کرپشن اور کرائم چولی دامن کا ساتھ رکھتے ہیں۔ قومی احتساب بیورو (نیب) سے لے کر الیکشن کمیشن تک کوئی نہیں پوچھتا کہ اتنا پیسہ کہاں سے آیا جو انتخابی مہم پر خرچ کیا گیا، ان کے گھروں میں دولت کی ریل پیل کیوں کر ممکن ہوئی کہ رہن سہن ہی بدل گیا۔ ٹی وی چینلوں پر جس طرح کی جنگ جاری ہے اس کے نتائج سے نادان لوگ بے خبر ہیں۔ شطرنج کے مہرے یہ پیادے کیا جانیں کہ بادشاہ کو کبھی مات نہیں آئے گی۔ اس ملک میں، جس طرح کی جمہوریت ہے اس میں بادشاہوں کو کیوں کر مات آسکتی ہے۔ پیادوں کی تو موت ہی واقع ہوجاتی ہے، لیکن پیادوں کی اس ملک میں کوئی کمی نہیں ہے۔

مزید :

کالم -