وائس چانسلر کی تلا ش میں پرائیویٹ یونیورسٹی کا کردار

وائس چانسلر کی تلا ش میں پرائیویٹ یونیورسٹی کا کردار
 وائس چانسلر کی تلا ش میں پرائیویٹ یونیورسٹی کا کردار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان میں تعلیم اور نظام تعلیم ہمیشہ بحث کا موضوع رہے ہیں۔ مستقل بنیادوں پر تعلیم سے متعلقہ اہم مسائل کوحل نہ کرنا یہ ظاہر کرتاہے کہ ہمیں تعلیم اور اس کے معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں۔ پورے ملک میں دس قسم کے نصاب چل رہے ہیں اوران کی ہیئت اپنے اپنے نظریات کی بنیاد پر استوار کی گئی ہے۔ تعلیمی درس گاہوں میں پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کا کردار ہمیشہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور ان کے سربراہوں کا تقرر یونیورسٹی کی ترقی اور اہداف کے تعین سے منسلک ہونا چاہئے ، مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ وائس چانسلروں کے تقرر کا کوئی معیاری طریقہ کار موجود نہیں۔گزشتہ دو سال سے وائس چانسلروں کا تقرر ایک گھمبیر مسئلے کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے اور میاں محمد شہباز شریف کی گڈ گورننس کا ان کے اپنے ہی لوگ مذاق اڑا رہے ہیں۔ گزشتہ برس بھی میاں شہباز شریف کی بنائی ہوئی سرچ کمیٹی نے ایسے ایسے گل کھلائے کہ بعض آسامیوں کو دوبارہ مشتہر کرنا پڑا ، جس کا صاف مطلب ہے کہ سرچ کمیٹی اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام ہو گئی۔


سرکاری یونیورسٹیوں میں وائس چانسلروں کے تقرر کا کام ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے مالک کو سونپ دینا کہاں کی گڈگورننس اور کہاں کی تعلیم کے ساتھ محبت ہے؟ پھر اس کمیٹی میں ایک ہی ادارے کے سارے ممبربھرتی کرنے کے بعد بہتر نتائج کی توقع رکھنا فضول ہے۔ یہی کچھ دو سال سے ہورہا ہے۔۔۔ لاہور کالج فارویمن یونیورسٹی کا کیس ہی دیکھ لیں، کچھ عرصہ پہلے بھی سلیکشن نہ ہوسکی کہ میرٹ پر آنے والوں کو پیچھے رکھا گیا اورسفارشی لوگوں کو آگے لا کر نہ صر ف وزیراعلیٰ کو ناراض کیا گیا، بلکہ تعلیمی پراسیس میں بھی مداخلت کی گئی۔ تب بھی ڈاکٹر رخسانہ کوثر واحد امیدوار تھیں جو میرٹ پر پوری اُتر تی تھیں، مگر انہیں مجبور کردیا گیا کہ وہ وزیراعلیٰ کو حقائق سے آگاہ کریں۔ جب ان کی حقائق سے بھر پور درخواست پرایکشن ہوا تو پھر دوسرا راستہ اختیار کیا گیا اور آسامی کو دوبارہ مشتہر کرنے کا مشورہ دے کر وزیراعلیٰ کو ایک بار پھر گمراہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں وقت بھی ضائع ہوا۔


اب نئی کہانی یہ ہے کہ کئی نئے اُمید وار بھی سامنے آگئے ہیں جو قابل بھی ہیں اور20سے 30سال کا انتظامی و تدریسی تجربہ بھی رکھتے ہیں، مگر شارٹ لسٹ کرتے وقت لاہور کالج سے ہی ایک ایسی اُمید وار کا نام ڈال دیا گیا جو پہلے کسی بھی لسٹ میں نہیں تھا۔ سرچ کمیٹی کے ممبران سے کوئی پوچھے کہ ایک سال میں اس امید وار میں کیا بڑی تبدیلی آ گئی ہے کہ ایک دم سے اس کا نام پہلی تین اُمید واروں میں آگیا ہے؟ ہمارے خیال میں سرچ کمیٹی کے اراکین اس کام کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے اور ہر کسی کی پسند ناپسند کسی نہ کسی کو اگلے نمبروں پر لا کر کھڑا کر دیتی ہے اورTry Try Again کے اصول کے تحت وائس چانسلروں کا تقرر آگے چلا جاتا ہے اور ادارے مزید کمزور ہو جاتے ہیں جو پرائیویٹ یونیورسٹی کے مالکان کی گہری سازش ہے۔ لاہور کالج فارویمن یونیورسٹی، جسے ڈاکٹر بشریٰ متین اورڈاکٹر صبیحہ منصور جیسی سربراہان نے ترقی دی، آج لاوارثوں کی طرح اپنی ترقی کا عمل روکے ہوئے ہے۔


موجودہ صورت حال میں جامعہ پنجاب کے لئے تو ایکٹنگ وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران صرف اپنی کارکردگی اورپروفائل کی بنیاد پر آگے آ رہے ہیں،مگر لاہور کالج فارویمن یونیورسٹی کی صورت حال گھمبیر ہو چکی ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ سرچ کمیٹی کے اراکینسی وی دیکھتے ہی نہیں تو یہ بجا ہے، کیونکہ تجربہ اور پبلی کیشنز اہم چیزیں ہوتی ہیں، مگر گزشتہ برس کی من پسند امید وار کی بھی پبلی کیشنز معیار کے مطابق نہیں نکلی تھیں اوراب بھی سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن کے پاس متعدد اپیلیں جمع ہو چکی ہیں، جن میں کسی من پسند امید وار کی انہی دو نوں قابلیتوں کوچیلنج کیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرچ کمیٹی کی سفارشات اوراس کی مسلسل ناکامی کیاہماری حکومت کی بہتر کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان نہیں ہے؟ مَیں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ سرچ کمیٹی کے اراکین وہ جگنو نہیں جو آپ کو تعلیم یا کسی بھی معاملے میں روشنی دے سکیں، لیکن وزیر اعلیٰ تاحال ان کے سحر سے باہرنہیںآسکے۔ تجربہ کار ماہرین تعلیم کی اس ملک میں کمی نہیں۔ سرچ کمیٹی کے اراکین کے نام تک خفیہ ہونے چاہئیں، مگر یہاں تو ان اراکین کے گھروں میں روزانہ امیدواروں کا آنا جانا لگا رہتا ہے ۔۔۔کچھ بھی کہہ لیں، یہ موجودہ حکومت کی گڈ گورننس اورمیاں شہباز شریف کے اعلیٰ تعلیمی وژنپر ایک داغ ہے، جسے وہ خود ہی دھو سکتے ہیں۔

مزید :

کالم -